آپ سب نے ماں کے وجود سے محروم ایک گھر میں بڑے اور چھوٹے بھائی کامکالمہ ضرور سن رکھا ہوگا۔ جب اچھی طرح دُھنائی کرنے کے بعد بڑے بھائی نے کسی قدر اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے سے کہا :’’تم نہیں جانتے ،مجھے تم سے کتنا پیار ہے؟ یہی پیار ہے جو مجھے تمہاری اصلاح پر اکساتا ہے اور میرا ہاتھ بے اختیار تم پر اُٹھ جاتا ہے ‘‘۔چھوٹے بھائی نے سسکیوں اور سبکیوں کے ساتھ کہا : ’’بھائی جان،مجھے بھی آپ سے بے پناہ پیار ہے مگر میری مجبوری ہے کہ میں اپنے دل میں آپ کے لئے موج زن پیار کا اظہار بھی نہیں کرسکتا‘‘۔ وہ جنہوں نے جیلیں بنائیں،عزیرات کا نظام بنایا،جلاد،قاضی، محتسب اور عساکر رکھے اور ان کے ہاتھ میں تیغہ،کوڑا، قلم اور اسلحہ دیا،ان سب کا دعویٰ رہا ہے کہ ہمیں انسانیت سے پیار ہے،ہم اپنے بچوں کو زیادہ بہتر اور محفوظ دنیا دینا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر کے لئے فکر مندوں اور ان سے ویسا پیار کرنے والوں نے ،جن کا ہاتھ بھی بے اختیار اٹھ جاتا ہے، کیا کیا سنہرے خواب اس دنیا کو دکھائے کہ سارے راکٹ،میزائل اور بم دراصل انسانی بقا کے لئے ہیں ،کیونکہ توازن قائم رکھنے کا اختیار انہی کے پاس ہے جسے پہلے وہ ’’طاقت کا توازن‘‘(بیلنس آف پاور) کہتے تھے اوراب ’’دہشت کا توازن‘‘(بیلنس آف ٹیرر)کہتے ہیں۔ہماری اس دنیا کے بڑے بھائی نے اعلان کیا ہے کہ انسانیت کے مفاد میں فیصلہ کر لیاگیا ہے کہ شمالی کوریا اور ایران پر پوری بے رحمی سے ایٹمی حملہ کیا جائے گا۔ ہم جیسے ماسٹر ،بچوں کو لفظوں کے معنی تضاد سے اور مثال دے کے سمجھانے کے عادی ہیںاس لئے رحم دلی یا ہمدردی کے ساتھ ایٹمی حملے کی مثال دینی مشکل ہو جاتی ہے۔جاپان نے ممکن ہے اپنے کمزور ہمسایوں کے ساتھ تاریخ کے کسی دور یا ادوار میں سفاکی کا سلوک کیا ہومگر آپ ہیروشیما کے امن میوزیم میں گئے ہوں تو آپ کو اس منحوس دن کی نشانیوں، ہزاروں گم شدہ بچوں کی جھلسی ہوئی چھاگلوں ، بستوں،جوتوں اور وردیوں کی ایک ایک دھجی سے لپٹے لاکھوں مائوں کے جوبین سنائی دیتے ہیں،وہ آپ کو کسی کا بھی بڑا بھائی نہیں رہنے دیتے۔ ہم اپنی اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایک طرح سے ایسا ’ہم درد‘ بڑا بھائی کہہ سکتے ہیں جو پاکستان کے ہر صوبے کے چھوٹے بھائی سے اپنی محبت کا بے ساختہ اور والہانہ پیار کا عملی مظاہرہ کرتی ہے مگر جب کوئی زائرنگ،کوئی رونق جہاں،کوئی عائشہ جلال، کوئی عائشہ صدیقہ یا کوئی سید سلیم شہزاد اس قوت کی شناخت،اس کے اجزائے ترکیبی اور دنیا بھر کے بڑے بھائی سے اس کے تعلق کی نوعیت پر سے پردہ سرکاتا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ کسی مردِ آہن کا عشرۂ اقتدار لوٹ آئے گا،اس لئے بہتر ہے کہ اپنے ’گھر‘ کے افراد کے بارے میں زیادہ جاننے کے لئے تجسس ظاہر نہ کریں۔لیکن کیا کریں ،جب آپ کو لگتا ہے کہ وہ پاکستان جہاں کوئی چالیس برس پہلے فلم ’کالا بازار‘ بنائی گئی تھی کہ لوگ اس سے نفرت کریں، ہوا یہ کہ معیشت،سیاست اور عسکریت پر اثر انداز ہونے والے کردار اسی بازار سے اٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے لگے ۔وہ بڑی ڈھٹائی سے ان وزارتوں کا قلم دان سنبھال لیتے ہیںجنہیں تاریخی بے حسی سے ’حساس‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ہماری نسل نے کئی عشروں تک مساوات انسانی کا خواب دیکھا تھا مگراب اس کی تعبیر مساواتِ ہلاکت کی صورت میں نکل رہی ہے ۔پاکستان کے ہر قریہ سے ہزاروں مائیں گھروں سے باہر نکل کے بیَن کر رہی ہیں،بہت سوں کے برہنہ تن بچے اغوا کر لئے گئے ہیں تاکہ ان کے لئے اللہ سے قربت کا دعویٰ کرنے والے نیک لوگ خود کش کفن بنوا سکیں، ولایت سے آئی بوریوں میں ان معصوموں کے لاشے سر بمہر ہو سکیں اور بچی کھچی لاشوں کو مسخ کر کے اولاد کو پہچاننے کی مائوں کی ازلی توفیق کو آزمایا جاسکے۔ اور ظلم یہ ہے کہ اس مذبح کے سرہانے کچھ گدھیں بیٹھی اس نکتے پر غور فرما رہی ہیں کہ افغانستان سے ہم سب کے بڑے بھائی کے چلے جانے کے بعد کیا ہماری دستار بندی ویسے ہو سکتی ہے جیسی اشک بار جمشید دستی نے عدالت سے سزا سنتے ہی اپنے چھوٹے بھائی کی کر دی ۔کوئی نہیں بتاتا کہ یہ دستار اس گھر میں سلامت کیسے رہ گئی تھی اور یہ کہ اس کے چھوٹے بھائی اسے احتیاطاً لے گئے تھے یا پھر کسی طاقت ور ہمسائے نے آنسو پونچھنے کے لئے دی تھی۔اصل میں میَں ویسا فلم بین ہوںجسے کسی فلم کے بعد بھی یہ انتظار رہتا ہے کہ اصلی سین دکھایا جانا باقی ہے۔گزشتہ ہفتے جمشید دستی کے لبوں پر جو ہردلعزیز نام تھا اوروہ یہ نام لے کر جس قوت سے اسے’ زندہ باد‘ کہہ رہا تھا، مجھے لگتا ہے کہ وہ کردارہم سب کی تالیوں کی گونج میں قومی سٹیج پر آئے گا اور پھرجمشید سے کوئی اور کام لیا جائے گا۔ایک مرتبہ مختاراں مائی نے کہا تھا کہ بڑے لوگ،ہم جیسے غریبوں کے ’ جھگے‘ اجاڑنے کے لئے ہمارے ہی طبقے کے لوگوں کواستعمال کرتے ہیں۔میں چاہتی ہوں کہ اس علاقے میں مدرسے بنیں اور وہ آباد بھی ہوںتاکہ امیروں کے لئے آلۂ کار ہمارے طبقے کے لوگ نہ بنیں۔اب جمشید دستی مختاراں مائی کے مدرسے کا طالب علم تو ہونے سے رہا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved