تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-10-2018

ظہیرالدین بابر اور عمران خان

ظہیرالدین بابر کو ہیرلڈ لیم کس بنا پر ''Prince of all princes‘‘ کہتا ہے؟ وہ جانتا تھا کہ انسانی کمزوریوں کو گاہے گوارا کرنا چاہئے۔ ہمارا وزیر اعظم یہ بات نہیں سمجھتا۔ کوئی اسے سمجھا بھی نہیں سکتا۔
کیا عمران خان پاکستان کے ڈنگ سیائو پنگ بن سکتے ہیں۔ خاکسار کو ہرگز کوئی شبہ نہیں کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری سے وہ بہتر حکمران ثابت ہوں گے۔ اپنی قوم کے نجات دہندہ وہ بہرحال نہیں۔ جیسا کہ نومبر 2011ء میں صاف الفاظ میں ان سے کہا تھا: تم کوئی مہاتیر محمد یا قائد اعظم نہیں۔ اس نے کہا ''میں تمہیں بن کر دکھائوں گا‘‘ میرا احساس یہ تھا کہ 56 سال کی عمر میں کسی شخص کے بدل جانے کا امکان بہت کم ہوتا ہے‘ النادّر کالمعدوم۔ گزشتہ 65 دنوں میں‘ اس کے انداز فکر سے آشکار ہے کہ اس نے کچھ زیادہ نہیں سیکھا۔ سیکھنے پر آمادہ بھی نہیں۔ کرپٹ نہیں اور اداروں میں یقین رکھتا ہے؛ لہٰذا کچھ نہ کچھ کر گزرے گا‘ مگر بہت زیادہ نہیں۔
چین میں پانچ روزہ قیام کے دوران یہ دیکھا کہ سڑکوں پہ دھواں چھوڑنے والی کوئی گاڑی نہیں‘ کوئی قطار (LANE) نہیں بدلتا‘ کوئی ہارن نہیں بجاتا۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ فکر میں اعتدال اور کردار میں احساس ذمہ داری زیادہ ہے۔ منکرین حدیث کو اللہ اس دیار میں کبھی برکت نہ دے۔ اب ہم سرکارؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کا ارشاد مبارک سننے کی تمنا کرتے ہیں۔ وہ لب ہلے جن سے ہمیشہ زندگی کے بھید کھلے۔ سب جانتے ہیں کہ سب اساتذہ سے آپؐ بڑے استاد تھے۔ فرمایا: وہ کافر تمہیں اس طرح پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنی اولاد کو پہچانے۔ تمام دانائوں سے زیادہ بڑھ کر دانا تھے۔ منکرین حدیث پہ اللہ کا غضب نازل ہو‘ آپؐ نے فرمایا: کسی قوم کو ویسے ہی حکمراں نصیب ہوںگے‘ جیسی کہ وہ ہے‘ تمہارے اعمال ہی‘ تمہارے عمّال ہوں گے۔ جو آپؐ نے کہہ دیا‘ ہمیشہ پورا ہو کر رہے گا۔ منکرین حدیث کی سننے والے احمق ہیں۔ قرآن کریم میں لکھا ہے: وہ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے‘ بس وہ جو ان پہ الہام کیا جاتا ہے۔ حدیث بھی الہام ہے۔ امام بخاریؒ اور امام مالکؒ سمیت محدّثین کرام خوب یہ بات سمجھتے تھے۔ اس لیے احادیث کے انتخاب میں ایسی عرق ریزی کی‘ انسانی تاریخ جس کی کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کرتی۔ مثال کے طور پہ‘ اس حدیث کو انہوں نے ضعیف قرار دیا‘ اطلبوالعلم ولو کان بالصّین۔ علم حاصل کرو‘ خواہ چین ہی جانا پڑے۔ عقلِ عام کا فتویٰ یہ ہو گا کہ اس قول کے قوی ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ محدّثین نے لیکن اسے مسترد کر دیا۔ محض عقل عام پر انحصار کرنے والے وہ نہ تھے۔ عقلِ عام پہ انحصار کرنے والے منکرین حدیث کے اساتذہ ہیں‘ جن کا خیال یہ ہے کہ وہ امام بخاری سے زیادہ ہوش مند اور امانت دار ہیں۔ 
ہم ایک ضدّی قوم ہیں اور منکرین حدیث بھی ہم میں سے ہیں۔ خرابی اساتذہ سے فیض پانے کی آرزو میں نہیں‘ انہیں پیغمبر سمجھ لینے میں ہے۔ عصرِ رواں کے عارف نے پہلی چند ملاقاتوں میں جو نکات ذہن نشین کرائے‘ ان میں سے تین یہ ہیں۔ 
٭ کرامت مومن کی نہیں‘ اس پہ نثار ہونے والوں کی نفسیاتی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
٭ عقیدت اور جہالت کا آغاز ایک ساتھ ہوتا ہے۔
٭ جہاں عقل رکتی ہے‘ وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔
آئن سٹائن نے کہا تھا‘ اگرچہ خالق سے ذاتی تعلق پر نہیں مگر اس کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسا آدمی اجتماعی دانش سے استفادہ کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ جو اللہ کو مانتا ہے‘ قوانینِ قدرت کو تسلیم کرتا ہے۔ جو خود کو دیوتا مان لے‘ وہ نہیں کر سکتا۔
مائوزے تنگ غیر معمولی عزم و ارادے کے قوم پرست تھے مگر خود سے انہیں محبت تھی۔ سرکارؐ کو ماننے والے یقین رکھتے ہیں کہ کچھ باتوں کو دہرانا چاہئے۔ میں اس بات کو دہراتا ہوں کہ مائوزے تنگ غیر معمولی عزم و ارادے کے آدمی تھے مگر خود کو وہ دیوتا سمجھتے تھے۔ جو بھی خود کو دیوتا اور نجات دہندہ سمجھتا ہے‘ اس کی دانش ادھوری ہے۔ خود کو وہ دوسروں سے زیادہ لائق سمجھتا؛ چنانچہ آخر کار ناکام رہتا ہے۔ خود کو جو تمام دوسرے لوگوں سے لائق سمجھتا ہو‘ اس میں قوّتِ فیصلہ کم ہو جاتی ہے۔ اب ایک اور بات دہرانے کی جسارت کرتا ہوں۔ اللہ کی آخری کتاب میں حکمرانی کا اصول لکھا ہے: ان کے امور باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ جو حکمران مشورہ دینے والوں سے عملاً یہ تقاضا کرے کہ اسے مشورہ دیتے ہوئے‘ اسے معتبر مانیں‘ کتنا وہ سیکھ سکے گا؟ اپنی غلطیوں کی کتنی اصلاح وہ کر سکے گا؟ کچھ سوالات ایسے ہیں‘ جن کا جواب عامی بھی دے سکتا ہے۔ ان کے سوا‘ جو ضد پہ اڑے رہتے ہوں۔ ہم ضد پہ قائم رہنے والی قوم ہیں۔ ہمارے لیے عمران خان‘ نواز شریف‘ حتیٰ کہ بعض کے لیے آصف علی زرداری بھی دیوتا ہیں۔ اس لیے کچھ کامیابیاں ابھی ہمارے مقدر میں نہیں۔ اس ہستی نے‘ جن کا ہر لفظ صداقت پہ مبنی تھا‘ ارشاد یہ کیا تھا: تم پر لازم ہے کہ ابرار کی مجلسوں میں بیٹھا کرو۔ الجھن آ پڑے تو راسخون فی العلم سے رجوع کیا کرو۔
مائوزے تنگ نے کہا: چڑیوں کو ہلاک کر دو۔ انہوں نے مان لیا۔ مائوزے تنگ نے کہا: کمیونزم میں تیز رفتار اقتصادی ترقی ممکن ہے‘ ڈنگ سیائو پنگ کے سوا‘ ان سب نے مان لیا۔ 
ڈنگ میں ایک اور کمال بھی کار فرما تھا‘ جس کی وجہ سے چینی قوم نے تاریخ میں سب سے زیادہ برق رفتاری سے غربت کا انسداد کیا۔ اس میں صبر پایا جاتا تھا۔ مزید یہ کہ وہ اپنے خیالات کی تطہیر کر سکتا تھا۔ قوانینِ قدرت کے ادراک کی کچھ نہ کچھ استعداد بہرحال اس میں موجود تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ایک سچا خیال آخر کار نافذ ہو کے رہتا ہے۔ اس کے باوجود کہ چوتھی منزل سے دھکّا دے کر اس کے بیٹے کو اپاہج کر دیا گیا‘ حکمران پارٹی سے جڑا رہا۔ اسے امید تھی کہ آخر کار اس کا وقت آ کر رہے گا۔ مائوزے تنگ سے پہلے‘ اس کے حسن نیت پہ اطمینان رکھنے والا چو این لائی‘ چل بسا۔ مائو مرا تو اس کا وقت آ پہنچا۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کم عقلوں کا انبوہ نہ تھا۔ دلیل کے ماننے اور سننے والے تھے۔ اپنی اصلاح پہ قادر تھے۔ کیا ہم اپنی اصلاح پہ آمادہ ہو سکتے ہیں؟
عمران خان کے باب میں بہت زیادہ حسن ظن اب یہ ناچیز نہیں رکھتا۔ واقعہ یہ ہے کہ 3 اکتوبر 2011ء کے بعد ہی حسن ظن کم ہوتا چلا گیا۔ جب لاہور میں ایک ہفتہ قیام کرنے کی بجائے کہ ثمرات سمیٹے‘ اسی شام وہ چین روانہ ہو گیا۔ کئی بار اس نے کہا: تم تو عید کا چاند ہو گئے۔ کئی بار اس کی ناراضی کا خطرہ مول لیا کہ طے شدہ ملاقات‘ کسی دوسری اہم چیز کے لیے منسوخ کر دی۔ ایک آدھ بار تو وہ چیخا چلّایا بھی۔
نہیں، ترجیحات طے کرنے کا سلیقہ وہ نہیں رکھتا۔ اسے معلوم نہیں کہ کرپشن سے لڑنا اہم ہے‘ مگر اس موضوع پر مسلسل اظہارِ خیال سے سرمایہ سکڑنے اور فرار ہونے لگتا ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ قومی زندگی استوار کرنے والے بنیادی اداروں میں سے کسی ایک کا کمزور ہونا بھی خطرناک ہوتا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات محدود کرنے کے بارے میں‘ اس کا نظریہ بنیادی طور پہ درست ہو سکتا ہے۔ کبھی اشتہار دینا خود حکومت کے مفاد میں ہوتا ہے۔ وقت یہ بات سمجھا دے گا۔ وقت سبھی کو‘ سب کچھ سمجھا دیتا ہے۔ 
ایک اور نکتے کا اسے ادراک نہیں‘ قوموں کی تعمیر و ترقی کے لیے‘ ایک کم از کم اتفاق رائے درکار ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اس اتفاق رائے کے لیے حکمران کو وسیع القلب ہونا چاہئے۔
لشکر بھوکا تھا مگر ظہیرالدین بابر کے ساتھیوں میں سے ایک نے اپنی بکریاں اس کے ہاتھ‘ ادھار پر فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ بابر نے اس پہ صبر کیا۔ کئی اور مواقع پر بھی۔ 
ظہیرالدین بابر کو ہیرلڈ لیم کس بنا پر ''Prince of all princes‘‘ کہتا ہے؟ وہ جانتا تھا کہ انسانی کمزوریوں کو گاہے گوارا کرنا چاہئے۔ ہمارا وزیر اعظم یہ بات نہیں سمجھتا۔ کوئی اسے سمجھا بھی نہیں سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved