تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     22-10-2018

مٹکا نہیں ڈھکن!

عقیل خان کا قصور صرف یہ تھا کہ عام انتخابات کے دوران اس نے اپنے کھوکھے پر بیگم یاسمین راشد اورعمران خان کی تصاویر لگائی ہوئی تھیں‘ جس کا اس علاقے کے کونسلر اور وہاں کے نواز لیگ کے لوگوں کو سخت غصہ تھا۔ایک دن شہباز شریف فورس ضمنی انتخابات سے پہلے عوام کو عمران خان کے خلاف ابھارنے کا مشن لئے ہوئے لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے دفتر سے کچھ خاص ہدایات لے کر لاہور بھر میں پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے تاک تاک کر عام سے غریب اور سادہ سے لوگوں اور خاص کر تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والوں کو رگڑا لگاتے ہوئے ایک ایک ہزار روپے جرمانہ کرنا شروع کر دیا۔ لاہور میں چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے پٹھان ان کا سب سے زیا دہ نشانہ بننا شروع ہو گئے‘ جن میں نقی مارکیٹ کے عقب میں چائے کے کھوکھے والا کے پی کے سے آیا ہوا ایک بزرگ عقیل خان بھی شامل ہے‘ جس جگہ کچی آبادیاں ہوں‘ ورکشاپس ہوں‘ درزی خانے ہوں‘ چھوٹی چھوٹی دُکانیں ہوں ‘وہاں کام کرنے والے چھوٹے چھوٹے مزدوروں کی بہتات ہوتی ہے ‘وہاں کے مزدور لوگ دوپہر کے کھانے کے وقفے میں سالن وغیرہ زیا دہ تر گھروں سے لے کر آتے ہیں اور روٹیاں کسی تندور سے کاغذ میں لاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ شام کے وقت بھی یہ آتے جاتے چھوٹی موٹی دس بیس روپے کی کوئی نہ کوئی کھانے والی چیز استعمال کرنے کے بعد کاغذ یا شاپر ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں ۔اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی بھی دکاندار دن میں بار بار اپنی دکان کے سامنے پھینکے گئے مزدوروں کے شاپر اور اخباری کاغذ اٹھاتا رہے یا ان کو پھینکنے والے قسم قسم کے مزدوروں سے جھگڑا مول لیتے ہوئے ‘ان شاپروں کو اٹھانے کا کہتا رہے۔ عقیل خان کا یہی قصور بنا دیا گیا کہ اس کے کھوکھے کے سامنے ایک خالی شاپر کیوں پڑا ہوا تھا۔
میرا یہ کالم یا انتباہ علیم خان کیلئے ہے کہ وہ خود آ کر دیکھیں کہ مال روڈ پر کس قدر ' پھٹے‘ لگے ہوئے ہیں اور اس گلی میں بھی جہاں عقیل خان اور کچھ دوسرے لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا‘ وہاں بے تحاشا ریڈی میڈ گارمنٹس کے پھٹے اسی کارپوریشن نے لگوائے ہیں‘ جہاں سارا دن مرد و خواتین خریداری کرتے ہوئے خود اور بچوں کو کوئی نہ کوئی کھانے والی چیز لے کر دیتے ہیں ‘جو انہیں کھانے کے بعد وہیں پھینک دیتے ہیں اور وہ کاغذ اور شاپر ہوا سے اڑ کر اندر گلیوں میں آجاتے ہیں ‘جہاں عقیل خان کا کھوکھا اور دوسرے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں‘اسی گلی میں کھوکھے والے عقیل خان کو نشانہ بناتے ہوئے لاہور کارپوریشن میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے حکم خاص سے بھرتی کئے گئے اہلکاروں نے یہ کہتے ہوئے کہ دس ستمبر کو ایک ہزار روپے کا چالان کر دیا کہ تمہاری دکان کے سامنے شاپر ‘یعنی پلاسٹک کا خالی لفافہ کیوں پڑا ہوا ہے؟ ۔
عام انتخابات کے دوران یاسمین راشد کی تصویر لگانے کا جرم کرنے والے عقیل خان نے شہباز شریف فورس کے کئے گئے‘ جرمانے کی کتاب نمبر78 کی رسید نمبر378/18 کے تحت ایک ہزار روپیہ جرمانہ ادا کر دیا ہے‘ لیکن اس نے تحریک انصاف سمیت اس ملک کے میڈیا کے ایک ایک رکن سے سوال کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کہاں ہے ؟وہ عقیل خان کہتا ہے کہ ہم غریب نے جرمانے کاایک ہزار روپیہ بھر دیا ہے‘ لیکن کیاعمران خان یا تحریک انصاف کا پنجاب کا کوئی پھنے خان بتائے گا کہ مجھ پر یہ ظلم کیوں کیا گیا؟ عقیل خان جو پانچ سو روپے روزانہ بمشکل کماتا ہے‘ اس نے کڑوے گھونٹ بھرتے ہوئے اپنی دو دن کی کمائی کا ایک ہزار تو جیسے تیسے ادا کر دیا ہے؟لیکن وہ بار بار سوال کرتا ہے کہ کیا یہی تبدیلی ہے ‘ جس کا شور خان نے گھر گھر ڈالا گیا تھا ۔ علیم خان جو پنجاب حکومت کے سینئر وزیر بنائے گئے ہیں اور جو پنجاب کے وزیر بلدیات بھی ہیں‘ ان کے پاس یا عثمان بزدار کے خصوصی معاون عون چوہدری کے پاس چند منٹ ہیں ‘تو ان سے گزارش کروں گا کہ وہ عقیل خان کا یہ کھوکھا خود آ کر دیکھیں ‘جو مال روڑ پر واقع نقی مارکیٹ کے عقب والی سڑک پر واقع ہے اور یہ وہ گلی ہے‘ جہاں ورکشاپوں میں کام کرنے والے کوئی پانچ سو کے قریب مزدور دن میں نہ جانے کتنی مرتبہ کچھ نہ کچھ کھاتے ہوئے کاغذ یا خالی شاپر پھینکتے ہوئے یہاں سے گزر تے رہتے ہیں او ریہ کھوکھے اور دکانیںمال روڈ کا حصہ بھی نہیں ‘اسی پر بس نہیں‘ بلکہ لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں قائم شہباز شریف فورس نے اس کھوکھے سے چند قدم دور ٹیلرنگ کے سامان سے متعلق اشیا فروخت کرنے والے جاپان ٹیلرنگ میٹریل سٹور کو بھی کتاب نمبر14 اور چالان نمبر 395 کی رسید کاٹتے ہوئے ایک ہزار روپے جرمانہ کر دیا اور جب وہاں سے گزرنے والے ایک دکاندار نے عقیل خان کو جرمانہ کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا :آپ نے اس غریب کھوکھے والے کا بغیر کسی جرم میں اس لئے چالان کر دیا کہ پٹھانوں نے عمران خان کو ووٹ دے کر کامیاب کیوں کرایا ہے‘ جبکہ مال روڈ پر ہر طرف بڑے بڑے تاجر اور دکاندار موجود ہیں‘ ان کے سامنے ہر طرف بکھرے ہوئے کاغذ اور لفافوں کے ڈھیر اس وقت بھی موجود ہیں ۔کیا تم لوگوں کو یہ دکھائی نہیں دیئے ‘جو ادھر غریبوں کو تنگ کرنے آ گئے ہو ؟ جس پر شہباز شریف فورس نے اس شخص کا اور اس کی دکان نام پوچھا اور وہیں کھڑے کھڑے بک نمبر26 اور چالان نمبر381 کی رسید دیتے ہوئے اسے بھی ایک ہزار روپیہ جرمانہ کر دیا۔ ان غریب دکانداروں پر شہباز شریف فورس کے اس ظلم اور نا انصافی پر نہ جانے کیوں وہ فلم اور اس میں ادا کیا جانے والا وہ مشہو رفقرہ بار بار یاد آ رہا ہے'' اگر ہمیں روٹی نہیں دے سکتے‘ تو پیدا کیوں کرتے ہو‘‘۔ عمران خان اور اقتدار کی بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تحریک انصاف کے بڑے بڑے لیڈرو اور وزراء کرام شاید بھول گئے ہیں کہ دس برس مسلسل شہباز شریف فورس کے ہاتھوں قتل کئے جانے والے کارکنوں کی ہڈیوں پر اپنے اقتدار کا سنگھاسن بسانے والو ‘ اگر غریبوں اور مجبور کارکنوں پر شہباز شریف فورس کے ظلم کو ہی نہیں روک سکتے‘ تو پھر تحریک انصاف کا نام کیوں لیتے ہو؟ ۔ 
گائوں میں بزرگوں سے سنتے آ رہے تھے کہ مخالف کے ڈیرے پر رکھا ہوااس کا پانی والا مٹکا توڑنے کی بجائے اس پر رکھا ہوا ڈھکن وقفے وقفے سے توڑنا چاہئے‘ کیونکہ اگر مٹکا توڑ دیا تو پھر بات لڑائی جھگڑے تک چلی جائے گی‘ لیکن اگر صرف اس پر رکھا ہوا ڈھکن بار بار توڑ ا جائے گا تو ایک تو اس کا شک آپ کی طرف نہیں جائے گا اور دوسراہر مرتبہ نیا ڈھکن لینے کیلئے اسے خود یا اپنے نوکروں کو قریبی قصبے میں جانا پڑے گا اور اگر وہ ڈھکن ٹوٹنے پر آپ سے الجھنے کی کوشش کرے گا‘ تو گائوںاور اس کے ار د گرد کے لوگ ہنسیں گے کہ ملک صاحب نے ایک ڈھکن ٹوٹ جانے پر چوہدریوں سے لڑائی جھگڑاشروع کر رکھا ہے۔ بھلا ڈھکن کی بھی کوئی اوقات ہے۔ آدمی لڑے ‘تو کسی بڑی بات پر لڑے۔میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کی ہدایات پر یہی کھیل لاہور میونسپل کارپوریشن ‘جسے آپ میئر لاہور کرنل مبشر کی انفینٹری کہہ سکتے ہیں ‘انجام دے رہی ہے۔ وہ ایک ایک کرتے ہوئے پنجاب میں انصاف کے سب دعوؤں کو مٹاتی جا رہی ہے اور نیرو گالف روڈ پر بیٹھا بانسری بجا رہا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved