تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     21-10-2018

مجموعی رائے پڑھنے کی صلاحیت

اناٹومی‘ کسی نے جس کا ترجمہ '' تشریح الاعضا ‘‘کیا ہے ‘ ان علوم میں سے ایک ہے ‘ جس کی بنیاد پر انسان آج زندگی کے بارے میں اتنا کچھ جانتاہے ؛ اگر ایک 1986ء ماڈل کی گاڑی میں 2018ء کا انجن رکھ دیا جائے ؛ اگر نئے پرزے لگا کر اس کی شکل و صورت بالکل بدل دی جائے ۔ اس کے باوجود آپ اسے گاڑیوں کے ایک ماہر کے سامنے پیش کریں ‘ وہ ایک سیکنڈ میں اس کی اصلیت پہچان لے گا ۔ اسی طرح ایک پرانے گھر پہ رنگ روغن کر کے‘ لکڑی پہ پالش کر کے بھی اسے ماہرین کے سامنے نیا ثابت نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح انسان شعبدے بازی سے اناڑیوں کے ایک پورے محلے کو دھوکا دے سکتاہے ‘لیکن اپنے شعبے کا جو ماہر ہوتاہے ‘ اسے دھوکا دینا ممکن نہیں ۔ اس کی سب سے عمدہ مثال ''انجینئر‘‘ آغا وقار تھا۔ اس نے میڈیا والوں کو دھوکہ دیا ‘ سیاستدانوں کو دھوکہ دیا‘ لیکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اسے پکڑ لیا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے قوم کو بتایا کہ ''انجینئر‘‘ صاحب پانی سے ہائیڈروجن نکالنے کے لیے ایک کیمیکل استعمال کر رہے تھے ۔ یہ کیمیکل مہنگا تھا۔ اس کی لاگت پیٹرول سے بھی زیادہ تھی ۔ 
اناٹومی کے ماہرین انسان اوردوسرے جانداروں کے مختلف اعضا کی ساخت کو پڑھتے ہیں ۔ کسی طرح مختلف قسم کے خلیے مل کر ٹشو اور کس طرح یہ ٹشو مل کر مختلف اعضا کوتشکیل دیتے ہیں ۔ جس طرح گاڑیوں کا ایک ماہر اس کے ایک ایک پرزے کو سمجھتا ہے ۔ اسی طرح اناٹومی کے ماہر جسم کے ایک ایک عضو‘ ایک ایک ہڈی کی ساخت کو سمجھتے ہیں ۔ ایک سپیشیز ‘ جیسا کہ ہومو سیپئنز(انسانوں ) میں کھوپڑی کا ڈیزائن باقی سب سے جدا ہے ‘ منفرد ہے ۔ اس کھوپڑی کے اندر ایک پوری کائنات کی وسعت رکھی گئی ہے ۔ جب کہ دوسرے great apes/hominidsجیسا کہ گوریلا اور چمپینزی وغیرہ میں ایسا نہیں ہے ۔ اس کے باوجود حیاتیاتی طور پر انسان کے پھیپھڑے‘ دل‘ گردے‘ جلد اور آنکھیں دوسرے جانداروں جیسی ہی ہیں ۔ حیاتیاتی طور پر انسان میں اور ایک بھینس میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔ 
اسی طرح ماضی میں ناپید ہوجانے والی دو انتہائی قابلِ غور انواع Homo Erectusاور ہومو نی اینڈرتھل ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے اعضا میں کچھ فرق تھا۔
جب دنیا کے مختلف حصوں سے زیرِ زمین دفن مخلوقات کے انتہائی بڑے ڈھانچے برآمد ہوئے‘ تو ماہرین نے ان باقیات کی مدد سے ڈائنا سارزکے جسم دوبارہ بنائے ‘ re constructکیے ۔ ان کی تصاویر اور animatedوڈیوز جاری کی گئیں ۔ ایک ایک عضو کی شکل دوبارہ Drawکی گئی ۔ یہ ایسا ہی ہے ‘ جیسا کہ انسان کے سامنے ایک نامکمل پزل پڑا ہو ۔ سینکڑوں اور ہزاروں سال میں دنیا کے مختلف حصوں سے اس پزل کا ایک ایک حصہ انسان کو ملتا چلا گیا؛حتیٰ کہ اس کے لیے تصویر مکمل کرنا کچھ بھی مشکل نہ رہا ۔ 
انا ٹومی کے ماہرین ہوں یا کوئی بھی سائنسدان ‘ وہ ہوا میں بات نہیں کر سکتا؛ اگر ہوا میں بات کرے گا‘ تو اسے انتہائی سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی صحافی اگر جھوٹ پر مبنی سٹوری جاری کرے‘ تو بعد میں عدالت اور اپنی میڈیا کی برادری میں اسے احتساب اور مذاق کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔ جیسے مختلف صحافیوں میں پیشہ ورانہ رقابت ہوتی ہے ‘ اسی طرح بڑے سائنسدانوں میں بھی ایسا ہی ہوتاہے ۔ آپ کی طرف سے ایک غلط دعویٰ کرنے کی دیر ہے اور آپ کے مخالفین آپ کا مذاق اڑانے کے لیے میدان میں ہوں گے ‘پھر یہ کہ صحافت میں تو پھر بھی بندہ کچھ نہ کچھ اپنی طرف سے مرچ مصالحہ لگا سکتاہے ‘ سائنس میں اس طرح سے ممکن ہی نہیں ہوتا۔آپ کو ایک ایک جین کا نام بتانا پڑتا ہے ۔ کسی چیز کی مکمل chemical compositionبتانی پڑتی ہے ۔ مکمل ثبوت مہیا کرنا پڑتے ہیں ‘ جو materialآپ نے دریافت کیا ہے ‘ اسے دنیا کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے ۔ 
اناٹومی کے ماہرین جسم کی ایک ایک ہڈی ‘ ایک ایک عضو‘ ایک ایک رگ‘ ایک ایک تار (Nerve)کی ساخت اور حدود اربعہ جانتے ہیں ۔ کون سی نرو کہاں کہاں سے گزر کر کن کن مسلز تک حرکت کے احکامات لے جاتی ہے ۔ جبڑے کی ساخت ‘ دانتوں کی ساخت‘ دانتوں کی تعداد‘ زبان کی لمبائی‘ آنکھوں کے سوراخ ‘ ماتھے کی ہڈیاں ‘ کھوپڑی کی ایک ایک ہڈی اور ان کا آپس میں پیوست ہو کر کھوپڑی کو مکمل کرنا ‘ کولہے کی ہڈی کی چوڑائی ‘ پسلیوں کی تعداد اور ان کی ساخت ۔ دل کا حجم ‘ معدے کا حجم۔ صرف یہی نہیں ‘ جسم میں مختلف cavitiesہوتی ہیں ‘ جن میں معدہ اور مختلف اعضا پڑے ہوتے ہیں ۔ آپ انہیں خانہ سمجھ لیجیے ۔ گلے میں ٹانسلز کے لیے بھی ایک مخصوص جگہ ‘ ایک باکس ہوتاہے ‘ جس کے اندر وہ رکھے گئے ہیں ۔ ان cavitiesمیں بڑی یا چھوٹی چیز گھسائی نہیں جا سکتی ۔ جس طرح رحمِ مادر کا ایک خاص سائز ہوتاہے ۔ٹانگ کی دو ہڈیوں کا سائز آپ کے پاس ہو ‘ باقی بہت کچھ آپ کمپیوٹر ماڈل میں تیار کر سکتے ہیں ۔ 
کسی شہر کے دو بڑے کاروباری حضرات ایک دوسرے کو زک پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ دو میڈیا ہائوسز بھی ایسا ہی کرتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ موجود دکانوں والے‘ سبزی والے گاہک کو بتاتے ہیں کہ ہم سستی اور معیاری چیز دیتے ہیں ۔ یہ ساتھ والا دکاندار تو لوٹتا ہے‘ لیکن حیرت انگیز طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اناٹومی‘ ارتقا کے ماہرین اور مختلف شعبوںسے تعلق رکھنے والے تمام سائنسدان مل کر دنیا کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور کوئی ایسا سائنسدان موجود نہیں ‘ جو اس مکروہ گٹھ جوڑ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر سکے ۔ مزید یہ کہ ہر سال یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے لاکھوں نوجوان سائنسدان بھی اس سازش میں دل و جان سے شریک ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ ‘ چین اور روس جیسے متحارب ممالک کے سائنسدانوں نے بھی آپس میں ایکا کر لیا ہے ۔ Homo Erectusاور Homo Neanderthalنامی کوئی مخلوق کبھی بھی پیدا نہیں ہوئی ۔ انسان نے کبھی چاند پہ قدم نہیں رکھا ‘وغیرہ وغیرہ ۔ 
چاند سے یاد آیا۔ بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ نیل آرمسٹرانگ والی ویڈیو کے علاوہ ‘ انسان نے دوبارہ کبھی چاند پہ قدم رکھنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی ۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ 1969ء سے 1972ء کے دوران اپالو مشنز کی سیریز میں کل بارہ خلابازوں نے چاند کی سطح پر قدم رکھا۔ سویت یونین کو شکست ہو گئی ۔امریکہ کا جھنڈا اونچا ہو گیا۔ اس کے علاوہ چاند پر کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی‘ جس کی خاطر اس پہ نئے مشنز مسلسل اتارے جاتے ۔ سویت یونین جسے اس سارے کھیل میں شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ اس نے کبھی سرکاری طور پر یہ موقف اختیار نہیں کیا کہ امریکی چاند پر نہیں اترے اور نیل آرمسٹرانگ والی ویڈیو ایک جھوٹ ہے ؛ البتہ روسیوں کے لیے یہ بات بالکل بھی مشکل نہیں تھی کہ مذہبی اور امریکہ مخالف رجحان رکھنے والے‘ انٹر نیٹ استعمال کرنے والے ان نوجوانوں کو ‘ جو سائنسدان نہیں ہیں ‘ امریکہ کے جھوٹے ہونے کا یقین دلایا جا سکے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی سائنس میں غیر متنازعہ سائنسدانوں کی برادری کی ایک مجموعی رائے ہوتی ہے ‘ جسے پڑھ کے سچ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا ۔ اس رائے کو پڑھنے کی صلاحیت پیدا کریں ‘ بجائے سازشی تھیوریز کو پھیلانے کے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved