تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-10-2018

دل بھی کسی کا نام تھا

خنجرِ تسلیم کے شہید‘ ہر عہد میں ان کیلئے نئی زندگی۔ حیدر زماں کی موت نے ہزارہ کو یتیم کر دیا۔ ان کے لاکھوں پسماندگان کو اللہ صبر جمیل عطا کرے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کا قول قرآن کریم نے نقل کیا ہے: زندگی کا جمال صبر سے ہوتا ہے۔
غیاب میں ایک تاثر ذہن میں قائم ہو جاتا ہے۔ کوئی مختلف نکلے تو تعجب ہوتا ہے۔ قاری کے ذہن میں بابا حیدر زماں کا تاثر ایک بہادر‘ بے خوف اور بے باک آدمی کا تھا۔ وہ منحنی سے نکلے۔ 
ہزارہ صوبے کی تحریک کے ہنگام بابا حیدر زماں اس طرح ابھرے جیسے رزم گاہ میں کوئی نیا جنگجو ابھرے۔ صحافی کا تجسس ان کے شہر میں لے گیا۔ راستے میں ملے۔ بولے: گھر کا سامان منتقل کر رہا ہوں‘ ریسٹ ہائوس میں تشریف رکھیے۔ مسافر نے پوچھا: خیریت تو ہے مکان کیوں بدل رہے ہیں۔ بے ساختہ ہنسے اور بولے: مفت کا مکان تھا۔ اب مفت کا دوسرا مکان ڈھونڈا ہے۔ یہ اس آدمی کا حال تھا جسے ہزارہ کا بے تاج بادشاہ کہا گیا۔ ناظم کی حیثیت سے پانچ برس تک جو شہر کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ پچاس برس کی عملی زندگی میں‘ جن چند لوگوں کو غنی پایا‘ بابا حیدر زماں ان میں سے ایک تھے۔
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
سرکاری ریسٹ ہائوس‘ کشادہ اور قدیم۔ وہ عمارتیں جن پر جلال برستا اور جمال پھوٹتا رہتا ہے۔ شام کو کھانے پر مدعو کیا۔ کراچی سے میر پور اور گوجر خان سے سوادِ سکردو تک‘ خیبر ایجنسی سے غزنی تک‘ نیو یارک سے اوسلو تک‘ کیسے کیسے عالی قدر میزبانوں کی عنایات میّسر آئیں مگر بابا حیدر زماں ایسا میزبان زندگی میں ایک ہی بار دیکھا۔ عصرِ رواں کے عارف کی بات دوسری ہے۔ صوفی ایک استثنیٰ ہوتا ہے۔ 
دستر خواں فرش پہ تھا مگر بادشاہوں جیسا۔ دنیا بھر کی نعمتیں‘ سب سے بڑھ کر مکئی کی روٹی جو صرف ہزارہ والے پکا سکتے ہیں۔ پھر میرے کمرے میں تشریف لائے۔ مسافر کی التجا پہ اپنی کہانی اس طرح کہہ دی‘ جیسے برسوں کی رفاقت ہو۔ عرض کیا: سنا ہے بھرے جلسے میں آپ گالی دیتے ہیں۔ ایک طرف علالت میں بھی تہجد کی پابندی‘ دوسری طرف یہ حرکت؟ بولے: کبھی کراچی میں رہے ہو؟ لفظ ''موالی‘‘ کے معنی معلوم ہیں؟ میں ایک موالی ہوں‘ پھر اپنے قبیلے کی کہانی کہی‘ سدا کے باغی اور شورش پسند۔ کہا: تلوّن میرے خمیر میں ہے۔رات ڈھل گئی‘ تہجد کا وقت آ پہنچا۔ نیاز مند نے دلائل کے انبار لگا دیئے کہ گھر جا کر سو جائیے۔ تہجد تو کیا‘ آج فجر کی نماز بھی آپ قضا کر سکتے ہیں کہ بخار بڑھ چکا تھا۔ بولے: یاراجی‘ میں بھی سمجھتا ہوں مگر طبیعت کا کیا کروں‘ دماغ کا نہیں‘ میں دل کا آدمی ہوں۔
ایک تقریب میں کسی سے محوِ گفتگو تھے ۔ آگے بڑھ کر محترمہ بے نظیر بھٹو نے پوچھا: بابا جی‘ ہمیں بھی بتائیے کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ اسی بے باکی سے عمر بھر جو حیدر زماں کا خاصا رہا‘ تڑاخ سے کہا: یہ مردانہ گفتگو ہے۔ سر سے پائوں تک وہ دل ہی دل تھے۔ شہ سوار جنگجو عمر بھر میدانِ جنگ میں جیا۔ سپر ڈالی تو بس موت کے سامنے... اور کون ہے جو موت کے سامنے سپر نہیں ڈالتا۔
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
کوئی دن میں اے این پی کے دلاوروں نے ایبٹ آباد پر چڑھائی کی۔ درجن بھر بے گناہوں کو قتل کر ڈالا۔ موقع ملے تو بہت سے مظلوم بھی ظالم نکلتے ہیں۔ ہر گلی میں ایک حجاج بن یوسف رہتا ہے۔ یہ الگ بات کہ زندگی اسے موقع نہیں دیتی۔ صوبے کے حامیوں پر پولیس نے اس طرح فائرنگ کی‘ جس طرح 1919ء میں انگریزی فوج نے جلیانوالہ باغ پہ۔ پشتونوں کے حقوق کسی سے کم نہیں۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے ارشاد کیا تھا: تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے پیدا کیے گئے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر‘ گورے کو کالے‘ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ سے۔ باچا خان کے حامیوں کا روّیہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ باقی سب کم تر‘ حقیر اور قابل نفرت ہیں۔ اس ہنگام‘ جس تدبّر اور تحمل کا مظاہرہ بابا نے کیا‘ وہ ایک سچا انسان دوست ہی کر سکتا ہے۔ ایک دن جسے پروردگار کے سامنے حاضر ہونے کا یقین ہو۔ من خاف مقام ربہ و نھی عن الھویٰ۔ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا اور جی کو خواہشوں سے روکتا رہا۔
سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ الزام تراشی‘ بہتان بازی اور ہر معروف آدمی کی کردار کشی اس دیار کا رواج ہے۔ کچلی ہوئی انائیں انتقام پہ تلی ہیں۔ 
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر‘ سچ ہے ان کو کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھا‘ غم بھی کسی کی ذات تھی 
مرنے پہ بھی معاف نہیں کرتے۔ ہر آدمی کے باطن میں نہاں تعصبات کے درندے کھلے ہیں۔ بد گمانی شعار ہے‘ جو شرفا کی توہین سے آسودہ ہوتی ہے۔ ابھی ابھی دو پیغامات ملے۔ ایک میں مطلع کیا گیا کہ حیدر زماں الطاف حسین کے رفیق تھے۔ لاحول ولا قوّۃ۔ استثنیٰ کے سوا‘ سب لوگ محب وطن ہوتے ہیں۔ تاریخی شہادت یہ ہے کہ ملک سے ہزارہ والوں کی محبّت باقیوں سے بڑھ کر ہے۔ قائد اعظمؒ کو اپنایا تو ایسا اپنایا کہ آج تک پورے قد سے کھڑے ہیں۔
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
دوسرے نے لکھا: سنا ہے‘ شب کو‘ ''شربت‘‘ پیا کرتے۔ جواب میں خاکسار نے لکھا: اللہ کو حاضر ناظر جان کر میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تہجد گزار اور پابندِ صوم و صلوٰۃ تھے۔ 
صبح ایبٹ آباد سے واپسی کا ارادہ کیا تو کہا: یہ کیسے ممکن ہے‘ شام کو کچھ لوگوں نے آپ کو مدعو کیا ہے۔ جدونوں کا کوئی محل سا تھا۔ شاہانہ انداز خدّام کے ہاتھوں پہ دستانے‘ ماحول تکلّف سے بوجھل۔ پہلی بار یہاں بابا جی کو خاموش پایا۔ وہ سر تا پا خاکسار تھے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ دعا کیا کرتے ''یا اللہ مجھے صبر والا بنا‘ شکر والا بنا۔ یا اللہ مجھے اپنی نگاہ میں چھوٹا اور دوسروں کی نگاہ میں بڑا کر دے‘‘۔
تیسرے دن واپسی کا وقت آیا تو کپڑوں کا ایک جوڑا اور اخروٹ کی ایک بوری لے کر آئے۔ عرض کیا: یہ تکلّف مار ڈالے گا۔ بولے: تکلّف نہیں‘ یہ محبّت ہے۔
چھوٹے صوبوں کا ناچیز سدا سے قائل ہے۔ 1970ء سے‘ جب بہاولپور کے بے نوا باسیوں نے تحریک اٹھائی تھی۔ میرا یقین ہے کہ بہترین نظامِ عدل اور شفاف سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملک کی نجات جدید صنعت کاری‘ جدید زراعت‘ تعلیم کے فروغ‘ افرادی قوّت کی تربیت‘ قدامت پسندی سے نجات‘ بلدیاتی اداروں کے فروغ اور چھوٹے صوبوں کے قیام میں ہے۔ صدارتی نظام میں‘ جن کے گورنر براہ راست منتخب ہوں۔
معیشت سمیت قوموں کے لیے کبھی کوئی مختصر راستہ نہیں ہوتا۔ طویل المیعاد منصوبہ بندی ہی کلید ہے۔ پھر بھی بلدیاتی اداروں یا چھوٹے صوبوں کے لیے آواز اٹھّے تو کیوں نہ حمایت کی جائے۔ دل کی بات بھی آدمی اگر نہ کہے تو گھٹ کے مر جائے۔ احمد مشتاق کہاں ہیں؟
یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں/ہوائے غم کیلئے کھڑکیاں بناتے ہیں
اخبار نویس کا فرض ہے کہ سفید کو سفید اور کالے کو کالا کہے۔ اسی کی تنخواہ اسے ملتی ہے۔ بقولِ افتخار عارف یہ الگ بات کہ کوئی اللہ کی عطا کردہ مہلت کو نعمت سمجھتا رہے۔
ناچیز کی برائے نام سی کوشش کو‘ بابا نے اتنی اہمیت دی کہ دوست کا رتبہ بخشا۔ فون کرتے اور حال پوچھتے رہتے۔ ایک دن بولے: ایبٹ آباد کیا اس وقت آئو گے جب میں مر جائوں گا۔ یہ جملہ اب دائم دل میں ترازو رہے گا۔بابا جی چلے گئے۔ نیلے آسمان اور نیلے سمندروں کے اس پار‘ جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ 
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
خنجرِ تسلیم کے شہید‘ ہر عہد میں ان کیلئے نئی زندگی۔ حیدر زماں کی موت نے ہزارہ کو یتیم کر دیا۔ ان کے لاکھوں پسماندگان کو اللہ صبر جمیل عطا کرے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کا قول قرآن کریم نے نقل کیا ہے: زندگی کا جمال صبر سے ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved