تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-10-2018

بالکل سامنے کی بات!

دور خواہ کوئی ہو‘ آلام و مصائب کی تو خیر کوئی حد ہی نہیں۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں‘ جو پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہیں اور ہمیں روئے ارض پر بسر کرنے کیے‘ جو وقت عنایت کیا گیا ہے‘ اس کا اچھا خاصا حصہ تو پاؤں کی ان زنجیروں کو توڑنے میں کھپ جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ ہم بالکل سامنے کی بات بھی نہیں سمجھتے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ 
ایسا کیوں؟ یہ سوال بہت اہم ہے‘ کیونکہ اس کے مؤثر جواب ہی میں اور بھی بہت کچھ مضمر ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ بہت کچھ ہے جو ہوتا رہا ہے اور ہوکر رہے گا۔ ہمارے ماحول اور ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو میکانیکی انداز سے ہو رہا ہے اور ہوتا ہی رہے گا۔ جس طور سُورج طلوع ہوتا ہے‘ نصف النہار تک پہنچتا ہے اور پھر ڈھلنا شروع ہوتا ہے اور مغرب میں ڈوب جاتا ہے۔ اِسی طور ہماری زندگی بھی چند ایک ایسے معمولات کی اسیر ہے‘ جو ناگزیر نوعیت کے ہیں۔ بہت سے معاملات ایک طے شدہ رفتار سے چلتے ہوئے اپنی منطقی حد تک پہنچتے ہیں۔ 
پاکستانی معاشرہ سرِدست ‘جن چند الجھنوں کے ہاتھوں غیر معمولی اذیت سے دوچار ہے‘ اُن میں بالکل سامنے کی بات نہ سمجھنے کی الجھن نمایاں ہے۔ کائنات کے اصول ہمیں بہت پیچیدہ دکھائی دیتے ہیں‘ مگر یہ اپنی اصل میں بہت سادہ ہیں۔ سُورج صبح کے وقت جس زاویے پر ہوتا ہے اُس زاویے ہی کی بدلت ہمیں گرمی زیادہ نہیں لگتی‘ پھر جیسے جیسے سُورج بلند ہوتا جاتا ہے‘ ہمارے لیے گرمی بڑھتی جاتی ہے۔ اور زوال کے وقت سے جب سُورج ڈھلنے لگتا ہے تب دھوپ کی شدت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ کہنے کو یہ کائنات کا محض ایک معمول ہے‘ جس پر کسی کو زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اِس معمول میں پیغام یہ ہے کہ ہم علی الصباح بیدار ہوں‘ ٹھنڈے اوقات میں کام کاج شروع کریں اور جب سُورج نقطۂ عروج تک پہنچے تب کام روک کر آرام کی طرف مائل ہوں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسی بالکل سامنے کی بات بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور ہم اپنی مرضی کے مطابق سونے‘ جاگنے اور معاشی سرگرمیوں کے اوقات طے کرتے ہیں۔ 
ہمارے ماحول میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ محض اس لیے نہیں کہ ہم تماشا دیکھتے رہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے بھی تو ہے کہ ہم کچھ تحریک پائیں‘ کچھ سوچیں اور کچھ کریں۔ کیا سوچیں اور کیا کریں ... اس کا مدار اس نکتے پر ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں‘ ہم کیا بننا اور کرنا چاہتے ہیں۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ بازار میں ایسا بہت کچھ ہے ‘جو خاصا مہنگا ہے۔ مہنگا اس لیے ہے کہ وہ تیار شدہ حالت میں فروخت کیا جارہا ہے۔ اگر وہ سب کچھ اپنے طور پر بنانا چاہیں تو بازار ہی میں تمام اجزائے ترکیبی آسانی سے دستیاب ہیں۔ تمام اجزائے ترکیبی گھر لے آئیے اور مطلوب آئٹم تیار کرلیجیے۔ گھر میں بنایا جانے والا آئٹم بازار میں دستیاب ویسے ہی آئٹم سے کم از کم 40 فیصد سستا ہوسکتا ہے۔ بعض معاملات میں تو لاگت اِس سے کم رہ جاتی ہے‘ مگر عمومی روش یہ ہے کہ لوگ ایسا نہیں کرتے ‘یعنی بازار سے تیار شدہ چیز لے کر استعمال کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ محنت کی عادت نہیں رہی۔ مختلف عوامل کے ہاتھوں ہم میں ایسی تن آسانی سماگئی ہے کہ اب بیشتر معاملات میں ہم ''ریڈی میڈ کلچر‘‘ کی رولر کوسٹر پر سوار رہتے ہیں‘ جو کام بہت آسانی سے گھر میں ہوسکتے ہیں‘ وہ بھی ہم نے دوسروں پر چھوڑ رکھے ہیں۔ 
وقت اس لیے ہوتا ہے ہم اُسے ڈھنگ سے گزاریں‘ معیاری زندگی میں تبدیل کریں۔ یہاں قصہ یہ ہے کہ وقت ہمیں گزار رہا ہے۔ ہم اس بات کے لیے تیار بیٹھے ہیں کہ زندگی ہمیں جس سانچے میں ڈھالنا چاہے ڈھالے۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے معاملات ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ چادر دیکھ کر پاؤں نہ پھیلانے کی عادت ایسے ہی ماحول میں پروان چڑھتی ہے اور چڑھ رہی ہے۔ آج بیشتر پاکستانیوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بجٹ کے مطابق زندگی بسر کرنے جیسی بالکل سامنے کی بات بھی سمجھ نہیں پارہے۔ یہ تنخواہ اٹھنّی‘ خرچہ رُپیہ والا ‘معاملہ ہے۔ حکومتوں کا طریق یہ ہے کہ پہلے اخراجات کا تعیّن کرتی ہیں اور پھر اُس کے مطابق آمدن کا حصول یقینی بناتی ہیں۔ عام پاکستانی کا معاملہ یہ ہے کہ اخراجات کا تعیّن تو نہیں کرتا‘ مگر اُن کے بارے میں تھوڑا بہت سوچ ضرور لیتا ہے۔ اور آمدن؟ اُس کے بارے میں سوچنے کی سِرے سے زحمت ہی گوارا نہیں کی جاتی! گویا ''آٹو سسٹم‘‘ پر زندگی بسر کی جارہی ہے‘ یعنی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ 
ملک بھر میں عمومی سطح پر طرزِ زندگی کی نوعیت یہ ہے کہ جو کچھ بھی ماحول میں دکھائی دے رہا ہے‘ وہ زندگی میں سمولیا جائے۔ ایسا کرنے کی گنجائش ہے بھی یا نہیں ‘اس کے بارے میں سوچنے کی توفیق کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ عام پاکستانی چاہتا ہے کہ گھر میں سہولت کی ہر چیز ہو۔ یہ خواہش ناجائز نہیں ‘مگر لازم ہے کہ اِس خواہش کو عملی شکل دینے والی مالی حیثیت بھی تو ہو یا مالی حیثیت کو اس حد تک پروان بھی تو چڑھایا جائے۔ یہ کہاں کی دانش ہے کہ کوئی خواہش تو پروان چڑھائی جائے‘ مگر اُسے عملی جامہ پہنانے کی سکت کے بارے میں نہ سوچا جائے؟ مگر کیا کیجیے کہ یہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم خواہش کی منزل میں پھنس اور اٹک کر رہ گئے ہیں۔ 
وقت کا کام گزر جانا ہے۔ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اِس کا تعین اس امر سے ہوتا ہے کہ وقت کو ہم کس طور بروئے کار لاسکے۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ بچہ جب لڑکپن کی حدود میں قدم رکھے ‘تو اُس پر غیر معمولی توجہ دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اور جب وہ عنفوانِ شباب کی منزل میں پہنچے تو اُس کے شب و روز پر بھی نظر رکھی جائے اور اُس کی عملی زندگی کے حوالے سے منصوبہ بندی بھی کی جائے‘ تاکہ معیاری زندگی بسر کرنے کی سکت اور گنجائش پیدا ہو۔ یہاں کیفیت یہ ہے کہ بچہ اچھا خاصا جوان ہوچکتا ہے تب تک والدین کو ہوش ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیسے جیے اور کیا کرے۔ بیٹا پچیس چھبیس سال کا ہو رہے ‘تب سوچا جاتا ہے کہ اب اُسے عملی زندگی سے رُوشناس کرایا جانا چاہیے! ملک میں آج کم و بیش ڈیڑھ کروڑ نوجوان ایسے ہیں‘ جن کی تعلیم‘ اخلاق اور عملی زندگی کے بارے میں سِرے سے کچھ سوچا ہی نہیں گیا۔ ماحول اور زندگی کے دریا میں وہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ کوئی واضح مقصد ہے‘ نہ اُس مقصد کے حصول کے لیے مطلوب جامع منصوبہ۔ 
آج وقت ہمیں جہاں لایا ہے ‘وہاں بہت کچھ ایسا ہے ‘جو کبھی نہیں تھا۔ ایسے میں ہمیں بھی ویسا نہیں رہنا ہے‘ جیسے ہم تھے یا اب تک ہیں۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ بہت کچھ سیکھنا ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمیں یہ سیکھنا ہے‘ دو اور دو چار جیسی بالکل سادہ اور سامنے کی ہر بات کو سمجھیں اور اُس کے تقاضوں کے مطابق خود کو بدلیں؛ اگر ہم نہ بدلے اور معاملہ وقت پر چھوڑ دیا تو جان رکھیے کہ سکھاتا تو وقت بھی ہے‘ مگر اُس کا سکھانے کا ڈھنگ بہت سفّاک ہے! تب ہمارے لیے بچ نکلنے کی راہ ہوگی ‘نہ چُوں چَرا کی گنجائش۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved