سیاسی جماعتوں کو مل کر حکومت کے خلاف قرارداد لانا ہوگی: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر حکومت کے خلاف قرار لانا ہوگی‘‘ جبکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ میں گرفتاری سے بچنے کے لیے شورمچا رہا ہوں‘ حالانکہ جان بچانا فرض ہے اور میں فرض ہی ادا کر رہا ہوں‘ اُدھر حضرات حسین نورانی اور انور مجید سے طوطے کی طرح رٹوا کر میرے خاندان پر زہر اگلایا جا رہا ہے‘ جبکہ طوطے کو چُوری کھلا کر اس سے کچھ بھی کہلوایا جا سکتا ہے۔ ان وارداتوں میں بلاول کا بھی نام لیا جاتا ہے‘ گویا مریم نواز سمیت مستقبل کے وزیراعظم کا راستہ روکا جا رہا ہے؛ اگرچہ تمام اپوزیشن کی متفقہ قرارداد سے بھی حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ‘لیکن اس کے علاوہ اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے ‘جبکہ ابھی مظلوم اور معصوم ایان علی کے خلاف وارنٹ نکال کر جو ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں‘ وہ ان سب سے الگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت چل سکتی ہے ‘نہ ملک چلا سکتی ہے‘‘ حالانکہ حکومت چلانے کا نسخۂ کیمیا میرے اور شریف برادران سے اچھی طرح سیکھا جا سکتا تھا‘ بلکہ میں تو یہ ٹیوشن مفت پڑھانے کو تیار ہوں اور سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ مجھے نواز شریف سے بات کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے‘ جبکہ حکومت اتنے یوٹرن لے سکتی ہے‘ تو میں ایک کیوں نہیں لے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''سلیکٹ وزیراعظم گھر سے ہیلی کاپٹر پر دُولہا بن کر نکلتا ہے‘‘ اور یہ کون سی مشکل بات ہے‘ اگر میں نے دوسری شادی کرلی ہوتی‘ تو میں بھی گھر سے دولہا بن کر نکل سکتا تھا‘ تاہم دوسری شادی کے لئے نا صرف سر پر بال ہونے چاہیے‘ بلکہ منہ میں اصلی دانت بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کی نااہلی تھوڑے وقت میں سامنے آ گئی‘‘ جبکہ ہم نے اپنی نااہلی سامنے ہی نہیں آنے دی ‘کیونکہ ہمارا کام ہی دوسرا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ان سے اقتدار سنبھالا نہیں جا رہا‘‘ حالانکہ اس کے لیے خاکسار کی خدمات حاصل کی جا سکتی تھیں‘ بلکہ یوسف رضا گیلانی ہی کافی تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''کوئی این آر او ہوا نہ میں نے فائدہ اٹھایا‘‘ کیونکہ ہم فائدہ دوسرے طریقوں سے کافی حد تک اٹھا لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ لوگ ذہنی طورپر چھوٹے ہیں‘‘ جبکہ ہم ذہنوں کی بجائے ہاتھ‘ بلکہ دونوں ہاتھوں سے کام لیتے ہیں اور ذہن کو دوسرے کاموں‘ مثلاً وصیت وغیرہ تیار کرنے کے لیے محفوظ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''آبادی نے بڑھنا ہے اور کسی نے نہیں سوچا کہ ہم نے پانچ سال میں کیا کھانا ہے‘‘ جبکہ ہم نے تو جو کھانا ہے‘ اس کا انتظام قیامت تک کے لیے کر چھوڑنا تھا‘ بلکہ قیامت کے بعد تک بھی کام آتا‘ کیونکہ قیامت کے بعد اللہ میاں نے کہاں رکھنا ہے‘ وہاں کھانے کا کوئی خاص بندوبست نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ''اسلام آباد میں تو ہوتی ہی سازشیں ہیں‘‘ اور سب سے زیادہ نیب میں تیار کی جاتی ہیں‘ جو ہمیں زیادہ سے زیادہ پریشان کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؛ حالانکہ کم یا مناسب مقدار میں پریشان کرنے پر بھی گزارہ ہو سکتا ہے۔ انہیں نے کہا کہ ''مشرف جب حکومت میں آئے‘ تو ہم جیلوں میں تھے اور جیل کے وہ دن اور راتیں اب مجھے یاد آتی ہیں‘ تو کلیجہ منہ کو آتا ہے‘ جہاں گھر سے زیادہ آرام دہ آسائش مہیا تھی اور ہر قسم کے افراد سے ملاقات پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی‘ جن کا اب تصور تک نہیں کیا جا سکتا اور میری پریشانی کی اصل وجہ یہ بھی ہے‘ ورنہ جیل کوئی اتنی خوفناک چیز بھی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن حکومت کو تسلیم نہیں کرتی‘ نیب دباؤ ڈال رہا ہے: فضل الرحمن
جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن حکومت کو تسلیم نہیں کرتی‘ نیب دباؤ ڈال رہا ہے‘‘ بلکہ میں تو اسے بالکل ہی تسلیم نہیں کرتا‘ کیونکہ اس نے مجھے الیکشن میں اس قابل چھوڑا ہی نہیں اور میں تلاشِ رزق کے دیگر ذرائع تلاش کرنے میں لگا ہوا ہوں‘ جس میں کامیابی ہرگز نہیں ہو رہی‘ جبکہ حکومت کے خلاف بیان دے دے کر مجھے بھوک بھی زیادہ لگنے لگی ہے اور پیٹ میں ہر وقت چوہے دوڑتے رہتے ہیں ‘جن کا علاج تو یہ ہے کہ ان پر کوئی بلی چھوڑ دی جائے ‘لیکن اب تک کوئی مناسب بلی بھی دستیاب نہیں ہو سکی اور حیرت ہے کہ یہ چوہے دوڑتے دوڑتے تھکے بھی نہیں ؛حالانکہ درمیان میں مناسب وقفہ بھی ہونا چاہیے‘ پھر سوچا کہ چوہے مار گولیوں سے کام لیاجائے‘ لیکن پھر معلوم ہوا کہ یہ چوہوں کے علاوہ انسانوں کے لیے بھی انتہائی غیر مفید ہیں‘ اوپر سے نیب جو دباؤ ڈال رہا ہے‘ اس کا بھی چوہوں پر خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ آپ اگلے روز چار سدہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومتی اقتصادی پالیسیوں نے عوام کی چیخیں نکال دیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور رکن قومی اسمبلی چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت کی اقتصادی پالیسیوں نے عوام کی چیخیں نکال دیں‘‘ اور ہمارے لیے یہ باعث ِ حیرت بھی ہے‘ کیونکہ ہم نے تو عوام کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا تھا کہ وہ چیخ ہی مار سکیں‘ لیکن اب جو چیخیں مار رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہمارے ساتھ فراڈ کر رہے ہیں‘ سو ایسے فراڈیئے عوام کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 100دن میں ریلیف دینے والوں نے مہنگائی کا پہاڑ گرا دیا ہے‘‘ اور ہماری سمجھ میں ابھی تک نہیں آ رہا کہ حکومت یہ پہاڑ کہاں سے اور کیسے لے آئی ہے اور اس نے اسے عوام پر گرایا کیسے ہے ‘کیونکہ پہاڑ کو اٹھا کر ہی گرانا پڑتا ہے۔ آپ نارووال میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نوٹ: میری کمر میں سِسٹ تھا ‘جس کا آپریشن کروا لیا گیا ہے‘ شاید کالم کی ایک آدھ چھٹی کرنا پڑے۔
آج کا مطلع
کر ہی دے گا کبھی ازالہ بھی
خوش رہے رنج دینے والا بھی