وہی بات دو ہزار سال پہلے جو کنفیوشس نے کہی تھی۔ با الفاظِ دگر جسے اقبالؔ نے دہرایا:
ثبات اک تغیّر کو ہے زمانے میں
عظیم الشّان تبدیلیوں سے ہماری دنیا دو چار ہے اور ہمارا وطن بھی۔ زمانہ کروٹ بدلتا ہے تو ہچکولوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ انسان کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا کہ آزمایا جائے۔ اللہ کی آخری کتاب کہتی ہے ''تاکہ پتا چلے کہ تم میں سے کون حسنِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے‘‘۔ بری چیز تکلیف نہیں بلکہ بد عملی ہے۔ بری ہوتی تو اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں کو کبھی نہ پہنچتی۔
پاکستان کا امتحان زیادہ گمبھیر ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ سلجھایا نہ جا سکے۔ بندوں کا حال‘ مگر معلوم ہو جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ کون خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہے اور کون عزم و عمل کی راہ پر۔ کتاب کہتی ہے کہ ایسے میں دو طرح کے روّیے بروئے کار آتے ہیں۔ شکر یا انکار۔ تگ و دو یا شکایت۔
ابھی ابھی کسی نے بتایا کہ دو دن سے چیف سیکرٹری‘ ایڈیشنل چیف اور آئی جی سمیت کئی افسر پنجاب اسمبلی میں براجمان ہیں‘ اپوزیشن نے جس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ افسر شاہی کو وزیراعلیٰ اور وزرائ‘ نے قائل کر لیا ہے کہ اس بحران میں سرکاری ارکان کی سننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اضلاع میں پولیس افسروں کے تبادلے جاری ہیں۔سرکاری ارکان کی سفارش مانی جا رہی ہے۔ ڈپٹی کمشنروں کی باری آنے والی ہے۔ انسپکٹر جنرل امجد جاوید سلیمی کی شہرت اچھی ہے۔ دانا آدمی ہیں۔ سفاکی سے گریز کرتے ہیں۔ 2008ء میں وکلاء تحریک کے ہنگام ‘غیر قانونی احکام کی تعمیل سے انہوں نے انکار کر دیا تھا؛ با ایں ہمہ لڑائی جھگڑے سے گریزاں رہتے ہیں‘ عملی آدمی۔
نوکر شاہی سے تو عمران خان بھی شاکی ہو گئے اور ایسی بات کہی جو انہیں ہرگز نہ کہنا چاہئے تھی لیکن وہی ایک ہیں جو کسی قدر عزم و ہمت بھی رکھتے ہیں۔ تیاری چونکہ نہیں کی تھی؛ چنانچہ کبھی ٹامک ٹوئیاں بھی مارتے ہیں۔ ذہنی طور پہ الجھے بھی رہتے ہیں مگر امید کا دیا روشن رکھتے ہیں۔
تصدیق جب تک ہو نہ جائے حتمی طور پہ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ سعودی عرب سے موصول ہونے والی اطلاعات اگر ٹھیک ہیں تو پہلی باری سرنگ کے پرلے سرے پر روشنی کے آثار نمودار ہونے والے ہیں۔ ایک سرکاری ذریعے کا دعویٰ یہ ہے کہ چھ بلین ڈالر قرض کا امکان پیدا ہوا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین سے پہلے ہی کچھ مثبت اشارے ملے ہیں‘ نومبر کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم‘ جس کا دورہ کریں گے۔ ظاہر ہے کہ مہاتیر محمد سے وہ مشورہ کریں گے‘ دو ماہ قبل چینی منصوبوں پہ نظر ثانی کے لیے جو بیجنگ گئے۔
93 سالہ مہاتیر‘ پچاس پچپن برس سے سیاست میں ہیں۔ اپنے سامنے جنہوں نے دنیا کو بدلتے دیکھا۔ پاکستان سے جنہیں دلچسپی ہے۔ بیس برس ہوتے ہیں‘ جب کسی نے خاکسار کو بتایا‘ مہاتیر کہتے ہیں: میں پاکستان سے مل کر کام کر سکتا ہوں، اگر عنان عمران خان ایسے کسی شخص کے ہاتھ میں ہو۔
لیڈر شپ کے موضوع پر‘ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ اطلاع خان کو دی تو ملائیشیا کا اس نے قصد کیا۔ اتفاق سے انہی دنوں ایک سیمینار میں شرکت کی دعوت اسے ملی تھی۔ دارالحکومت کے نواح میں‘ ان کی شاندار رہائش گاہ پر مہاتیر سے ایک طویل ملاقات خاں نے کی اور پاکستان کے دورے پر مدعو کیا۔
اس موقع پر اس قدر سلیقہ مندی کا اس نے مظاہرہ کیا کہ ناچیز تو ششدر رہ گیا۔ چوہدری شجاعت حسین سمیت اکثر نمایاں اپوزیشن لیڈروں کو مدّبر کے خطاب اور اپنے ہاں عشائیے پر مدعو کیا۔ چند ہفتے قبل چوہدری صاحب نے کہا تھا: جنرل مشرف کے تم بوٹ چاٹتے رہے ۔ سیاست میں کوئی دشمنی اور کوئی دوستی دائمی نہیں ہوتی؛ اگرچہ جذبات سے مغلوب ہو جانے والا کپتان یہ نکتہ اکثر بھول جاتا ہے۔ جب اس طرح کے واقعات اور جملے یہ ناچیز لکھتا ہے تو اس کے بعض سحر زدہ مداح بگڑتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ گالیاں بکتے ہیں۔ ''تم اس کے دوست ہو یا چچا لگتے ہو‘‘۔ ان میں سے ایک خاتون نے مجھے دھمکی دی : تمہارا انجام رئوف کلاسرا‘ سلیم صافی اور عمر چیمہ سے مختلف نہیں ہوگا۔ کردار کشی کا طوفان کھڑا کرنے کی دھمکی۔ ممکن ہے‘ اس کا تعلق پارٹی کے میڈیا سیل سے ہو‘ ممکن ہے اس پہ نعیم الحقوں کا حکم چلتا ہو۔
جلد یا بدیر مالی بحران تو ختم ہو جائے گا۔ میرا خیال ‘اب بھی یہی ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف وغیرہ سے وہ بہتر حکمران ثابت ہوگا۔ اربوں‘ کھربوں بٹورنے کا اسے شوق نہیں۔ عدم تحفظ کا شکار بھی نہیں کہ بدعنوان افسروں کا تقررّ کرے۔ معاملہ فہمی البتہ کم ہے ؛ لہٰذا لطائف تو برپا ہوتے رہیں گے۔ تنظیم بہت بہتر کبھی نہ ہوگی۔ اس کے خیال میں لیڈر ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ مشیر بھی اکثر ناقص ہیں اور ''انشاء اللہ‘‘ ناقص ہی رہیں گے۔ دوپہر اکیلے میں ہنسی چھوٹ گئی جب اس کا بیان پڑھا کہ پاکستان میں White Collar Crime کے ماہرین نہیں ملتے۔ دنیا بھر میں وائٹ کالر کرائم کا سب سے بڑا ماہر‘ پاکستان میں ہے۔ جاپان اور ترک پولیس ‘ جس سے استفادہ کرتی ہے۔ اس موضوع پر‘ جو اقوامِ متحدہ کے کمیشن کا چیئر مین ہے‘ دنیا بھر کے ووٹوں سے چنا گیا‘ منتخب چیئر مین۔ مزید یہ کہ چودہ برس سے وہ اس کا ذاتی دوست بھی ہے۔
آصف علی زرداری کی طرف سے‘ اپوزیشن کو متحدہ کرنے کی پہل کا مطلب کیا ہے؟ اس طالب علم کے خیال میں‘ ایک پختہ فیصلے سے زیادہ‘ سودے بازی کے لیے یہ ایک دھمکی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کے نام۔ مشکل یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کی کچھ زیادہ مدد نہیں کر سکتی۔ فرض کیجئے کالا دھن سفید کرنے کے مقدمات میں پہل نیب نے کی ہوتی۔ فرض کیجئے‘ اس پہ اثر انداز ہوا جا سکتا۔ مگر یہ تو سپریم کورٹ نے کیا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جرم سرزد ہوا اور معمولی جرم نہیں۔ حالیہ تاریخ میں منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا سکینڈل۔ فرض کیجئے‘ اپنی حدود سے تجاوز کر کے‘ اسٹیبلشمنٹ کسی طرح اس کی مدد کرنے کی کسی طرح کوشش کرے۔ فرض کیجئے‘ عمران خان ایسا کریںتو قیمت اس قدر زیادہ ہوگی کہ کوئی چکا نہ سکے گا۔
لگتا یہ ہے کہ آصف علی زرداری کا یومِ حساب آ پہنچا ہے‘ میاں محمد نواز شریف کی طرح‘ خاموشی کی پر اسرار چادر جنہوں نے اوڑھ رکھی ہے۔ ان کی آتش بجاں صاحبزادی نے بھی۔ ان کے حامیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ محترمہ کلثوم نواز کی وفات کے سبب ہے۔ چہلم کے بعد دھاڑتے ہوئے وہ نکلیں گے اور چیر پھاڑ کے رکھ دیں گے۔ چہلم کو تو بہت دن بیت گئے۔ فرمایا: ہر انسان اپنے اعمال کا قیدی ہے۔
تصدیق ابھی ممکن نہیں مگر افغانستان سے آنے والی خبریں بہت چونکا دینے والی ہیں۔ پس پردہ تخلیق پانے والے ایک منصوبے کا چرچا ہے۔ آٹھ برس کی اسیری سے رہائی پانے والے ملا عبدالغنی برادر افغانستان کے نئے حکمران ہو سکتے ہیں‘ جب کہ اشرف غنی شریک اقتدار ہوں گے۔ بتایا گیا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر کی رہائی قطر کی فرمائش پہ ممکن ہوئی۔ قطر کیا عالمی سیاست کا اتنا بڑا کھلاڑی ہے؟ یا پس پردہ کچھ اور بھی ہے؟ گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا/ دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا۔
کچھ اطلاعات وہ ہیں‘ جن کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ مصّدقہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن یہ کہ خود حضرت مولانا فضل الرحمن خاموشی سے عمران خان کی حکومت کے ساتھ بات کر رہے ہیں‘ جس طرح کہ قائدِاعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کرتے رہے۔
ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
وہی بات دو ہزار سال پہلے جو کنفیوشس نے کہی تھی۔ با الفاظِ دگر جسے اقبالؔ نے دہرایا:
ثبات اک تغیّر کو ہے زمانے میں