دنیا بھر کی ترقی یافتہ اقوام اپنے بارے میں خواہ کچھ کہتی پھریں‘ مرزا تنقید بیگ کا ان کے بارے میں ایک بنیادی ''نظریہ‘‘ یہ ہے کہ یہ اقوام کام کم کرتی ہیں اور اُس کے بارے میں پروپیگنڈا زیادہ کرتی ہیں! مرزا کا خیال ہے کہ کام کرنے سے زیادہ توجہ ''کمپنی کی مشہوری‘‘ پر مرکوز رکھی جاتی ہے۔ اور اس کا بنیادی سبب کام سے جان چھڑاتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ اُن سے زیادہ کام تو کوئی کرتا ہی نہیں۔
مرزا کی کسی بھی بات سے ہمارا یا آپ کا متفق ہونا کسی بھی درجے میں لازم نہیں۔ وہ بسا اوقات ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ متفق ہونے کی صورت میں آپ کے لیے وضاحت سرنگ سے گزرنے کی سی کیفیت اختیار کرسکتی ہے! تمسخر برطرف‘ مرزا کی اِس بات سے تو خیر بخوبی متفق ہوا جاسکتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کام کم کرتی ہیں اور کام کے حوالے سے چونچلے بازی زیادہ کرتی ہیں۔ ایک زمانے سے ان اقوام نے ایک دھندا شروع کر رکھا ہے جسے کام کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق کہا جاسکتا ہے۔ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور جاپان میں ہزاروں ماہرین کام اور آرام کے تفاعل کے حوالے سے تحقیق میں مصروف ہیں۔
مرزا کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں کام پر زور دیا جاتا ہے ‘مگر ترقی یافتہ اقوام نے کام کے حوالے سے سو طرح کی بدگمانیاں پھیلانے کی ٹھان رکھی ہے۔ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والی اقوام جب عام ڈگر سے ہٹ کر زیادہ کام کرنے کا سوچتی ہیں تب اچانک کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہے جس میں کام کے خطرناک نتائج سے متنبہ کیا جاتا ہے۔ یہ تو ہمیں کوئی سازش معلوم ہوتی ہے‘ یعنی پوری کوشش کی جارہی ہے کہ پسماندہ اقوام زیادہ کام نہ کریں اور آرام پر زیادہ سے زیادہ متوجہ ہوں۔ کام اور آرام کے حوالے سے بہت سی خبریں جاپان سے بھی آتی رہی ہیں۔ مغربی دنیا کی طرح وہاں بھی زندگی بہت حد تک مشینی ہوکر رہ گئی ہے۔ وہاں بھی کام نہ صرف یہ کہ زندگی کی بنیادی قدر کا درجہ رکھتا ہے بلکہ سب کے لیے تقریباً لازم بھی ہے۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے بھی چھوٹے موٹے کام کرکے اپنے اخراجات پورے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نفسیات اور عمرانیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ چھوٹی عمر سے عملی زندگی شروع کرنے یعنی کمانے سے انسان میں اعتماد اور عزتِ نفس کا گراف بلند ہوتا ہے ‘جو زندگی بھر کام آتا ہے۔ دوسرے بہت سے ترقی یافتہ معاشروں کی طرح جاپان کا بھی یہ حال ہے کہ لوگ صبح سے شام تک کام کرتے ہیں اور ہفتے میں پانچ دن اس طور گزارتے ہیں کہ جب آرام کے دو دن نصیب ہوتے ہیں تو دنیا جنت جیسی دکھائی دینے لگتی ہے!
اب ترقی یافتہ ممالک میں کام اور آرام کے درمیان پایا جانے والا عدم توازن دور کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ کام کی زیادتی سے زندگی کچھ کی کچھ ہوگئی ہے اور اُس کی چُولیں ہِل گئی ہیں اور چُولوں کو پھر سے بٹھانے کے لیے ناگزیر ہے کہ کام سے رغبت کا گراف نیچے لایا جائے! جاپان میں کئی ادارے اس کوشش میں ہیں کہ لوگ کام کم کریں اور نیند پوری کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ کام کی زیادتی سے نیند متاثر ہو رہی ہے اور نیند کے متاثر ہونے کے نتیجے میں کارکردگی کا گراف نیچے آرہا ہے۔
مرزا کی منطق (خاکم بدہن) درست معلوم ہوتی ہے۔ جن ممالک کو بھرپور ترقی کرنا تھی انہوں نے کرلی اور اب جو ممالک کچھ کرنا چاہتے ہیں انہیں کام سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے لیے نفسیات کے ماہرین سے بھی مدد لی جارہی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ کام کرنے سے جسم غیر متوازن ہو جاتا ہے اور کبھی یہ فرمایا جاتا ہے کہ کام کی زیادتی سے زندگی کا معاشرتی پہلو بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ معاشرے نے جسم ہی نہیںاعصاب کو بھی شکست و ریخت سے دوچار کرنے والے معمولات کے ساتھ محنت کرکے کچھ مقام بنایا ہے‘ کچھ نام کمایا ہے۔ یہ سب تو ہوگیا۔ اب جب پس ماندہ معاشرے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کام کے شدید منفی نتائج اور اثرات سے ڈرایا جارہا ہے۔ یہ تو سراسر بے ایمانی‘ بلکہ ''بے ایمانٹی‘‘ ہے!
جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں شادی سے متعلق تمام انتظامات کرنے والی کمپنی ''کریزی‘‘ نے اپنے ملازمین کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے لیے نیند کی کمی کا ٹیکنالوجی کے ذریعے درست اندازہ لگانے والی کمپنی ''ایئر ویوز‘‘ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کمپنی اپنی ایک خصوصی ایپ کے ذریعے اندازہ لگائے گی کہ نیند کی کمی سے کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں اور نیند پوری ہو جانے پر کارکردگی کس طور بہتر ہوتی جاتی ہے۔ جب مرزا نے یہ خبر پڑھی تو دونوں کمپنیوں پر صدقِ دل سے لعنت بھیجی۔ اُن کا موقف یہ تھا کہ ''ترقی یافتہ معاشرے بیشتر معاملات میں سرپھرے پن کی منزل سے گزر چکے ہیں۔ کام تو وہاں اب کم ہوتا ہے‘ سو طرح کی چونچلے بازی البتہ زیادہ ہوتی ہے۔ کام کے بارے میں کیا سوچنا؟ کرنا ہے تو کرو اور خوب کرو۔ اور آرام؟ اُس کے بارے میں بھی کیا سوچنا؟ جب کام سے تھک جاؤ تو آرام کرو۔ حیرت ہے کہ اِتنی سی اور بالکل سامنے کی بات بھی اِن کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘۔
مرزا کی بات میں دم ہے۔ ہم بھی سمجھ نہیں پائے کہ کام اور آرام کے تعلق کو سمجھنے میں ترقی یافتہ معاشروں کو اِتنی مشکلات کا سامنا کیوں ہے۔ ایک طرف دنیا کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اگر کسی مقام تک پہنچتا ہے تو صرف کام سے۔ چین کی مثال بہت واضح ہے جہاں لوگوں نے پانچ عشروں تک ہڈیوں میں جھنجھناہٹ پیدا کردینے والی محنت کی ہے۔ اب دنیا اِس محنت کے ثمرات بھی دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں جاپانی اداروں کا کام کے معاملے میں ''پسپائی‘‘ اختیار کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ نیند پوری نہ ہونے سے اگر کارکردگی متاثر ہو رہی ہے تو ملازمین کو آرام کا زیادہ موقع دیا جانا چاہیے‘ بس۔ اِس میں تحقیق کا ڈول ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟
کام اور آرام کے معاملے میں پاکستان جیسے معاشرے بہت اچھی حالت میں ہیں۔ اداروں کی انتظامیہ کو زحمت اٹھانا ہی نہیں پڑتی۔ لوگ اپنے طور پر طے کرلیتے ہیں کہ کتنا کام کرنا ہے اور کتنا آرام! اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر اداروں کو بھی بظاہر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ بعض عاقبت نا اندیش لوگ اِس کیفیت کو مجبوری کا نام شکریہ کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کام اور آرام کے معاملے میں حکومت اور کاروباری اداروں کو اچھی خاصی تحقیق سے بچالیا ہے! ماہرین برسوں‘ بلکہ عشروں کی تحقیق کے نچوڑ کی حیثیت سے جو کچھ طے کرتے ہیں وہ ہمارے ہاں عام آدمی از خود نوٹس کے تحت طے کرلیتا ہے اور پھر عمل بھی کر گزرتا ہے!
اگر آپ پوری ایمان داری اور غیر جانب داری سے جائزہ لیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کام اور آرام کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے معاملے میں عام پاکستانی نے ترقی یافتہ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین کو اِس قدر پیچھے چھوڑ دیا ہے کہ بے چارے برابری کا تصور کرتے بھی ڈرتے ہیں! یہ دنیا کی ''بدنصیبی‘‘ ہے کہ ہم سے کچھ ''سیکھنا‘‘ ہی نہیں چاہتی! کوئی آئے‘ دیکھے اور ذرا بتائے تو سہی کہ ہم آرام کے دوران کام کرتے ہیں یا کام کے دوران آرام! ہمیں یقین ہے کہ جو ایسا کرے گا اُس کے چودہ دُونی اٹھائیس طبق روشن ہو جائیں گے!