وزیراعظم عمران خان نے قوم کے نام اپنے پہلے خطاب میں تین اہم مسائل کی طرف اشارہ کیاتھا۔ اوران کے حل کے لیے اپنے عزم کااعادہ کیاتھا۔ ان مسائل میں اڑھائی کروڑ بچوں کاسکولوں سے باہر ہونا‘ مختلف النوع نظام ہائے تعلیم میں مختلف طرح کے نصابوں کاپڑھایاجانا اورتعلیمی اداروں میں تعلیم کا غیرتسلی بخش معیار شامل ہیں۔ یہ تینوں مسائل پاکستانی تعلیمی منظرنامے کے اہم چیلنجز ہیں۔ جن کے حوالے سے اعلیٰ سطح پران کاادراک ایک خوش آئند بات ہے۔
میںنے اپنے پچھلے کالموں(سی جے پی کی کمیٹی برائے تعلیمی اصلاحات اوریکساں نظام تعلیم:خواب سے تعبیرتک) میں پہلے دومسائل کے حوالے سے ان تجاویز کاذکر کیا‘ جوحکومتی ایکشن پلان کاحصہ بن سکتی ہیں۔ آج کے کالم میں تیسرے اہم مسئلے پرگفتگوہوگی‘ جس کاتعلق معیار(Quality)سے ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں کوالٹی کی اصطلاح کوسمجھناہوگا۔
پاکستان میں اکثرسیمیناروں‘ کانفرنسوں اور تعلیمی اجتماعوں میںکوالٹی کے حوالے سے تحفظات کااظہار کیاجاتاہے۔ عام طور پر جب کوالٹی کاذکرآتا ہے‘ توسکولوں کی تعداد‘ ان میں سہولیات کی موجودگی یا عدم موجودگی اوراساتذہ کی تعدادپرگفتگوہوتی ہے۔ یہ سارے عوامل کوالٹی کے اہم اجزاء ہیں۔ لیکن ان عوامل کی موجودگی کوالٹی کی ضمانت نہیں ہے۔ کوالٹی کے دوسرے حصے کاتعلق اس تدریسی اورسیکھنے کے عمل سے ہے‘ جوکلاس روم میں جنم لیتاہے۔اورجس کاتعلق نصاب‘ استاد‘ طالب علم‘ نظام امتحان اور سکول کے ماحول سے ہے۔ یوں تعلیم میں معیار( کوالٹی) کامفہوم وسیع ہے۔ جس کے ایک طرف تو سکولوں کی عمارات‘ وہاں پرموجود سہولیات‘اور اساتذہ شامل ہیں‘ تودوسری طرف کمرہ جماعت کے اندر تدریسی اورتعلیمی شامل ہے‘ جس کے نتیجے میںایک معیاری تعلیمی پراڈکٹ سامنے آتی ہے۔
پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستانی سکولوں میں سہولتوںکی صورتِ حال اورمعیار کیاہے۔پاکستان میں سرکاری سکولوں کی حالت دگرگوں ہے۔ الف اعلان کی جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں43 فیصد سرکاری سکولوں کی عمارتیں شکستہ ہیں۔ان میں متعددعمارتیں خطرناک ہیں۔ اساتذہ کی کمی کا یہ عالم ہے کہ سرکاری سکولوں کے21 فیصدسکول ایسے ہیں‘ جہاں صرف ایک استاد موجود ہے۔ اسی طرح14 فیصدسرکاری سکولوںمیں صرف ایک کمرہ ہے۔ اسی طرح اکثرسکولوں میں پینے کا صاف پانی‘ گرمیوں میں کولنگ اورسردیوں میں ہیٹنگ کامناسب انتظام نہیں۔ سہولتوں کافقدان یقینا تدریس اورسیکھنے کے عمل کومتاثر کرتاہے۔ سرکاری سکولوںمیں سہولتوں کے حوالے سے یہ اعدادوشمار تشویشناک ہیں۔پاکستان کے تمام صوبوں میں اگرچہ پچھلے برسوں میں اضافہ ہوا۔لیکن اس حوالے سے اب بھی صورتحال تسلی بخش نہیں ‘کیونکہ46فیصد سکولوں میں ابھی تک ٹائلٹ کی سہولت میسرنہیں۔35فیصد سکولوں میں چہاردیواری نہیں‘40فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی میسرنہیں۔
اب ہم کوالٹی کے اس پہلو کاجائزہ لیتے ہیں‘ جوکمرہ جماعت کے اندر جنم لیتاہے اور جس کاتعلق اساتذہ ‘ نصاب‘ کتاب‘طلباء ‘ امتحانی نظام اور سکول کے ماحول سے ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا امتحانی نظام انتہائی فرسودہ ہے‘ جوطالب علم کی یادداشت کاامتحان بن کررہ گیاہے۔ طالب علم کی مضمون کی سمجھ بوجھ یا زندگی کے مختلف پہلوئوں پرعلم کیApplicationہمارے نظام امتحان کامقصد ہی نہیں۔ اس کانتیجہ ہے کہ طلباء رٹے (Rote Learning)کی بنیاد پرامتحانوں میں اچھے گریڈز توحاصل کرلیتے ہیں ۔لیکن ان میں تخلیقی سوچ کافقدان ہوتاہے ‘یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے لوگوں کی کمی ہے ‘جوزندگی کے مختلف میدانوں میں ایجادات کرسکیں۔
ہمارا نظامِ امتحان چونکہ اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کو ماپنے کا پیمانہ نہیں ہے اورنہ ہی اس نظام امتحان میں اچھے گریڈز حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہے ‘لہٰذا سکولوں میں اساتذہ کی تدریس کامحوربھی طلباء میں تخلیقی صلاحیتوں کا فروغ نہیں ہوتا‘بلکہ ان کا مطمح نظرصرف اس نہج پرپڑھاناہوتا ہے‘ جس کے نتیجے میں طلباء اچھے نمبرحاصل کرسکیں۔ اچھے نمبروں کاحصول نہ صرف طلباء اور ان کے والدین کااولین مقصد ہے ‘بلکہ سکول بھی اس استادکواچھا استاد سمجھتے ہیں‘ جس کی کلاس کارزلٹ اچھاہو۔یوں بعض اوقات کچھ اساتذہ اچھا نتیجہ ظاہرکرنے کے لیے ان بچوں کوبھی اگلی کلاس میں پروموٹ کردیتے ہیں‘جو اس کے اہل نہیں ہوتے۔
اثر(ASER)کی2016ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق2014ء کے مقابلے میں 2015ء میں سرکاری سکولوں کے طلباء کی کارکردگی میں 7سے10فی صدبہتری آئی۔ یہ ایک خوش آئندہ خبرتھی‘ لیکن یہ خوشی زیادہ دیرپاثابت نہ ہوئی‘ کیونکہ2016ء کے جائزے کے مطابق طلباء کی کارکردگی میں2015ء کے مقابلے میں اُردو‘ انگریزی اورحساب کے مضامین طلباء کی کارکردگی میںاضافے کے بجائے کمی واقع ہوئی‘ مثلاً: انگریزی میں جوٹاسک 2015ء میں 49 فیصدبچوں نے کامیابی سے کیاتھا ‘ 2016ء میں48 فیصدبچے وہ ٹاسک کرسکے۔ اسی طرح اُردو؍سندھی؍پشتومیںجوٹاسک 2015ء میں 55 فیصدبچوںنے کیاتھا‘ 2016ء میں وہ ٹاسک52 فیصدبچے کرسکے۔ اسی طرح ریاضی میں جو ٹاسک 2015ء میں 50 فیصدبچوں نے کیاتھا‘وہ ٹاسک2016ء میں 48 فیصدبچے کر سکے۔ پاکستان میں ایک طرف تو اڑھائی کروڑبچے سکولوں کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکتے۔ دوسری طرف جو سکولوں تک پہنچ جاتے ہیں‘ انہیں غیرتسلی بخش تدریس کا سامناکرنا پڑھتا ہے۔
ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعلیمی استعداد ان کے تعلیمی درجے سے ایک درجہ کم ہوتی ہے۔غیرمعیاری تعلیم اور مالی مسائل کی کمی مل کر بچوں کوسکول چھوڑنے پر مجبورکردیتی ہے اور آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے35 فیصد بچے ڈراپ آئوٹ ہوجاتے ہیں۔یوں پاکستان دنیامیں ڈراپ آئوٹ بچوں کی شرح کے اعتبار سے دوسرے نمبر پرہے۔
اگرمعیارِ تعلیم میں بہتری مقصود ہے توہمیں معیار(Quality) کاایک ہمہ جہت(Holistie)تصور سامنے رکھناہوگا ‘جس میں کوالٹی کے سارے اجزاء اساتذہ ‘ طلبائ‘ نصاب‘ درسی کتب‘ نظام امتحان اورسکولوں کے ماحول میں بہتری لاناہوگی۔ یہ بات اہم ہے کہ اصل تبدیلی تب آئے گی ‘جب ہم مرکزی دھارے کے سرکاری سکولوںمیں تبدیلی لائیںگے۔ وہی سکول ‘جوکبھی اپنے معیار سے پہچانے جاتے تھے ‘اب اپنی ساکھ کھورہے ہیں۔ حکومتی سطح پر غیرسرکاری سکولوں کی خاص سرپرستی کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے حکومتوں کی توجہ کا مرکز پرائیویٹ ادارے تھے‘ یوں سرکاری سکولوں کو بے توجہی کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں سرکاری سکولوں میں تعلیمی معیار کو بلندکرنے کے عزم کااظہار کیا ہے۔قومی سطح پر معیارتعلیم میں بہتری کاعمل سرکاری سکول سے شروع ہوناچاہے‘ جہاں اکثریت ان بچوں کی ہے‘ جن کے والدین پرائیویٹ سکول کی مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔عمران خان کی تقریر کے تین اہم تعلیمی نکات آئوٹ آف سکول اڑھائی کروڑ بچوں کوتعلیم کی سہولت مہیا کرنا‘ مختلف نظام ہائے تعلیم میںکم ازکم یکساں بنیادی نصاب کو رائج کرنا اورسکولوں میں معیار تعلیم کی بہتری دراصل ایک ہی خواب کے تین حصے ہیں۔
یہ خواب عام بے وسیلہ لوگوں کے بچوں کومفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔ایک ایسی تعلیم جو انہیں اس قابل بنا سکے کہ وہ دوسرے بچوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں حصہ لے سکیں۔