بیجنگ کے جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا‘ وہ اس شہر کے پرانے اور بہترین ہوٹلوں میں شمار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ظفر نے دنیا کی کئی شخصیات کے بارے میں بتایا کہ وہ یہاں ٹھہر چکی ہیں۔ ہم سب رات بھر کے جاگے ہوئے تھے اس لیے ہوٹل میں داخل ہوتے ہی ہمیں صرف اس بستر سے مطلب تھا جو کچھ دیر میں ملنے والا تھا۔ معاون لڑکیوں نے ہمارے پاسپورٹ لے لیے کہ ہوٹل میں ہمارے اندراجات ہو سکیں‘ اور ہم سب لابی میں دائرہ بنا کر بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنے اپنے کمروں میں جاتے، ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا، '' آپ لوگ جلدی سے تیار ہو کر آ جائیں، ہمیں چین کے سرکاری ٹی وی کا دورہ کرنا ہے‘‘۔ ہارون الرشید صاحب نے صدائے احتجاج بلند کی کہ چند گھنٹے آرام کے بعد ہی کوئی دورہ ممکن ہو سکتا ہے۔ سہیل وڑائچ نے خاموشی سے ان کی تائید کی، خوشنود علی خان بولے، ''اب ایسی بھی کیا جلدی ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے قطعی فیصلہ سنایا کہ جانا تو ہو گا لیکن آپ تینوں کو یہ چھوٹ دی جا سکتی ہے کہ تھوڑی دیر آرام کر لیں۔ میرے لیے ہدایت جاری ہوئی کہ پندرہ منٹ میں منہ ہاتھ دھو کر گاڑی میں بیٹھ جاؤں۔ میں نے اس ہدایت سے کچھ انحراف اس طرح کیا کہ دیے گئے وقت میں ہی منہ ہاتھ دھونے کی بجائے نہا لیا اور کپڑے بھی تبدیل کر لیے۔ گاڑی میں بیٹھ کر شہر کے ایک اور حصے کی طرف چلے تو یوں لگا کہ ایئر پورٹ سے ہوٹل تک بیجنگ نظر ہی نہیں آیا تھا‘ اصل شہر تو اب شروع ہوا ہے۔ پہلی نظر نے مبہوت کر دیا تھا، دوسری نظر میں اس شہر کا رعب طاری ہونے لگا۔ چینیوں کی صرف تین دہائیوں کی محنت نے اس شہر کو صفائی، رونق اور تعمیر کی رعنائی کے حوالے سے دنیا کے لیے مثال بنا دیا تھا‘ اور ہم جیسے اس پر صرف رشک کر سکتے تھے کہ محنت و یکسوئی سے قائم کی گئی مثالوں سے متاثر ہو کر خود کچھ کرنا ہم پاکستانیوں کا شیوہ نہیں۔
چین میں ٹی وی صرف سرکاری ہے۔ دیکھنے میں طرح طرح کے کئی درجن چینل نظر آتے ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے اور وہ ہے سی سی ٹی وی یعنی چائنا سنٹرل ٹیلی ویژن۔ سی سی ٹی وی کی چوالیس منزلہ عمارت شاید اپنی نوعیت کی دنیا میں واحد عمارت ہے۔ اسے دیکھتے ہی پہلا سوال ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ یہ اب تک کھڑی کیوں ہے، ڈھے کیوں نہیں جاتی۔ اس کا یہ امتیازی وصف اتنا نمایاں ہے کہ دنیا کی بہترین عمارتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس عمارت کے آرکیٹیکٹ کا تعلق ہالینڈ سے تھا۔ جب یہ عمارت بنی تو اس نے کہا، ''چین کے لوگ ایسی عمارت کا تصور نہیں کر سکتے اور یورپ کے لوگ اسے بنانے کا نہیں سوچ سکتے‘‘۔ اس عمارت کی ساخت کو دیکھ کر لگتا بھی یہی ہے کہ یورپ والے اب اتنی محنت نہیں کر سکتے جتنی اس طرح کی عمارت بنانے کے لیے ضروری ہے‘ اور اپنی مسلسل محنت کی وجہ سے دنیا سے اپنا لوہا منوا لینے والے چینیوں نے تہذیب و ثقافت کی اس سطح کو نہیں چھوا جو خیال میں اتنی وسعت پیدا کر دے جس میں اس طرح کی عمارت سما جائے۔ سی سی ٹی وی کی عمارت کے بالکل سامنے ایک اور معجزۂ فن زمین سے اٹھ کر آسمان کو چھو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی عمارت ہے جس کی منزلیں ایک سو سے بھی زائد ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ بادلوںکو چھیڑتی ہوئی یہ عمارت مکمل طور پر لوہے سے تیار کی گئی ہے۔ اس عمارت کی سربلندی بلا شبہ ارد گرد کی تمام عمارتوں کو کچھ غیر اہم بنا دیتی ہے لیکن جو نُدرت سرکاری ٹی وی کی عمارت میں ہے اس کی شان ہی کچھ اور ہے۔
سی سی ٹی وی کی عمارت کے داخلی راستے پر گارڈ کھڑے تھے۔ سرکاری ٹی وی کی طرف سے مقرر کردہ میزبان نے گیٹ پر آ کر ہمارا استقبال کیا‘ جسے پہلے تو ہم گرمجوشی سمجھے لیکن اگلے ہی لمحے معلوم ہوا کہ گرم جوشی کے ساتھ ساتھ یہ احتیاط کا تقاضا بھی ہے۔ اس نے ہمیں ایک ایک کر کے عمارت کے اندر داخل کیا اور گارڈ کو ہماری گنتی کروائی جبکہ ایک دوسرے گارڈ نے ہمارے جسموں کو ہاتھ میں پکڑے ایک ایسے آلے سے چھوا جو آتشیں اسلحے سمیت ہر قسم کے بارود کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ بطور مہمان کے ہمیں تلاشی لینے کا یہ عمل اتنا ناگوار ضرور گزرا کہ پاک چین دوستی کی بلندی ہمالیہ سے کم ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی‘ لیکن وہیں کھڑے کھڑے اپنی آنکھوں سے یہ بھی دیکھا کہ عمارت کے اندر جانے والے کسی بھی شخص کو تلاشی سے استثنیٰ نہیں ملتا۔ شاہد خاقان عباسی صاحب کی امریکہ میں تلاشی کا منظر یاد کر کے دل کو تسلی دے لی۔ پھر یہ بھی کہ چینیوں نے برسر عام ہمارے کپڑے تو نہیں اتروائے۔
سی سی ٹی وی میں ہمیں یہاں کے دو مشہور اینکرز سے ملنا تھا، ایک تھا یانگ روئی اور دوسرا ایڈون ماہر۔ ایڈون ماہر کا تعلق تو نیوزی لینڈ سے ہے مگر وہ پچھلے پندرہ سال سے بیجنگ میں رہتا ہے اور چینی ٹی وی پر انگریزی میں پروگرام کرتا ہے۔ یانگ روئی سے مل کر اندازہ ہوا کہ پڑھا لکھا آدمی ہے اور چین کے دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو خوب سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ اس نے خود بتائی کہ انگریزی کے چینل پر جو کچھ بھی چلتا ہے وہ دراصل چین کی خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ کس ملک کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے اس کا فیصلہ بھی وزارت خارجہ میں ہوتا ہے‘ اور اس کے لیے ہم مسلسل خارجہ دفتر سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اپنے ٹی وی کے بارے میں اس نے بتایا کہ انگریزی نشریات کے لیے ایک الگ ٹی وی چینل امریکی اور برطانوی پروپیگنڈا کا توڑ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری بات امریکہ اور برطانیہ میں تو زیادہ نہیں سنی جاتی البتہ ترقی پذیر ملکوں میں اسے پذیرائی ملی ہے۔ بات جب پاکستان اور چین کے تعلقات کی طرف مڑی تو اس نے ایک عجیب بات کہہ دی۔ بولا، ''امریکی پروپیگنڈے کی وجہ سے آپ جیسے ترقی پذیر ملکوں میں چین کے بارے میں کچھ تحفظات پیدا ہو رہے ہیں‘ حالانکہ چین ان ملکوں کی ترقی کا خواہاں ہے‘‘۔ 'آپ جیسے ترقی پذیر ملک...؟ میں چونکا کیونکہ ان چند لفظوں نے واضح کر دیا کہ چین کی موجودہ نسل خود کو ایک ترقی یافتہ قوم سمجھنے لگی ہے اور دوسرے ملکوں کے بارے میں اس کے خیالات کی بنیادیں بھی تغیر کا شکار ہیں۔ اس کے فقرے کی ساخت نے اشارہ دے دیا تھا کہ چین کی آئندہ قیادت کے لیے شاید پاکستان برابر کے دوست کی بجائے غریب رشتے دار کی مانند ہو گا۔ یہ احساس ایک پاکستانی کے طور پر میرے لیے تکلیف دہ تھا کہ سرکاری میڈیا کا اتنا اہم شخص ہمارے بارے میں اس طرح سوچ رہا ہے۔ پھر خیال آیا کہ یانگ روئی بے چارے کا کیا قصور، ہم نے اپنا بیڑہ غر ق تو خود کر رکھا ہے۔
یانگ روئی تک ہی محدود نہیں، چین نے یکساں نظام تعلیم کے ذریعے ایک ایسی نسل تیار کر لی ہے جو غیر معمولی طور پر پُر اعتماد ہے۔ نوجوانوں کے جذبات میں حدّت تو ہے مگر شدّت نہیں۔ وہ اعلیٰ و ارفع آرزوئیں پالنے کی بجائے قابل حصول مقاصد کو سامنے رکھ کر کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ میری طرح پہلی بار چین آنے والے کو چینیوں کے عملی رویے دیکھ کر ضرور کچھ بے چینی ہوتی ہے لیکن سستی اور گھٹیاجذباتیت کی بجائے عملیت پسندی بہرحال زیادہ قابلِ قبول طرزِ عمل ہے۔ بازار میں چلتے پھرتے، دکانوں میں کام کرتے اور سرکاری کمپنیوں کے نوجوان افسروں سے مل کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ اگر اس دنیا میں کسی سے مقابلہ کر رہے ہیں تو وہ امریکا ہے۔ اس مقابلے میں معیشت کا میدان تو چین نے مار لیا ہے مگر تہذیب کے محاذ پر خاموشی سے شکست تسلیم کر لی ہے۔ اپنے ظاہر و باطن میں چین ایک نیا امریکا ہے اور شاید امریکا کو پریشانی بھی یہی ہے کہ ایک دنیا میں دو امریکا کس طرح ہو سکتے ہیں۔ (جاری)