ایک بت تراش کو آپ امام مسجد لگا دیں‘ سائنس دان کو گھاس کاٹنے کی ذمہ داری دے دیں‘ اور ایک کسان کو علم نباتات پڑھانے کی ذمہ داری سونپ دیں تو کیا ہو گا؟ ان میں سے کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو گا‘ اور آپ کی نیت کا کھوٹ عیاں ہو جائے گا‘ آپ کے اخلاص کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ یہ ثابت ہو جائے گا کہ آپ اس کام کے مثبت نتائج کے خواہاں ہی نہیں تھے۔ ایسی حرکات کو عربی زبان میں ظلم کا نام دیا جاتا ہے، یعنی چیزوں کو اپنی درست جگہ پر استعمال نہ کرنا۔ اگر یہ ظلم ہے، تو یہ ظلم ہم نے گزشتہ دس برسوں سے کشمیر کمیٹی سے روا رکھا ہوا ہے۔ کشمیر پر پارلیمنٹ کی یہ سپیشل کمیٹی بناتے وقت اس کے کئی اہم مقاصد بیان کیے گئے تھے، جن میں دو بہت اہم تھے۔ اس کا پہلا اور بنیادی مقصد عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا تھا‘ اور دوسرا مقصد کشمیر پر ملک کی تمام اہم قوتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا تھا۔ اپنی تشکیل کے وقت سے یہ ایک اہم کمیٹی تصور کی جاتی رہی ہے۔ اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کی وجہ سے اس کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ابتدائی سربراہوں میں نواب زادہ نصراللہ خان جیسا جمہوریت پسند اور اصول پرست سیاست دان بھی اس کا چیئرمین رہا ہے۔ کمیٹی کے ممبران میں اہم ترین سینیٹرز اور اسمبلی ارکان رہے ہیں، جن کی تعداد مختلف ادوار میں بدلتی رہی ہے ۔ نواب زادہ نصراللہ خان نے اپنے دور میں حتی المقدور کمیٹی کے مینڈیٹ کے مطابق کام کیا۔ انہوں نے لندن اور نیو یارک سمیت دوسرے اہم شہروں میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کے لیے دورے کیے۔ ان دوروں کے دوران انہوں نے کشمیری تارکین وطن سے رابطے کیے، اور مسئلہ کشمیر پر ان کی خدمات سے استفادہ بھی کیا۔ انہوں نے کشمیر کے دونوں اطراف کے رہنمائوں کو ساتھ لے کر دورے، سیمینار اور کانفرنسیں کیں۔ نواب زادہ نصراللہ کے بعد یہ کمیٹی چوہدری سرور اور حامد ناصر چٹھہ کی قیادت میں بھی رہی ۔ بالآخر سال دو ہزار آٹھ کے موسم سرما میں مولانا فضل الرحمٰن نے اس کمیٹی کو گود لے لیا۔ مولانا نے زرداری اور نواز شریف‘ دونوں کے ادوار میں اس کمیٹی کی سربراہی کا خوب لطف اٹھایا۔
دانشور حلقوں میں شروع دن سے یہ عمومی اتفاق پایا جاتا رہا ہے کہ مولانا پاکستان کے ان معدودے چند سیاست دانوں میں شامل ہیں ، جن کی کشمیر کے معاملے میں دلچسپی واجبی سی ہے۔ اس حقیقت کا عملی اظہار ان کے دس سالہ دور میں بار بار ہوتا رہا۔ یہ دس سالہ دور کشمیر کی تاریخ کا ایک پُر آشوب دور رہا ہے۔ اس دور میں کشمیر میں سیاسی اور عسکری سطح پر بہت زیادہ اتار چڑھائو آتے رہے ہیں۔ اس دوران بھارتی فوج کے ہاتھوں کئی کشمیری شہید ہوئے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ناقابل فراموش واقعات رونما ہوئے، جن میں لوگوں کو گاڑی کے پیچھے باندھ کر گھسیٹنے سے لے کر پیلٹ گنوں کے ذریعے نوجوانوں کو آنکھوںکی روشنی سے محروم کرنے جیسے خوفناک واقعات تک شامل ہیں۔ اس دوران برصغیر میں شاید ہی کوئی صاحب ضمیر اور آزاد شخص ایسا ہوا ہو، جس نے ان واقعات کی مذمت نہ کی ہو اور بھارتی حکومت سے ان اقدامات سے اجتناب برتنے کا مطالبہ نہ کیا ہو۔ اس مذمت میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو عام طور پر کشمیر میں عسکریت پسندی کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ اس میں عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ بھی تھے، جو ایسے معاملات میں ہمیشہ مختلف نقطہ نظر کے حامل رہے ہیں۔ اس دوران اگر کشمیر کمیٹی کی طرف سے کوئی آواز آئی بھی تو وہ سب سے دھیمی اور کمزور تھی۔ زیادہ تر کشمیر کمیٹی نے ایسے بیشتر واقعات پر پُراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ تاریخ کے طالب علم کے لیے اس باب میں پاکستانی اخبارات کی دس سالہ فائلیں بڑی دلچسپی کی حامل ہیں‘ جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کشمیر کمیٹی نے خاموشی کو نا صر ف بطور پالیسی اپنایا، بلکہ باقاعدہ خاموشی کی سازش کی۔ جہاں تک کمیٹی کے ممبران اور چیئرمین کے حقوق یا مراعات کا تعلق ہے، تو انہوں نے اس مد میں کسی قسم کی سستی یا کاہلی کا مظاہرہ نہیں کیا‘ بلکہ انہوں نے پوری مستعدی سے کشمیر کمیٹی کے لیے مختص ہونے والا سالانہ بجٹ اور سپیشل فنڈز کی آخری پائی تک خرچ کی۔ کمیٹی کے چیئرمین نے وفاقی وزیر کے برابر تنخواہ بڑی باقاعدگی سے وصول کی۔ وفاقی وزیر سے بڑھ کر مراعات حاصل کیں۔ اسلام آباد میں اہل حکم کی رہائشی بستی، منسٹرز انکلیو میں گھر ، گاڑی، سکیورٹی کا فائدہ اٹھایا‘ مگر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے کیا کیا؟ اس کا جواب نہ تو وزارت خارجہ کی کسی فائل میں ہے، اور نہ ہی کشمیر کمیٹی کے ریکارڈ میں۔ یہ ایک ایسا راز ہے، جو وہ اپنے سینے میں لیے پارلیمنٹ سے رخصت ہو گئے۔ پاکستان کے صحافیوں نے جب کبھی بھی کشمیر کمیٹی کے حوالے سے کوئی سوال کیا تو جواب میں وہ بس مسکرا کر رہ گئے۔ سال دو ہزار آٹھ میں جب مولانا کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تو ہر قابل ذکر تجزیہ کار نے اسے عمل کو صدر زرداری کی طرف سے رشوت نما تحفہ قرار دیا تھا۔ اس وقت کے پاکستان مسلم لیگ کے کچھ سینیٹرز نے آن ریکارڈ اس عمل کو بھاری رشوت قرار دیا تھا‘ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ جب خود پاکستان مسلم لیگ برسر اقتدار آئی تو مولانا کو یہی بھاری رشوت دوبارہ نئی مراعات کے ساتھ پیش کر دی گئی۔ اور نواز دور میںمولانا کی کشمیر پر خاموشی اور زیادہ گہری اور پُراسرار ہوتی گئی۔ ان دس سالوں میں کمیٹی نے پاکستان کے غریب عوام کے ٹیکسوں سے کروڑوں روپے خرچ کیے۔ یہ اخراجات زیادہ تر سٹاف کی تنخواہوں اور سفری معاملات پر اٹھے۔ لیکن بھاری تنخواہ لینے والوں یا سفر کرنے والوں نے کشمیر کے لیے کیا کیا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے، جس کا کوئی جواب دینے کے لیے تیار نہیں۔ کمیٹی کے دامن میں کل ملا کر کوئی چوبیس اجلاس اور تقریباً چونسٹھ کے لگ بھگ پریس ریلیزوں کے سوا کچھ نہیں۔
دو ہزار اٹھارہ کے موسم بہار میں وزیر اعظم عمران خان نے سرینگر کے ایک جریدے نیریٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے پارلیمنٹ کی سپیشل کمیٹی کو ایک عظیم ناکامی قرار دیا تھا۔ انہوں نے بڑے افسوس سے کہا تھا کہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ایک ایسا شخص ہے ، جس کو یورپی ممالک ویزا تک نہیں دیتے۔ اس شخص نے مراعات لینے اور سرکاری خرچ پر دنیا گھومنے کے لیے کمیٹی کی چیئرمین شپ لے رکھی ہے۔ اس انٹر ویو کے چند ماہ بعد اقتدار کا ہما عمران خان کے سر پر بیٹھ گیا۔ اب لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ تبدیلی کی بات کرنے والے اس باب میں کیا تبدیلی لائیں گے؟ چنانچہ قدرتی طور پر کچھ سوالات فوری جوابات کے متقاضی ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کے عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کی ہیئت ترکیبی میں کیا تبدیلی ہو گی۔ کیا اس میں قومی اتفاق رائے کے نام پر سب کو خوش کرنے کے لیے نمائندگی کے نام پر مراعات جاری رہیں گی، اور حسب سابق ایسے لوگ کمیٹی میں بیٹھے ہوں گے، جو کشمیر کے جغرافیہ اور تاریخ سے ہی نا واقف ہیں۔ جو انگریزی اور فرانسیسی زبان سے نا بلد اور کسی ڈھنگ کے ملک کا ویزا تک لینے سے قاصر ہیں۔ کمیٹی کے مینڈیٹ میں کیا تبدیلی ہو گی۔ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین اپنے فکر و عمل میں مولانا سے مختلف ہو گا یا حسب سابق خاموشی کی سازش جاری رہے گی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اس غربت زدہ ملک کے حکمران طبقے نے اپنے لیے محفوظ اور پُر تعیش بستیاں بسا رکھی ہیں۔ ان بستیوں میں کوئی کسی کمیٹی کے نام پر مقیم ہوتا ہے، کوئی کسی وزارت یا مشاورت کے نام پر یہاں بستا ہے۔ یوں حکمران طبقات غریب عوام کا پیسہ آپس میں بڑی محبت سے بانٹ برت کر کھاتے ہیں؛ چنانچہ تبدیلی کے پرچارکوں کو چاہیے کہ وہ ان بانجھ اور بے کار کمیٹیوں میں بھی ایسی تبدیلی لائیں کہ یہ عوام کے وسائل پر عیاشی اور مراعات کا ذریعہ نہیں‘ مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنیں۔