اب ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان پاکستان کے ڈنگ سیائو پنگ بن سکتے ہیں؟
چین کے پانچ روزہ دورے میں اس دل پہ وہی بیتی‘ لندن کے سفر میں جو سر سیّد احمد خان پہ گزری تھی۔ فرق یہ ہے کہ وہ کردار کے غازی تھے اور ہم گفتار کے مارے ہیں۔ سیّد کی وفات پر‘ ان کے سب سے بڑے ناقدوں میں سے ایک اکبر الٰہ آبادی نے لکھا؎
ہماری سب باتیں ہی باتیں ہیں‘ سیّد کام کرتا تھا
مت بھولو فرق ہے جو کہنے والے‘ کرنے والے میں
اکبر اتنے بڑے آدمی تھے کہ اقبالؔ نے مزاحیہ شاعری میں ان کی اتباع کی۔ مختار مسعود نے لکھا ہے کہ سر سیّد کے متنازعہ افکار سے تو خود علی گڑھ بھی محفوظ رہا۔ ان کی جدوجہد سے تمام کا تمام مسلم برصغیر فیض یاب ہوا۔
حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم
دوسروں پر 1857ء کا سانحہ مرگ ناگہانی کی طرح ٹوٹا۔ ایسا لگتا ہے کہ سر سیّد احمد خان ایک حد تک ذہنی طور پہ تیار تھے۔ غالبؔ نے ان سے کہا تھا کہ مغرب سے ایک طوفان چلا آتا ہے۔ سانحہ محض یہ نہ تھا کہ اقتدار چھن گیا۔ وہ تو پہلے ہی برائے نام تھا۔ محاورہ رائج تھا کہ ''سلطنتِ شاہ عالم‘ از دلّی تا پالم‘‘۔ پالم وہ گائوں ہے‘ جہاں بعد میں دہلی کا ہوائی اڈہ بنا‘ راولپنڈی کا چک لالہ۔
ہتھیار ڈالنے کے لیے یمن کی ملکہ سبا کو جناب سلیمان علیہ السلام کا پیغام پہنچا تو اپنے جنرلوں سے اس نے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا: کئی افواج کا ہم نے سامنا کیا ہے۔ اسی جواں مردی سے سلیمانؑ کے لشکر کا بھی مقابلہ کریں گے۔ اس کا جواب ابدالآباد تک کے لیے قرآن کریم میں محفوظ ہے۔ خلاصہ یہ ہے: بادشاہ کسی بستی کا رخ کرتے ہیں تو اس کے عزت داروں کو پست و پامال کر دیتے ہیں۔ انگریزی اقتدار میں مسلمان محکوم ہی نہ ہوئے‘ توہین کا ایک لا متناہی سلسلہ بھی شروع ہو گیا‘ حتیٰ کہ جناب رسالت مآب کے خلاف پوچ اور بازاری تحریریں۔ سر سیّد اس لیے لندن پہنچے کہ ایسی تحریروں کا جواب لکھیں۔ ابھی کل تک جو گمنام اور بے آسرا قوم تھی‘ اب اس کی سلطنت پہ سورج کیوں غروب نہیں ہوتا۔ بیجنگ اور شنگھائی کے سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے‘ ذہن میں سوال یہ تھا کہ ابھی کل تک جو ملک‘ پاکستان سے بھی زیادہ پسماندہ تھا‘ چار عشروں میں دنیا کی دوسری بڑی طاقت کیسے ہوا۔
