چین کی وہ سرکاری کمپنی ‘ جس نے ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر بنایا ہے‘ اس کا عالیشان صدر دفتر بیجنگ میں ہے۔ اس دفتر میں ہمیں لے جانے کا مقصد غالباً یہ تھا کہ نواز شریف دور میں بننے والے اس بجلی گھر کے بارے میں جو غلط فہمیاں پاکستان میں پائی جاتی ہیں، انہیں دور کیا جائے۔ یہ کمپنی دنیا بھر میں ہر اس طریقے سے بجلی پیدا کرتی ہے جو اب تک انسان نے دریافت کیا ہے۔ اس کے دفتر میں یہ انتظام بھی ہے کہ چین اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں لگے ہر پاورپلانٹ کی براہ راست نگرانی ہوسکتی ہے۔ ہمیں ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں دیوار پر لگی بہت بڑی سکرین پر مختلف پاور پلانٹس میں ایندھن کے استعمال، پیداوار اور تقسیم کے اعدادوشمار مسلسل آرہے تھے۔ ہماری فرمائش پر انہوں نے کچھ بٹن دبا کر ساہیوال میں بنے بجلی کے کارخانے کے بارے میں براہ راست موصول ہونے والی معلومات بتائیں کہ اس دن کتنا کوئلہ خرچ ہوچکا ہے، بجلی کتنی پیدا ہوچکی ہے اور کس مشین پر کیا کام جاری ہے۔ سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اس پلانٹ کی ٹیکنالوجی پرانی ہونے کی جو بات کی جاتی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ اسی طرز کے پلانٹ آج بھی چین میں لگائے جارہے ہیں؛ البتہ میرے ایک سوال پر ماحول کچھ تلخ ہوگیا۔ میں نے کمپنی کے نائب صدر سے پوچھا، ''آپ نے چین سے باہر جو پاور پلانٹ لگائے ہیں ان میں سے مالی طور پر سب سے نفع بخش کون سا ہے اور سب سے نقصان دہ کون سا؟‘‘انہوں نے بتایا کہ مالی طور سب سے کمزور پاورپلانٹ میانمار میں ہے جبکہ سب سے نفع بخش پلانٹ پاکستان میں ساہیوال کول پاور پلانٹ ہے۔ پھر پوچھا کہ اس کی وجہ ٹیکنالوجی ہے یا بجلی کی بہتر قیمت جو حکومت ِ پاکستان آپ کو دیتی ہے؟ نائب صدر ایک لمحے کے لیے گڑبڑا گئے اور کمزور سی آواز میں بتایا، ''زیادہ نفع کی وجہ قیمت ہی ہے‘‘۔ ان کو غالباً میرا سوال ناگوار گزرا‘ اس لیے انہوں نے جلد ہی دوپہر کے کھانے کے لیے دوسرے کمرے میں جانے کی درخواست کرکے جان چھڑا لی۔ مجھے بھی تھوڑا افسوس ہوا کہ جہاں دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہو وہاں اس طرح کے تلخ سوال نہیں اٹھانے چاہئیں‘ مگر یہ سو چ کر دل کو تسلی دے لی کہ جہاں دوستی اتنی اونچی اور گہری ہو وہاں اتنا منافع بھی تو نہیں کمایا جاتا۔
کئی بڑی کمپنیاں براہ راست چینی حکومت کی ملکیت ہیںاور یہ سرکاری کمپنیاںحکومت کو دنیا بھر سے پیسہ کما کر دیتی ہیں۔ ان کمپنیوں کی نگرانی چین کی کابینہ کرتی ہے اور ان کی کامیابی کی وجہ صرف یہ ہے کہ کمپنیوں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر لوگوں کو چھانٹ پھٹک کر لگانے کے بعد انہیں کام کرنے کی مکمل آزادی دی جاتی ہے۔ پھر احتساب کا نظام اتنا مؤثر ہے کہ کرپشن کرنے والا زیادہ دیر تک چھپ نہیں سکتا۔ اسے چینیوں کی خاصیت کہیے یا کچھ اور کہ سرکاری شعبے میں کاروبار کا یہ تجربہ صرف چین میں ہی کامیاب ہوا ہے۔ سوویت یونین میں سرکاری کمپنیوں نے معیشت کو اتنا نقصان پہنچایا کہ آخرکار ملک ہی ٹوٹ گیا۔ پاکستان میں سرکاری شعبے میں کام کرنے والے کمرشل ادارے جیسے ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز ، یوٹیلٹی سٹورزاور بجلی کا نظام ہمارا خون چوس رہے ہیں مگر ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ چین میں عالم یہ ہے کہ بڑی کمپنیاں تو بڑی کمپنیاں، جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے وہ بھی سرکارکی ملکیت تھا۔ جب ڈاکٹر ظفر نے اس کے سرکاری ہونے کے بارے میں بتایا تو مجھے یقین ہی نہ آیا۔ میں نے پوچھا ، ''آپ کا مطلب ہے کہ ہوٹل کے استقبالیہ پر کھڑے نوجوان، یہاں کام کرنے والے بیرے، کمروں کی صفائی کرنے والی عورتیں سب کے سب سرکاری ملازم ہیں؟‘‘۔ جواب ملا، ''بالکل سرکاری ملازم ہیں اور یاد رکھیے کہ اس طرح کے تمام ہوٹل سرکاری ملکیت میں ہیں ‘‘۔ میرا اگلا سوال تھا کہ پھر یہ لوگ اتنی تندہی سے کام کیوں کررہے ہیں؟اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب صرف مسکرا دیے۔
چین کی تاریخ کے بارے مجھے اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ قوم افیون کے نشے میں گم تھی، یورپ کے کئی ملکوں نے یہاں اپنی سازشوں کا ایسا جال بچھا رکھا تھا کہ اس ملک کے بڑے بڑے شہر ان کے قبضے میں تھے۔ پھر یہاں ماؤزے تنگ انقلاب لے کر آئے توکایا پلٹنا شروع ہوئی۔ انیس سو اسی کی دہائی میں ڈینگ زیاؤ پنگ کے خیالات کو پذیرائی ملی‘ اور چین نے موجودہ شکل اختیار کرلی۔ کسی ملک کی تاریخ کی بارے میں کم پتا ہو تو غلط نتائج پر پہنچنے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔مجھے بھی یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کل تک جو قوم افیم کھا رہی تھی یکایک بدل کیسے گئی۔ یہ نکتہ دیوارِ چین پہنچ کر سمجھ میں آیا۔ چین کی تاریخ بیسویں صدی سے شروع کریں تو اس ملک کی موجودہ ترقی ایک معجزہ لگتی ہے، دیوارِ چین سے شروع کریں توچینیوں کا حق۔
دیوار چین کیا ہے؟ ستائیس اٹھائیس صدیاں پہلے بنائی گئی ایک دیوار اور بس؟ پاس جاکر دیکھا تو ایک بھدی سی دیوار جس میں کہیں برجیاں بنی ہیں تو کہیں محافظوںکے لیے کمرے۔ کوئی کتنا بڑا ماہر تعمیر کیوں نہ ہو، ایک دیوار میں زیادہ سے زیادہ کیاکرلے گا، سو اس دیوار میں بھی ایسا کچھ نہیں۔ اس کا راز اسی وقت کھلتا ہے جب آپ اس پر قدم رکھتے ہیں۔ اور وہ راز یہ ہے کہ کوئی قوم یکسو ہوکر ایک ایک پتھر جوڑکر چاہے بھدی سی دیوار ہی کیوں نہ بنا دے، وہ زمانے کے لیے معجزہ ہوجاتی ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بنی اس دیوار تک بنے پکے راستے سے آج کل بھی پہنچنا مشکل ہے ، ذرا تصور میں لائیں وہ زمانہ جب چینیوں نے ایک ایک پتھر یہاں پہنچایا ہوگا، پھر ایک پر دوسرا پتھر رکھا ہوگا اور یہ عمل کروڑوں مرتبہ دہرایا گیا ہوگا، تب اس بھدی سی دیوار کی کوئی شکل نکلنا شروع ہوئی ہوگی۔ برفانی ہوائیں پتھر برداروں کی ہڈیاں چیر جاتی ہوں گی، ایک کنکر سے پاؤں رپٹتا ہوگا تو کوئی نجانے بچ بھی پاتا ہوگا یا نہیں۔ دنیا بھر سے لوگ آج اس بھدی سی دیوار کو دیکھنے آتے ہیں، تصویر بناتے ہیں چل پڑتے ہیں۔ آج یہاں آنے کے لیے چیئر لفٹ موجود ہے‘ لیکن جب یہ دیوار بنی ہو گی تو اس کے معمار یہاں کیسے پہنچتے ہوں گے۔ یہ بھدی سی دیوار اگرایک آدھ میل لمبی ہوتی تو بھی اس کا بنانا مشکل تھا۔ چینیوں نے اسے آٹھ ہزار کلومیٹر طوالت دی تھی جس کا بہت بڑا حصہ آج بھی پہاڑوں کے سینوں پر انسان کی طاقت کا نقش بنا موجود ہے۔ سلیم بخاری صاحب اس دیوار تک پہلے بھی آچکے تھے سو انہوں نے راستے میں ٹھیر کر کافی پینے کو ترجیح دی۔ جب اس دیوار کو دیکھ کر میں واپس آیا تو انہوں نے میری حیرت بھانپ لی۔ کہنے لگے ، ''جو دیوار دیکھ کر آرہے ہو سات سو برس تک بنتی رہی تب جا کر مکمل ہوئی‘‘۔ ان کی بات سن کر خیال آیا کہ جو قوم سات سو برس اور نجانے کتنی نسلیں صرف کرکے ایک دیوار بنا سکتی ہے وہ دنیا میں کچھ بھی کرسکتی ہے۔ مجھے چینی قوم کی ترقی کی وجہ سمجھ آگئی۔ صرف یک سوئی اور مسلسل محنت!
ڈینگ ژیاؤ پنگ چین کی نشاۃ ثانیہ کا نقیب کہلاتا ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ اس نے تیس برس پہلے چین کے کمیونزم میں ذاتی ملکیت کا پیوند اس خوبصورتی سے لگایا کہ یہ ملک ایک جست میں ہی دنیا کو پیچھے چھوڑگیا۔ یہ بات یقیناً درست ہے مگر دیوار چین دیکھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈینگ ژیاؤپنگ نے اسے دیکھ کر سوچا ہوگا کہ چینی قوم نئے خیالات میں مغرب کامقابلہ نہیں کرسکتی مگر دنیا کی کوئی قوم مسلسل محنت میں چینی قوم کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس نے چینیو ں کو ان کی انفرادیت یاد دلا دی اور قوم کی قوم راہ پر آگئی۔ ایجاد و اختراع میں دنیا کے برابر نہ ہونے کا علاج اس نے شدید محنت میں ڈھونڈ لیا ۔ ایک ہم ہیں کہ اپنی کمزوری جانتے ہیں نہ صلاحیت کا ادراک رکھتے ہیں۔تاریخ، مذہبیت اور لایعنی فلسفوں میں الجھے ہوئے ناکارہ لوگ جو اپنی عظمت کے جھوٹے نغمے گا گا کر خود ہی دھمال ڈال کر پاگل ہوئے جاتے ہیں! (جاری)