پچھلے دنوں میں نے منیر ؔنیازی مرحوم کے ایک مشہور و معروف شعر کے حوالے سے چند گزارشات پیش کی تھیں‘ جو لفظ بہ لفظ طالب جتوئی کے سرائیکی شعر کا ترجمہ تھا‘ جس کے بعد مجی سلیم شہزاد نے بہاول نگر سے اطلاع دی کہ یہ شعر طالب جتوئی کا نہیں ‘بلکہ جانباز جتوئی کا ہے۔ میں نے اس شعر کے خالق کے بارے جناب ڈاکٹر انوار احمد سے بھی تصدیق چاہی تھی ‘جنہوں نے یہی کہا تھا کہ جانباز جتوئی بہت سینئر شاعر تھے‘ اس لئے یہ شعر طالب جتوئی ہی کا ہوسکتا ہے ‘جبکہ سلیم شہزاد کا کہنا تھا کہ جانباز جتوئی اتنے بھی سینئر نہیں ہیں ‘کیونکہ انہوں نے جانباز جتوئی کے ساتھ متعدد مشاعرے بھی پڑھ رکھے ہیں۔ میں نے ان سے عرض کیا تھا کہ جانباز جتوئی کا کوئی مجموعہ بھی شائع ہوا ہوگا؟۔ وہ اس کی کسی کتاب میں سے اس شعر کا سراغ لگا کر بتائیں ‘جس کا انہوں نے وعدہ بھی کیا تھا‘ لیکن ابھی تک ان کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
منیرؔ نیازی؛ اگر یہ بات تسلیم بھی کرلیتے ‘تو ان کی عظمت میں فرق نہ پڑتا‘ کیونکہ اس سے کم از کم ایک فائدہ تو ہوا ہے کہ منیرؔ نیازی کاشعر نا صرف ان کی پہچان بن گیا‘ بلکہ ایک زمانے میں مشہور بھی ہوگیا ‘ورنہ وہ شعر جانباز جتوئی یا طالب جتوئی کا ہونے کے باوجود کہیں تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتا۔
اسی طرح قمی بازکانی کے جس فارسی شعر کا لفظی ترجمہ ہونے کے حوالے سے مجبی عباس تابش کے جس شعر کا حوالہ دیا تھا‘ اس کا فائدہ بھی یہ ہوا کہ قم کا شعر تو کہیں ‘اس کے دیوان ہی میں ہوگا‘ لیکن عباس تابش کا شعر ۔؎
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
پوری اُردو دنیا میں مشہور ہوگیا‘ لیکن منیرؔ نیازی کی طرح عباس تابش نے بھی اس کا اعلان یا اعتراف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘ جبکہ منیرؔ نیازی تو چیلنج کئے جانے کے باوجود خاموش رہے! بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ کوئی شعر یا کسی کا مصرع آپ کے لاشعور میں کہیں محفوظ ہوتا ہے‘ جو کبھی اپنا ظہور بھی کرتا ہے اور آپ کے کسی شعر یا مصرع سے ٹکرا جاتا ہے‘ مثلاً :شہزاد احمد اور ایوب خاور کا ایک ایک مصرع میرے مصرعوں سے ٹکرا گیا تھا‘ لیکن جب مجھے حقیقت حال کا علم ہوا تو میں نے نا صرف ان دونوں حضرات کو اس کی اطلاع دی ‘بلکہ اپنے کالم میں اس کاذکر بھی کیا۔
ایسے کچھ کام میں نے بھی کئے ہیں۔ اسے آپ استفادہ بھی کہہ سکتے ہیں اور سرقہ بھی‘ لیکن سرقہ اس لئے نہیں کہ سرقہ کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے‘ جبکہ استفادہ کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے۔ اس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ میرے قیام اوکاڑہ کے دوران میرے دوست اور صحافی جاوید راہی کے پاس ایک نوجوان پنجابی شاعر ظفرل نامی آیا کرتا تھا۔ اس کی مندرجہ ذیل نظم ہم اس سے بار بار سنا کرتے تھے:
تاریخ دسدی اے
سکندر نے مرن پچھوں
تہی دستی دی کیتی سی نمائش
نواں سورج چڑھے گا جد
نویں دھرتی جنم لیسی
اودوں تاریخ دسے گی
ایتھے لکھاں تے کروڑاں
زندہ انساناں دے دونویں ہتھ خالی سن
یہ نظم میں اپنے کالم میں بھی درج کرچکا ہوں اور جناب فخر زمان کو سنا بھی چکا ہوں‘ لیکن یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس کے پاس شاید ایک آدھ نظم ہی ہے‘ یہ درویش منش اور آوارہ گرد آدمی ہے‘ اس نادر خیال کو ضائع ہونے سے بچانے کی خاطر اور اسے محفوظ کرنے کے لئے میں یہی خیال اپنے اس مقطع میں لے آیا۔؎
سکندر نے ظفرؔ مر کر تہی دستی کا اک ناٹک رچایا تھا
یہاں لاکھوں کروڑوں زندہ انسانوں کے دونوں ہاتھ خالی تھے
اسی طرح پاکپتن کے ایک شاعر ظہور حسین ظہور ‘جن کا جوانی میں ہی انتقال ہوگیا تھا‘کا ایک مصرع ہے۔ع
جے بولاں تے مار دین گے‘ نہ بولاں تے مر جاواں گا
اس خیال کو میں نے اپنے تیئں اپنے اس مقطع میں محفوظ کرنے کی کوشش کی۔؎
مار دیں گے تجھے اس بزم میں بولا تو‘ ظفرؔ
یہ بھی طے ہے کہ نہ بولے گا تو مر جائے گا
اسے آپ استفادہ کہیں یا سرقہ‘ میں نے اس کا اعلان اور اعتراف کرنا ضروری سمجھا ہے‘ کیونکہ کتاب کے حاشیے میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ اس کا حوالہ دیا جاسکے۔ سو‘ میرے کلام سے اگر ان دو اشعار کو نکال بھی دیا جائے‘ تو میں نے کم و بیش جو پچاس ہزار شعر کہہ رکھے ہیں‘ میرے لئے وہ کافی ہونے چاہئیں! اور واضح رہے کہ یہ اعتراف میں خود کر رہا ہوں کے کسی کے کہنے یا چیلنج کرنے پر نہیں۔ اور یہ دونوں شعر میرے مجموعوں میں موجود ہیں۔
میرے کلیات ''اب تک‘‘ کی جلد اوّل کا دوسرا ایڈیشن ‘سنگ میل پبلی کیشنز کے ہاں زیر طبع ہے ‘جو اگلے ماہ شائع ہوگا۔ اس میں اضافہ ڈاکٹر غافر شہزاد کا مضمون ہے۔خوبصورت غزل گو اکبر معصوم نے میرے کلام کا انتخاب کیا ہے‘ جس میں 500 غزلیں اور اڑھائی ہزار شعر ہیں۔ اسے بھی سنگ میل ہی چھاپے گا۔
میرا تازہ ترین مجموعہ ''تشویش‘‘ کے نام سے رنگ ادب پبلی کیشنز ‘کراچی سے شائع ہوگا‘ جس میں حسب معمول 121 غزلیں شامل ہوں گی۔فکاہی کالموں کا ایک انتخاب ''خشت زعفران۔۲‘‘ کے نام سے زیر ترتیب ہے‘ جو انشاء اللہ چند ہفتوں میں سامنے آئے گا۔
آج کا مقطع
اے ظفر‘ؔ اِن تلوں میں تیل نہیں
یہ دکاں آپ ہی بڑھا دیجے