ایک صاحب ہیں‘ ظفرالدین محمود۔ بیجنگ کے سرکاری وظیفے پر‘ 1976ء میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے چین گئے۔ تعلیم مکمل کر چکے تو انکشاف ہوا کہ یہ ڈگری پاکستان میں قابل قبول نہیں۔ چین میں پاکستانی سفیر کو سفارت خانے میں بلا معاوضہ خدمات انجام دینے کی پیشکش کی‘ جو مسترد کر دی گئی۔ بے نوا آدمی بی سی سی آئی بینک کے سربراہ‘ سبکدوش سیکرٹری خارجہ سلطان احمد خان کے پاس پہنچا۔ چھ ماہ کے لیے بی سی سی آئی میں انہیں مترجم کی ملازمت مل گئی۔ ''ایک دن کم نہ ایک دن زیادہ‘‘۔ ان سے کہا گیا۔ اسی دوران بی سی سی آئی کے‘ شائستہ اطوار‘ اور مہم جو سربراہ بیجنگ پہنچے۔ بعد ازاں جنہیں چین میں کسی غیر ملکی بینک کی پہلی شاخ کھولنا تھی۔ ظفر محمود ان کے پروٹوکول افسر بنائے گئے۔
ان چند دنوں میں ان کی کارکردگی سے‘ ایسے وہ شاد ہوئے کہ مستقل طور پر انہیں بی سی سی آئی کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ تنخواہ آٹھ گنا بڑھا دی اور پیشکش کی کہ مزید دو برس لندن میں تعلیم پانے کے بعد برطانیہ سے معالج کی ڈگری بھی حاصل کر لیں۔ معالج تو خیر کیا بنتے‘ بینکر ہو گئے۔ چند برس بعد بینک کی بساط لپیٹ دی گئی۔ ظفر محمود بہرحال چین ہی میں مقیم رہے۔ رفتہ رفتہ کنفیوشس کی سرزمین میں‘ وہ پاکستان کے سب سے بڑے سفیر بن گئے اور پاکستان میں چین کے۔ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ وہ قادر و عادل‘ آدمی کو جس نے پیدا کیا اور جس کے حضور سب کو حاضر ہونا ہے‘ کس طرح افراد اور اقوام کی تقدیروں کے فیصلے کرتا ہے۔
ظفر محمود چین کی محبت میں مبتلا ہو گئے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ چینیوں نے جس محبت کا مظاہرہ کیا‘ اس نے ان کے دل کو چھو لیا۔
ڈاکٹر صاحب کا حافظہ غیر معمولی ہے۔ یکسو آدمی ہیں۔ نگاہ مرتکز رکھتے ہیں۔ گیارہ اخبار نویسوں کے پانچ روزہ دورے میں کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ کسی چینی افسر یا مترجم کو انہوں نے ٹوک دیا اور اعدادوشمار کی اصلاح کی۔ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ ٹوکنے پر کسی نے برا مانا ہو یا ان کی تجویز مسترد کی ہو۔ شاید ہی کوئی غیر ملکی ہو‘ جس کا چین والے اس قدر احترام کرتے ہوں۔ بیشتر اہم شخصیات اور عظیم الجثہ کاروباری اداروں کے سربراہ ذاتی طور پر ان سے واقف ہیں۔ پاکستان اور چین کے مراسم میں گہرائی پیدا کرنے میں اگر کوئی شخص اہم ترین کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ ڈاکٹر ظفر محمود ہیں۔ پچھلی حکومت میں‘ وزیر کے منصب پر فائز وہ تجارتی راہداری کے مشیر تھے۔ شاید اب بھی ہو سکتے لیکن وہ کوئی درخواست دہندہ نہیں۔
1976ء میں جب وہ چین گئے تو مائوزے تنگ اور چو این لائی کا عہد تمام ہو چکا تھا۔ دونوں بڑے لیڈر دنیا سے اٹھ گئے تھے۔ ان کے حامی چار کے ٹولے کو پھانسی دی جا چکی تھی‘ جن میں دیوتا مائوزے تنگ کی اہلیہ بھی شامل تھیں... اور اب برسوں تک معتوب رہنے والے ڈنگ سیائو پنگ اقتدار میں تھے۔ نیا لیڈر یہ سمجھتا تھا کہ کمیونزم پہ استوار چین کا اقتصادی ڈھانچہ ناقص اور احمقانہ ہے۔
پاکستان کی طرح چین ایٹم بم اور میزائل بنا چکا تھا۔ 1956ء میں روسی سرپرستی کا یکایک خاتمہ ہو جانے کے باوجود‘ دفاعی استعداد اب ایسی تھی کہ سرحدیں محفوظ تھیں۔ تہہ خانوں پر مشتمل‘ شہر کے نیچے مائوزے تنگ نے ایک اور شہر بسا دیا تھا؛ باایں ہمہ اکثر چینی شہریوں کے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا تھا۔ بائیسکل اور گھڑی تک کی خریداری کے لیے سرکار کو درخواست دینا پڑتی۔ کئی کئی سال انتظار میں بیت جاتے۔ انتہا یہ ہے کہ ڈبل روٹی اور انڈے تک راشن پہ ملتے‘ دوسری عالمگیر جنگ کے جنگ زدہ ممالک کی طرح۔ نچلے اور درمیانے طبقات میں شادی کرنے کی آرزو مند خواتین میں سب سے زیادہ مانگ ڈرائیور کی تھی۔ اس لئے کہ سارا دن شہر میں وہ گھومتا رہتا ہے۔ جہاں کہیں گوشت‘ سبزی یا اناج میسر ہو گا‘ قطار میں وہ کھڑا ہو سکے گا۔ ایک پاکستانی کے مقابلے میں آج ایک چینی شہری کی اوسط آمدنی‘ تین گنا سے زیادہ ہے‘ 1976ء میں آدھی سے بھی کم تھی۔
ڈنگ سیائو پنگ نے معیشت کے بند دروازے کھولنے کا فیصلہ کیا۔ بالکل اسی طرح‘ جس طرح عمران خان کی نظر سمندر پار پاکستانیوں پہ ہے‘ ڈنگ سیائو پنگ کی اپنے وطن سے فرار ہونے والے چینیوں پہ تھی۔ فرق یہ ہے کہ ڈنگ کے پاس ایک مرتب منصوبہ تھا‘ سالہا سال جس پر انہوں نے غور کیا تھا۔ عمران خاں اور ان کے ساتھی ابھی تک ہوا میں تیر چلا رہے ہیں۔ ابھی انہیں خاکہ مرتب کرنا ہے۔
عمران خان کے برعکس ڈنگ کی مزاحمت غیر معمولی تھی۔ چار عشرے سے کمیونزم کے راستے پر چلی آتی‘ حکمران کمیونسٹ پارٹی کے لیے‘ آزاد معیشت ''کفر‘‘ کے مترادف تھی۔ اپنے ایمان اور ایقان سے دستبردار ہونے کے مترادف۔ بہت سوں کا خیال یہ تھا کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے سپر انداز ہونا ہے۔
پیہم وضاحت سے‘ رفتہ رفتہ‘ بتدریج‘ انہوں نے پارٹی کو قائل کر لیا کہ کم از کم چار شہروں میں سمندر پار چینیوں کو سرمایہ کاری کی اجازت دے دی جائے۔
یہ ایک معاشی دھماکے کا آغاز تھا‘ جس نے تاریخ کا ایک خیرہ کن باب رقم کیا۔ تین عشروں میں ساٹھ کروڑ انسانوں کو غربت کی دلدل سے نکال کر خوشحالی عطا کی۔
''اب تک صرف تین کروڑ چینی ایسے ہیں‘‘ انسداد غربت پروگرام کے سربراہ نے پاکستانی اخبار نویسوں کو بتایا‘ ''جنہیں مفلس کہا جا سکتا ہے‘‘۔ ان میں زیادہ تر بوڑھے ہیں‘ یکسر نیم خواندہ‘ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ۔
اب ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان پاکستان کے ڈنگ سیائو پنگ بن سکتے ہیں؟