اگلے روز کالم میں اپنے چھوٹے سے آپریشن کی ایک سطری اطلاع دی تھی تو عیادتی فون بھی آنا تھے‘ جن میں خواتین کے فون بھی شامل تھے۔ ایک صاحبہ زخم کا پورا محل ِ وقوع دریافت کر رہی تھیں۔ بتایا کہ کمر میں سِسٹ تھی ‘جو نکلوا دی تھی۔ پوچھا: کمر تو گردن سے لے کر نیچے تک ہوتی ہے۔ بتایا کہ کندھے کے نیچے‘ پھر پوچھا کہ دائیں کندھے کے نیچے یا بائیں کے نیچے۔ بتایا کہ بائیں کندھے کے نیچے۔ ایک بی بی پوچھ رہی تھیں کہ سِسٹ نکلی تو آپ نے دیکھی بھی تھی؟ پوچھا: کتنی بڑی تھی‘ میں نے کہا کہ بس گٹھلی کے برابر‘ کہنے لگیں کہ گٹھلی تو بیر کی بھی ہوتی ہے‘ کھجور کی بھی اور آم کی بھی... میں نے بتایا کہ کھجور کے برابر سمجھ لیجیے۔ ایک محترمہ معلوم کرنا چاہتی تھیں کہ سیدھے لیٹ کر کرایا تھا یا پیٹ کے بل۔ میں نے کہا کہ اگر سیدھا لیٹ کر کرواتا تو ڈاکٹر بیڈ کے نیچے گھستا‘ پہلے بیڈ میں سوراخ کرتا اور پھر میری کمر میں...ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ اسنتیھزیا دیں گے؟ یعنی بیہوش کریں گے یا انجکشن لگا کر جگہ کو سُن کریں گے۔ پوچھا: آپ کی عمر کتنی ہے؟ میں نے کہا: 88سال۔ تو بولے کہ اس عمر میں فُل انیستھیزیا خطرناک ہوتا ہے۔ میں نے کہا: انجکشن تو میں نہیں لگواؤں گا ‘جو آپ کہہ رہے ہیں کہ تین چار لگیں گے‘ یہ بتائیں انیستھیزیا میں رِسک کتنا ہوتا ہے؟کہا کہ10 فیصد‘ یعنی دس میں سے صرف ایک بچتا ہے۔ میں نے منہ لٹکایا تو بولے: میں پچھلے ماہ ایسے 9مریضوں کا انیستھیزیا سے آپریشن کر چکا ہوں ‘جو 9کے9 ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے‘ آپ تو دسویں ہیں‘ آپ کو فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بات میری سمجھ میں آ گئی اور کہا کہ آپ اللہ کا نام لے کر شروع کریں۔ بیہوی میں تو آدمی کچھ بھی نہیں کر سکتا‘ حتیٰ کہ مر بھی نہیں سکتا!
کوئی نصف گھنٹے کے بعد مجھے ہوش آیا تو میں نے پوچھا کہ کیا میں زندہ ہوں؟ اس سے یاد آیا کہ ایک صاحب جو خوب موٹے تازے تھے۔ اپنی بالکنی میں بیٹھے نیچے بازار کی رونق سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ان کا توازن بگڑا اور وہ نیچے آ رہے۔ ہسپتال میں انہیں تیسرے دن ہوش آیا تو پوچھنے لگے کہ کیا میں زندہ ہوں؟ تو جواب دیا گیا کہ آ پ تو زندہ ہیں‘ لیکن جن تین آدمیوں پر آپ گرے تھے‘ وہ اُسی وقت انتقال کر گئے تھے!ڈاکٹر صاحب نے ضروری ہدایت دیتے ہوئے تاکید بھی کی کہ اب آپ نے کچھ نہیں کرنا اور جا کر مکمل آرام کرنا ہے۔ میں جب لیٹے لیٹے تھک گیا تو اُٹھا کہ اب تھوڑا سا آرام کر لوں اور کالم لکھنے بیٹھ گیا‘ کیونکہ کالم لکھنا کوئی کام نہیں ہوتا۔ سعادت حسن منٹو سے کسی نے پوچھا کہ منٹو صاحب! آپ کہانی کیسے لکھتے ہیں! تو منٹو نے جواب دیا کہ کہانی تو میری جیب میں ہوتی ہے‘ میں نے صرف اُسے جیب سے باہر نکالنا ہوتا ہے! اسی طرح کالم بھی کالم نویس کی جیب ہی میں ہوتا ہے اور فون سننا اور کرنا جہاں ایک مشقت طلب کام ہے ‘وہاں کالم لکھنے کے لئے کوئی محنت وغیرہ نہیں کرنا ہوتی‘ بلکہ سوچنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی‘ کیونکہ کالم کو صرف آپ نے شروع کرنا ہوتا ہے‘ اس کے بعد یہ خود ہی رواں ہو جاتا ہے اور یہ تانگے کے گھوڑے کی مثال ہے‘ جسے تانگے کو شروع میں بس کھینچنا ہوتا ہے‘ اس کے بعد تانگہ خود ہی چلتا رہتا ہے‘ بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ میں نے شاعری میں بھی سوچ وغیرہ کو کبھی زحمت نہیں دی۔ ایک بار ہم لاہور سے رات کے وقت واپس اوکاڑہ جا رہے تھے کہ ڈرائیور جو اُسی دن نیا نیا رکھا تھا‘ گاڑی کو نہایت لاپروائی سے چلا رہا تھا‘ حتیٰ کہ ایک بار تو وہ گنوں کی ٹرالی کو باقاعدہ مس کرتا ہوا گزرا۔ میں نے کہا: یہ کیا کر رہے ہو‘ گاڑی ایسے چلاتے ہیں؟ تو وہ بولا: صاحب جی‘ رات کو تو گاڑی اندازے سے ہی چلاتے ہیں! میں نے گھر پہنچتے ہی اسے تو فارغ کر دیا‘ لیکن مجھے یاد آیا کہ شعر کی گاڑی کو بھی اندازے ہی سے چلاتے ہیں!
کشور ناہید نے البتہ پوچھا تھا کہ اس کی بایوپسی نہیں کرائی؟ میں نے کہا :نہیں‘ تاہم‘ کشور کو آپ خواتین میں شمار نہیں کر سکتے‘ کیونکہ اس نے زندگی کا جس طرح مردانہ وار مقابلہ کیا ہے۔ اس کے پیشِ نظر آپ اُسے خاتون کیسے کہہ سکتے ہیں؟خیر‘ اوپر کا جھوٹ سچ ایک طرف‘ یہ سرجری پروفیسر طیب عباس نے کی ہے‘ جو جناح ہسپتال میں سرجیکل وارڈ کے ہیڈ ہیں اور شام چھ بجے ایک برائیوٹ ہسپتال میں بھی بیٹھتے ہیں‘ انہوں نے چھوٹا سا ایک کٹ لگایا اور سسٹ کا کام تمام کر دیا۔ اُن کے ہاتھ میں جو شفاء ہے‘ اس کی گواہی لوگ دیتے ہیں۔روزانہ پٹی میرے اور ڈاکٹر صاحب کے مشترکہ دوست جاوید اسلام کرتے ہیں اور اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
لوگ مجھ کو تو روک لیتے ہیں
مجھ سے روکا نہیں گیا اک شخص
گرِ بھی سکتا ہے مجھ کنوئیں میں کبیرؔ
دن میں سو بار جھانکتا اک شخص (کبیرؔ اطہر)
اب کے لانا ہے نشانے پہ تری دُنیا کو
آخری تیر چلانا ہے‘ چلے جانا ہے
مستقل دل میں رہائش کی نہیں گنجائش
اب وہ آئے جسے آنا ہے‘ چلے جانا ہے
وہ کوئی اور علاقہ ہے ٹھہرنا ہے جہاں
یہ کوئی اور ٹھکانا ہے‘ چلے جانا ہے
جب ترا حُکم ہُوا خانہ بدوشوں کی طرح
سر پہ گھر بار اُٹھانا ہے‘ چلے جانا ہے (عمران عامی)
اس لیے بھی بھلا لگا اک شخص
مجھ سے بڑھ کر خراب تھا اک شخص
مجھے آزاد کرنا ہے کسی کو
مرے زندان کی چابی کہاں ہے؟
کسی نے توڑ کر فُٹ پاتھ دل کا
سڑک کو بے سہارا کر دیا ہے (شعیب زمان)
اُس میں پھر خُوبی کہاں سے آ گئی
آدمی جب وہ بُرا ہے ہی نہیں (رستم نامیؔ)
آج کا مقطع
جہاں سے فیض نہیں مل سکا کسی کو‘ ظفرؔ
ہم اٹھ کے آج اسی آستاں سے آئے ہیں