تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     21-10-2018

وزیراعظم کی انگلیاں

لاہور،اسلام آباد کے درمیان جب سے موٹروے تعمیر ہوئی ہے، وہاں قیام مختصر ہو گیا ہے۔ صبح روانہ ہوتے ہیں اور کام سمیٹ کر شام کو گھر واپس آجاتے ہیں۔ جب جی ٹی روڈ سے جانا ہوتا تھا تو یک طرفہ سفر اتنا لمبا ہو جاتا کہ اسی دن واپسی کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کاموں کی گٹھڑی بناتے رہتے اور ہفتوں سوچنے کے بعد عازم سفر ہوتے۔ دو تین دن وہاں پڑائو ڈالتے، پھر ہانپتے کانپتے واپس روانہ ہوتے۔ جی ٹی روڈ پر ٹریفک میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ حادثات بھی بڑھتے جا رہے تھے اور اس پر سفر کسی جنگی محاذ پر جانے کے مترادف سمجھا جاتا۔ مائیں امام ضامن باندھتیں اور بیویاں اپنے دوپٹے اوڑھ کر محو دعا ہو جاتیں۔ (وزیراعظم) نوازشریف نے کم و بیش تین عشرے پہلے اس منصوبے کی بنیاد رکھی تو ملک بھر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ مخالفین نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ اس وقت کے سرگرم مسلم لیگی رہنما زاہد سرفرازا ور برادر عزیز طارق چودھری نے‘ جو ان دنوں سینیٹر تھے، اس پر کڑی تنقید کی، کئی پریس کانفرنسیں طلب کی گئیں۔ نقشوں اور اعداد و شمار کے ذریعے اپنی بات کا وزن بڑھایا گیا۔ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان یہ مالی بوجھ برداشت نہیں کر پائے گا۔ نہ اس پر چلنے کے لئے گاڑیوں کی مطلوبہ تعداد میسر ہو گی، نہ اس کی دیکھ بھال کے لئے رقم فراہم ہو سکے گی۔ قومی خزانے سے مسلسل فنڈ مختص کرنا پڑیں گے، اور کھلنڈرے حکمرانوں کو قوم کہیں ڈھونڈ نہیں پائے گی کہ پکڑے اور سزا دے۔ یہ دلیل بھی دی جا رہی تھی کہ بہت کم وسائل سے جی ٹی روڈ کو ''موٹروے‘‘ بنایاجا سکتا ہے اور حکمران کاریں تیز دوڑا کر اپنا شوق پورا کر سکتے ہیں۔ موٹروے کی تعمیر کو کمیشن اور کک بیکس کے ساتھ نتھی کر دیا گیا اور ببانگ دہل کہا گیا کہ عوام کی فلاح نہیں ،صرف اپنی تجوریاں بھرنا مقصود ہے۔ کہا جاتا تھا کہ (صدر) غلام اسحاق خان بھی اس منصوبے کے حامی نہیں ہیں اور کسی نہ کسی سطح پر اس کے مخالفین کو ان کی تائید بھی حاصل ہے۔
اس سب کچھ کو نظر انداز کرتے ہوئے منصوبہ شروع ہوا اور وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آیا۔ اب پورے ملک میں موٹرویز بن چکے ہیں اور دور دراز کے علاقے ایک دوسرے سے جڑ کر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اب ہر شخص اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ موٹروے کی تعمیر شروع کرکے تعمیر و ترقی کے نئے دروازے کھول دیئے گئے۔ اگر جی ٹی روڈ پر سفر کرنا پڑتا تو بہت سے لوگ مہینوں تو کیا برسوں بھی گھر سے نہ نکلتے کہ وہاں چیونٹی کی رفتار سے ٹریفک چلتی ہے۔ موٹروے بننے کے بعد اسلام آباد میں طویل قیام کی ضرورت شاذ ہی محسوس ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے تین دن یہاں گزارنا پڑے تو گھر سے دوری کا عجیب سا احساس ہوا۔ سہ روزہ قیام بلا سبب نہیں تھا۔اے پی این ایس کی مجلس منتظمہ کے ارکان کو وزیراعظم عمران خان سے ملنا، اپنا اجلاس منعقد کرنا اور پھر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے عشایئے سے لطف اندوز ہونا تھا۔ اسی دوران وزیراعظم میڈیا مالکان کے اس گروپ سے بھی ملنا چاہ رہے تھے جو آئی ایس پی آر کے متواضع سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی دعوت پر ان سے ملا تھا اور کئی گھنٹے میڈیا انڈسٹری کو درپیش مسائل پر تبادلۂ خیال ہوا تھا۔ یہیں وزیراطلاعات فواد چودھری سے ملاقات کے دوران غلط فہمیوں کو خوش فہمیوں میں بدلنے کی کامیاب کوشش بھی ہوئی تھی۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستانی میڈیا شدید مشکلات کا شکار ہے۔ سرکاری اشتہارات کے واجب الوصول بل اربوں کو چھو رہے ہیں۔ ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کے اس ''ترکے‘‘ کو بآسانی قبول نہیں کرتی اور میڈیا کی کمر دوہری ہو ہو جاتی ہے۔ نئی حکومت کفایت شعاری پر اس قدر زور دے رہی ہے کہ ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی نے نیوز پرنٹ اور دوسرے درآمدی میٹریل کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کر ڈالا ہے۔ نجی سرمایہ کار بھی بے یقینی کے دریا میں غوطے کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اخراجات کم کرنا شروع کر رکھے ہیں، کئی اشتہاری کمپنیوں کے ذمہ داران نیب کے شکنجے میں ہیں۔ ان پر حکومت سندھ کے محکمہ اطلاعات سے سازباز کا الزام ہے۔ احتساب کے نام پر قانونی کارروائی پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا، لیکن ریفرنس دائر کرنے سے پہلے یا بعد ان حضرات کی گرفتاریاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ نیب حکام نے کئی سیاستدانوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے باوجود انہیں گرفتار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ای سی ایل پر نام ڈال کر آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، وہ احتساب عدالتوں میں اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ پھر مالی بے ضابطگیوں کے الزام میں بزنس لیڈرز کو حوالۂ زنداں کرکے ماحول آلودہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ میڈیا انڈسٹری نے جن سے اربوں، کروڑوں وصول کرنے ہیں، انہیں اپنا بزنس چلانے کا موقع کیوں فراہم نہیں کیا جا رہا؟ ان کی گرفتاری کے بغیر احتسابی عمل کو جاری کیوں نہیں رکھا جارہا؟...وزیر اعظم عمران خان کی توجہ ان تمام حقائق کی طرف دلائی گئی، بعض حکومتی ذمہ داروں کے میڈیا مخالف رویوں کی نشاندہی بھی کی گئی... داد دینی چاہئے کہ وزیر اعظم نے خندہ پیشانی سے شکایات سنیں، اور واضح کیا کہ وہ میڈیا دشمن نہیں ہیں۔ انہیں اعتراف ہے کہ وہ قومی میڈیا ہی کے ذریعے اپنا موقف عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے، اور اقتدار تک پہنچے ہیں... اس لئے میڈیا کے تحفظ اور فروغ کے لئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سابقہ حکومتوں کی طرح اشتہاری مہموں پر بے دریغ پیسہ نہیں لگا سکتے... ان پر واضح کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر دیئے جانے والے اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ وہ مختلف میڈیا ہائوسز کو ملنے والے اشتہارات کی درست تفصیل جاری کر دیں تو بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ مختلف میڈیا ہائوسز کے ساتھ مختلف سلوک کے حوالے سے عرض کیا گیا کہ عوام تک زیادہ پہنچ رکھنے والوں اور محدود اشاعت رکھنے والوں کے ساتھ یکساں سلوک بجائے خود نا انصافی ہے۔ بقول رمیزہ نظامی‘ ان کے اخبار اور ''ڈیلی من من‘‘ کو ایک ترازو میں کیسے تولا جا سکتا ہے؟یہ بھی واضح کیا گیا کہ مجہول النسب سوشل میڈیا باقاعدہ ڈیکلریشن اورلائسنس حاصل کرنے والے اداروں کا مقابلہ نہیں کر سکتا کہ ثانی الذکر اپنے الفاظ اور خیالات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔وزیر اعظم نے علامتی خیر سگالی کے طور پر نیوز پرنٹ پر عائد 5 فیصد درآمدی ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کرکے پُرجوش تالیاں وصول کر لیں... پُر جوش وزیر اطلاعات (فواد چودھری) اور اچھی شہرت رکھنے والے سیکرٹری (شفقت جلیل) کو ذمہ دار بنایا گیا کہ وہ واجبات کے حوالے سے پی بی اے اور اے پی این ایس کے ذمہ داروں کے ساتھ مل بیٹھیں، تاکہ راستہ بنایا اور اس پر قدم بڑھایا جا سکے۔
(وزیراعظم) نوازشریف کے اولین زمانۂ اقتدار میں ان کی ایک بڑے اخباری گروپ سے جنگ چھڑی اور احتساب الرحمن اس کے درپے ہو گئے تو مدیرانِ اخبارات کے ایک بڑے اجتماع میں یہ عرض کرنے کی جسارت کی تھی کہ: اخبار اور اقتدار کی لڑائی میں آج تک اقتدار کو فتح حاصل نہیں ہوئی۔ وقتی پیش قدمی پر نہیں تاریخ کے صفحات پر لکھی ہوئی ہار پر نظر رہنی چاہیے۔ یہ نکتہ اس وقت کا اقتدار بآسانی سمجھ نہیں رہا تھا، لیکن آج یہ معاملہ اس کے ضمیر کا بوجھ ہے۔وزیراعظم عمران خان کو بھی ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے،اپنی انگلیاں جلانے کی ضرورت کیا ہے؟
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved