اپوزیشن نے اپنے طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس کو ہنگامہ آرائی کی نذر کرنے کی بجائے، اسے دنیا تک اپنا نقطۂ نظر پہنچانے کا ذریعہ بنایا، اور یوں اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف، خواجہ محمد آصف اور پیپلز پارٹی کے جناب خورشید شاہ کی تقاریر نے سماں باندھ دیا تھا۔ جواب میں اپوزیشن کے لیے جناب وزیر اطلاعات کی وہی جلی کٹی تھیں، جن میں اب عام آدمی کی دلچسپی کے لیے کچھ نہیں۔ اپوزیشن نے اس اجلاس کے لیے شہباز شریف کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری (5 اکتوبر) کے اگلے ہی روز ریکوزیشن دے دی تھی (کل ارکان کے 25 فیصد دستخطوں کے ساتھ ریکوزیشن پر سپیکر 15 دن کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے) جناب سپیکر نے اجلاس میں شہباز شریف کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کر دیا تھا۔ اجلاس میں کسی بھی زیر حراست رکن کی شرکت کو یقینی بنانا، قواعد و ضوابط کے تحت جناب سپیکر کے فرائض منصبی کا حصہ ہے‘ اور یہاں تو معاملہ زیر حراست قائد حزب اختلاف کا تھا۔ خورشید شاہ نے درست فرمایا کہ قائد حزب اختلاف کی گرفتاری 1988ء کے بعد پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا (افسوسناک) واقعہ تھا۔ بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان‘‘ میں یہ اعزاز اُس دور کے قائد حزب اختلاف خان عبدالولی خاں کے نصیب میں لکھا گیا۔ ولی خان کے والد عبدالغفار خان کی زیر قیادت سرخ پوش تحریک نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد، ولی خان کی زیر قیادت سرخ پوشوں کی نئی سیاست تھی جو ڈکٹیٹر ایوب خان کے مقابل قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ 1971ء کے سیاسی بحران میں بھی انہوں نے یحییٰ، بھٹو، مجیب مذاکرات کی کامیابی کے لیے بھرپور کوشش کی تھی۔ مارچ 1973ء میں لیاقت باغ پنڈی میں اپنے درجنوں کارکنوں کے قتل کے باوجود انہوں نے 1973ء کے آئین کی اتفاق رائے سے منظوری میں اہم کردار ادا کیا، پھر بھی ان کی حب الوطنی مشکوک رہی۔ نیشنل عوامی پارٹی خلافِ قانون قرار پائی اور ولی خان اپنے سیاسی رفقا سمیت غداری کے الزام میں حوالۂ زنداں کر دیے گئے۔
اور اب قائد حزب اختلاف شہباز شریف، نیب کے زیر حراست ہیں۔ ان کے شریک ملزمان میں سے ایک (احد چیمہ) کی حراست کو آٹھ ماہ اور دوسرے (فواد حسن فواد) کی حراست کو تین ماہ سے زائد ہو چکے‘ اور نیب ابھی تک انہیں وعدہ معاف گواہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس حوالے سے ''نیب ذرائع‘‘سے پھیلائی جانے والی خبریں، تاحال غلط ثابت ہوئی ہیں۔
ایوان میں شہباز شریف کی زبانی سابق آرمی چیف جنرل پرویز کیانی اور ان کے چھوٹے بھائی میجر (ر) کامران کیانی کی کہانی بھی دلچسپ تھی۔ یہ 2008ء میں شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کی کہانی ہے۔ لاہور کی ایک سڑک کی کہانی، جس کا 35 ارب روپے کا ٹھیکہ چودھری پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ (اور پرویز مشرف کی صدارت) کے دور میں میجر (ر) کامران کیانی کو ملا‘ لیکن اس دوران دھیلے کا کام نہ ہوا۔ شہباز شریف نے اس پر کوئی ایکشن لینے سے قبل آرمی چیف جنرل کیانی سے بات کرنا مناسب سمجھا۔ شہباز صاحب کے بقول جنرل کا کہنا تھا کہ کامران ان کا چھوٹا بھائی ہے، جسے انہوں نے بیٹے کی طرح عزیز رکھا (ہارون الرشید نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھا کہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے کیانی اپنی ملازمت کے ابتدائی دور میں کئی بار دوپہر کا کھانا نہ کھاتے کہ یہ پیسے گھر میں ان کے بہن بھائیوں کے کام آئیں گے) شہباز صاحب سے جنرل کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی اب اپنا بزنس کر رہے ہیں تو ان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، وزیر اعلیٰ جو مناسب سمجھیں کارروائی کریں... اور وزیر اعلیٰ نے 35 ارب روپے کا یہ ٹھیکہ منسوخ کر دیا۔ جناب کیانی اس کے بعد بھی (زرداری+گیلانی دور میں ملنے والی فل ٹرم ایکسٹینشن کے ساتھ) آرمی چیف رہے اور شریف برادران کے ساتھ ان کے ''تعلقات‘‘ میں کوئی فرق نہ آیا۔ ہمارے بعض دوست آرمی چیف کیانی سے شہباز صاحب (اور چودھری نثار علی خاں) کی جن ''خفیہ‘‘ ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے رہے، کیا یہ وہی ملاقات تھی؟
زیر حراست شہباز شریف کی سپیکر کے پروڈکشن آرڈر پر ایوان میں موجودگی، پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ کارِ خیر سب سے پہلے نواز شریف کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہوا، تب محترمہ بے نظیر بھٹو قائد حزب اختلاف تھیں اور جناب آصف زرداری کو لانڈھی جیل کراچی سے، اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد لایا گیا تھا (اور ان کے خیر مقدم کے لیے وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین ایئر پورٹ پر موجود تھے) شہباز شریف کو تو یہ سہولت صرف ایک دن کے لیے ملی کہ اسی شام جناب سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا تھا‘ زرداری صاحب کے لیے یہ سہولت طویل ہوتی تھی کہ اجلاس کئی دن جاری رہتا۔ اس دوران ان کے قیام، طعام کا سرکاری انتظام اسلام آباد کے ایک ریسٹ ہائوس میں ہوتا تھا۔ محترمہ بھی وہیں قیام کرتیں۔ جناب زرداری کے خلاف یہ مقدمات، محترمہ کی پہلی حکومت کی برطرفی کے بعد صدر غلام اسحاق خان کے حکم پر نگران وزیر اعظم جتوئی کے دور میں بنے تھے۔ اب اپنے ''قیدی‘‘ کے لیے اسلام آباد میں اس اہتمام پر صدر صاحب خوش نہیں تھے۔ وزیر اعظم نوازشریف کے خلاف ان کی شکایات میں یہ ایک اور اضافہ تھا۔ اپنے ذاتی احباب سے ملاقاتوں میں، وہ یہ کہے بغیر نہ رہتے کہ یوں لگتا ہے، وہ یہاں ہنی مون منانے آیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی بھی، اپنے سیاسی مخالف کی اس آئو بھگت پر سخت کبیدہ خاطر ہوتے۔
بزرگ صحافی جناب نصرت جاوید ہماری اصلاح کا ذریعہ بنے، ان کے بقول، اس سے قبل جنرل ضیاء الحق والی (1985ء کی) غیر جماعتی اسمبلی میں، لاہور کے شیخ روحیل اصغر کو بھی حلف برداری کے لیے جیل سے پا بجولاں لایا گیا تھا، وہ قتل کے ایک مقدمے میں ملزم تھے۔ (دو خاندانوں میں روایتی دشمنی پر کئی جانیں لی گئی تھیں‘ روحیل کے والد شیخ اصغر اور بھائی بھی جس کی بھینٹ چڑھ گئے تھے)
نواز شریف کے اُس دور کا ذکر چھڑا، تو یاد آیا کہ نوجوان وزیر اعظم نے حزب اختلاف کے ساتھ خوشگوار تعلقاتِ کار کے لیے کچھ اور اقدامات بھی کئے تھے۔ مثلاً قائد حزب اختلاف کے لیے سینئر منسٹر کے پروٹوکول کا اہتمام (قائد حزب اختلاف کے بیرون ملک سفر کے دوران، وہاں کے پاکستانی سفارت خانے بھی اس کا اہتمام کرتے) نومبر/دسمبر 1992ء کا، محترمہ کا ٹرین مارچ ناکام ہو گیا تھا، اس کے باوجود انہیں فارن افیئرز کمیٹی کا بلا مقابلہ چیئر پرسن منتخب کر لیا گیا۔ یاد پڑتا ہے، اس کے لیے محترمہ کا نام خود شہباز شریف نے تجویز کیا تھا (جو اس قومی اسمبلی کے رکن تھے) آصفہ کی ڈلیوری کے لیے محترمہ لندن گئیں، تو سرکاری استحقاق کے مطابق اس کے تمام اخراجات بھی قومی خزانے سے ادا کئے گئے۔ یہ الگ بات کہ 18 اپریل کو وزیر اعظم نواز شریف کی برطرفی کے فیصلے کے لیے، صدر غلام اسحاق خان کو محترمہ کی بھرپور تائید حاصل تھی۔ وہ اس کے لیے لندن سے واپسی پر سیدھے ایوان صدر تشریف لے گئی تھیں۔ مردِ امانت و دیانت کہلوانے والے صدر غلام اسحاق خاں کو آصف زرداری کو لانڈھی جیل سے نکلوا کر، میر بلخ شیر مزاری کی نگران کابینہ کا حلف دلوانے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔
محترمہ کے دوسرے دور میں، کلاشنکوف کیس میں زیر حراست شیخ رشید کے لیے سپیکر یوسف رضا گیلانی کے پروڈکشن آرڈر بھی ہماری پارلیمانی تاریخ کا قابل قدر واقعہ ہیں، جس کے لیے انہوں نے وزیر اعظم صاحبہ کی ناراضی کی بھی پروا نہ کی۔ تب شیخ صاحب، نواز شریف کے متوالے تھے، ایوان کے اندر اور باہر اپنے لیڈر کی قصیدہ گوئی کے ساتھ خاتون وزیر اعظم پر تبرہ بازی بھی ان کی تقریر دلپذیر کا لازمی حصہ ہوتی۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے