تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-10-2018

چند صدارتی آرڈ یننس

وزیر اعظم عمران خان‘ اگر اپنے منشور اور گزشتہ 22 برسوں کے دوران جلسوں دھرنوں‘ پریس کانفرنسوں سمیت سینکڑوں ٹی وی ٹاکس میں کی گئی باتوں‘ دعووں اور تقریروں کے دوران پاکستانی قوم سے کئے گئے وعدوں پر عمل در آمد کیلئے واقعی ہی مخلص ہیں اور اس ملک اور قوم کی تباہ حال معیشت کو دل کی گہرائیوں سے بدلنا چاہتے ہیں‘ تو اس کیلئے انہیں کسی بھی ڈر خوف اور مصلحت کو ایک جانب رکھتے ہوئے چند صدارتی آرڈیننس نافذ کرنا ہوں گے اورا گر وہ ایسا نہیں کرتے‘ تو پھر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا مقابلہ کسی جمہوری اور اخلاقی قدروں کی پیروی کرنے والی سیا سی جماعتوں سے نہیں ‘بلکہ پی پی پی اور نواز لیگ سمیت ان کے اتحادیوں پر مشتمل ایسے ما فیا سے ہے‘ جن کے پاس ہن کے اس قدر انبار ہیں‘ جو ختم ہونے میں نہیں آتے اور ان کی پشت پر طاقتور پولیس اور سول سروس کے ساتھ ساتھ تاجروں‘ سرمایہ داروں اور ایسے ایسے صنعتی ٹائیکون کی بھر پور مدد شامل ہے‘ جن کے لیے پانچ دس ارب روپیہ ایک چٹکی میں خرچ کرنا معمولی بات ہے اور جن کے اثر و رسوخ کی وجہ سے طاقتور میڈیا کا کردار اب تک ان کے سامنے آ ہی چکا ہے۔ 
٭ عمران خان کوفوری طور پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اکنامک اور نیشنل ایمر جنسی نافذ کر تے ہوئے ملک بھر میں سمری کورٹس قائم کرنا ہوں گی اور اس کا اطلاق نیب کی عدالتوں پر بھی لاگو کرنا ہو گا‘ تاکہ کئی کئی سال تک لٹکائے گئے مقدمات کے فیصلے کئے جا سکیں ۔اس کیلئے نیب کے آئین کی رو سے ملنے والے اختیارات کے تحت90 دنوں میں ہی مقدمات کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ 
٭ ایمر جنسی نافذ کرتے ہوئے حکومت کو پہلے سے ہی معلوم ملکی وسائل کو لوٹنے والے سیا ستدانوں‘ سرکاری اور بینک کے اعلیٰ افسران‘ بزنس ٹائیکون‘ صنعت کاروںسمیت فوج اور سول سروس کے بڑے بڑے ریٹائرڈ افسران کو حراست میں لیتے ہوئے '' معاشی دہشت گردی کے جرائم‘‘ کے تحت ان سے لوٹی گئی دولت کی ایک ایک پائی کا حساب لینے کیلئے سخت ترین کارروائی کرنا ہو گی اور اس کیلئے عدالتی کارروائی کے دورانBURDEN OF PROOF اپنی آمدنی اور وسائل سے زیا دہ اثاثے رکھنے والے ملزم کے ذمہ ہو گا‘ نہ کہ پراسیکیوشن کے ذمے۔ 
٭ 10 ارب روپے یاا س سے زیادہ کے میگا کرپشن کے مجرم ثابت ہونے والوں کیلئے سزائے موت اور ایک ارب سے دس ارب سے کم کی کرپشن کرنے والوں کوعمر قید یا کم از کم25 برس بغیر کسی رعائت کے سخت با مشقت اور اس سے کم ملکی دولت ا ور وسائل لوٹنے والوں کیلئے چودہ برس قید سخت بغیر کسی قسم کی رعائت کے جس میں دن رات والا تصور ختم کرنا ہو گا۔
٭ اگر کوئی مجرم پلی بارگین کی سہولت مانگنا چاہتا ہے ‘تو اس کی صرف ایک شرط ہو گی کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد جس میں وہ تمام جائیداد شامل ہو گی‘ جو بیوی اور بچوں کے نام بھی ہو گی یا جس کے بارے میں حکومت کے پاس ثبوت ہو ںکہ یہ ملکی دولت لوٹ کر بنائی گئی ہیں‘ ان سب کو پاکستان کے حوالے کرنا ہو گا۔ 
٭ایمر جنسی نافذ کرنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کو ہوم ورک مکمل کر کے رکھنا ہو گا ‘کیونکہ اس پر پاکستان اور اس سے باہر دنیا بھر میں ایک کہرام مچ جائے گا۔تمام سیاسی جماعتیں‘ ان کے ارب اور کھرب پتی پارٹنر‘ حکومتی شخصیات اور مافیا وزیر اعظم کی حکومت ختم کرنے کیلئے آخری حد تک جائے گا ‘جس میں ہرقسم کا پہیہ جام اور ہڑتالیں شامل ہوں گئیں‘ ان میں ان کے حامی وکلاء پیش پیش رہیں گے۔یہ بھی مت بھولیں کہ ہر دکاندار خود کو تاجر سمجھتے ہوئے ہمیشہ نواز شریف کاساتھ دیتا چلا آیا ہے‘ اس لئے مکمل ہڑتال بھی کرائی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر کچھ گھس بیٹھئے بھی اپوزیشن کاساتھ دیتے ہوئے سامنے آئیں گے ۔اس کیلئے ہوم ورک کرتے ہوئے اپنی مخالف پی پی پی اور نواز لیگ کی صورت میں دونوں جماعتوں کے اندر ایک خاص حد تک فارورڈ بلاک بنانا ہو گا۔
٭ایمر جنسی نافذ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے پاس ایک بہترین موقع ہو گا کہ وہ لوگ‘ جنہوں نے شریف برادران کے کہنے پر پورے ملک میں مصنوعی مہنگائی کر رکھی ہے‘ ان کے تمام پوشیدہ سٹاک باہر لائے جائیں اور اس کیلئے پاکستان رینجرز کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوںکو کم ترین سطح پر لانا ہو گا اور ایسا نہ کرنے والے کیلئے منڈی سے لے کر دکان تک کوئی رعائت نہیں ہونی چاہئے ۔ 
٭ وزیر اعظم عمران خان کو نوشتہ دیوار غور سے پڑھ لینا چاہئے کہ اگر وہ بے رحمانہ اور تیز رفتار احتساب نہیں کرتے ‘تو ان کے در پے مافیا ان کے اس طرح ہاتھ پائوں باندھ کر رکھ دے گا کہ ان کی چالیس برس میںبنی ہوئی شخصیت کا بت پارہ پارہ ہو جائے گا۔ اور ان کے پاس واپسی کا پھر کوئی موقع نہیں رہے گا اور پھر سے نواز زرداری جیسے ملک کو لوٹنے کے لیے اپنی اپنی باریاں لیتے رہیں گے۔
٭وزیر اعظم عمران خان کو فوری طور پر آرمی چیف‘ آئی ایس آئی‘ چیف سیکرٹریز اور آئی جی صاحبان کو اپنے اعتماد میں لیتے ہوئے ان سب پر واضح کرنا ہو گا کہ تمام صورت حال ان کے سامنے ہے اور اب مرض کا علاج سوائے آپریشن کے کوئی اور نہیں اس کیلئے معاشی اور قومی ایمر جنسی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ‘کیونکہ کسی بھی ملک کا دفاع ‘اس کی معیشت سے منسلک رہتا ہے اور جو ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پہنچ چکا ہو‘ اس کیلئے ایک ہلکا سا انجکشن ناکافی ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے وہ لوگ جو اپنی جماعت ور قیا دت سے مخلص ہیں ‘انہیں جان لینا چاہئے کہ ایک جانب‘ اگر ان کے ملک کی سالمیت دائو پر ہے‘ تو ساتھ ہی ان کے لیڈر کی عزت شہرت اورساکھ کی بقا کا سوال بھی ہے ۔ اس لئے اب جلد ہی فیصلہ کرنا ہو گا‘ کیونکہ ایک ماہر سرجن کی طرح آپ کو آپریشن کیلئے خود کو تیار رکھناہو گا اور یہ ایمر جنسی کے علا وہ او رکچھ نہیں‘ جس کیلئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لینا ہو گا‘ جس کی مدت کو بڑھایا بھی جا سکتا ہے ۔یاد رہے '' جو ڈر گیا سو مر گیا‘‘ ۔ پولیس اور بیوروکریسی کے عدم تعاون کی‘ جو بات وزیر اعظم عمران خان نے کی ہے ‘یہ تو صرف ابتداء ہے۔
پی پی پی کی قیادت اور اس کے سینئر کارکن جانتے ہیں کہ جیسے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتی تھی ‘تو اس وقت کا اخباری میڈیا اور افواہوں کی شکل کا نواز لیگ کا سوشل میڈیا تیز رفتاری سے حرکت میں آجاتا اورکرپشن کی ایسی ایسی کہانیاں گردش کرنے لگتیں کہ خدا کی پناہ!اور چند ماہ بعد ہی لوگ بی بی کی حکومت کے جانے کی تاریخیں دینا شروع ہو جاتے اور ساتھ ہی ایک عام آدمی سوچنے لگتا کہ نواز شریف ہی سب سے بہتر ہے۔یہ تو بی بی تھی‘ جبکہ دیکھا جائے تو میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے سامنے تحریک انصاف تو محض ایک بچے کی مانند ہے‘ جس کا کوئی بھی وزیر اور لیڈر یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی کسی ضد سے عمران خان کو کتنا نقصان ہو گا‘ کیونکہ یہ لوگ اپنی ذات سے آگے سوچتے ہی نہیں ۔پشاور سے صوبائی اسمبلی کے حالیہ ضمنی الیکشن کی مثال سب کے سامنے ہے ۔جیتنے والا صلاح الدین تحریک انصاف کا جو ٹکٹ نہ ملنے پر اے این پی میں شامل ہو ا اور نواز لیگ‘ پی پی پی‘ جماعت اسلامی ‘ فضل الرحمن کی بھر پور مدد تھی ‘ دوسرے نمبر پر آنے والا بھی تحریک انصاف کا اور تیسرے نمبر پر آزاد امیدوار بھی تحریک انصاف کا پرانا کارکن ہی تھا‘یعنی تحریک انصاف کو تحریک انصاف نے ہی شکست دے دی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved