اسے سنگِ میل پبلی کیشنز‘ لاہور نے چھاپا اور قیمت 400روپے رکھی ہے۔ انتساب ڈاکٹر زینت‘ ڈاکٹر کامران‘ ڈاکٹرعدالت اور ادارے کے بانی نیاز احمد کے نام ہے۔ اس میں نظمیں / غزلیں شامل ہیں‘ جبکہ حصہ نظم کا آغاز غالبؔ کے اس مصرعے سے کیا ہے: ع
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
کشور کا اصل میدان تو نظم ہے‘ جس میں جدید نظم کے تقاضوں کو بروئے کار لایا گیا ہے‘ تاہم اس میں 11غزلیں بھی شامل ہیں۔ پس سرورق شاعرہ کی تصویر‘ جبکہ سرورق قدوس مرزا کا تیار کردہ ہے۔ آپ کے تفنن ِ طبع کے لیے چند نظمیں:
سرگزشت
میرے آگے آگے تیز تیز چلتی ہوئی لڑکیاں/ پیچھے مڑ کر مجھے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دیکھ کر/ کبھی ہنستی ہیں اور کبھی ہمدردانہ لہجے میں مجھ سے پوچھتی ہیں/ ہم آپ کا ہاتھ پکڑ لیں؟/ مجھے بُرا نہیں لگتا‘ ہاتھ ہلاتے ہوئے/ مُسکرا دیتی ہوں/ وہ ہاتھ پکڑ کر مجھے سیڑھیاں/ چڑھاتی اور اُتارتی ہیں/ مجھے بہت اچھا لگتا ہے / کسی اور موڑ پر/ سیڑھیوں کے پاس مجھے ٹھہرا دیکھ کر/ کوئی اجنبی نوجوان بلا پوچھے/ اپنا ہاتھ آگے کرتا ہے‘ مجھے اوپر چڑھاتا ہے/ شکریے کا لفظ بھی نہیں سُنتا/ آگے اپنے کام سے چلا جاتا ہے/ یہ بے نام رشتے بڑھتے ہی جاتے ہیں/ مسکراہٹ کا بہانہ دینے والے نوجوان چہرے/ مجھے دنیابھر میں ملتے ہیں/ میں خوشی کی دھوپ میں سستانے بیٹھ جاتی ہوں
شہد ڈھونڈتی مکھّی
تم محبت کی بے سمتی کو جانتے ہوئے بھی/ اس کی جانب دوڑتی چلی جاتی ہو/ محبت کئی پردوں میں لپٹی/ ہر ایک کے ساتھ کوکلا چھپاکی/ کھیلتی رہتی ہے/ تمہیں محبت کا کونسا بہروپ چاہیے/ اطلس وکمخواب میں لپٹا/ یا سڑک پر بچے جنتی عورت کا/ سنو‘ تم واٹس ایپ پر/ کسی سے بلا معاوضہ بات کر سکتی ہو/ مگر ایسا فون رکھنے کی بھی بڑی قیمت ہے/ اور پھر بات کرنے والا/ تمہارے اندر پنجے گاڑنے کے لیے/ تمہیں ہراساں بھی تو کر سکتا ہے
بدن کا ہدیہ
جب میری روح پرواز کر جائے گی/ کتنا شاداب ہوگا وہ بدن/ جس میں میرا دماغ لگایا جائے گا/ اور وہ دل/ جب کسی جسم میں دھڑکے گا تو شہنائیاں گونجیں گی/ میں تو چاہوں گی میری زبان/ سچ بولنے والے منہ میں لگا دی جائے/ جس دن کسی کور چشم کی/ مایوسیاں‘ میری آنکھوں سے/ یوں شعاع ریز ہوں/ کہ ہر ایک رنگ کی قوسِ قزح کو/ دیکھ کر مسکرائے۔/ کتنی خوش ہوگی میری روح/ کہ میرا بدن زندگی اور روشنی/ بانٹتے بانٹتے/ مٹی میں فنا ہو جائے گی
برسبیلِ تذکرہ
کل شام تم میرے ساتھ تھے/ خواب میں‘ کیا واقعی/ میں اب تک تمہارا لمس/ محسوس کر رہی ہوں/ شاید ہوا تمہیں چھوکر آئی ہے/ ہوا مجھ سے پوچھتی ہے/ تمہارے خون میں جوانی/ پھر جوش مار رہی ہے/ تم زلیخا ہو کہ الزبتھ ٹیلر/ یہ بے معنی سوال ہے/ عشق مسکراہٹوں کی دہلیز پر/ رکھا ہوا وہ دیا ہے/ جسے ہوا بھی نہیں بجھا سکتی ہے
آخر میں ''افسونِ انتظار‘‘ کے عنوان کے تحت گیارہ غزلیں ہیں۔ ایک غزل کا عنوان ہے (ظفر' اقبال کے نام)جس کا مطلع ہے:
کبھی سوچا نہ تھا اتنی بھی سرشاری کبھی ہو گی
کہ تیرا نام پڑھتے ہی طلب گاری کبھی ہو گی
لیکن یہ اُس کا جوابی حملہ ہے‘ کیونکہ چند سال پہلے میں نے اپنا نثری مجموعہ (لاتنقید) اس کے نام کیا تھا‘ اس شعر کے ساتھ ؎
معشوقِ ما بہ شیوئہ ہر کس برابر است
باما شراب خورد و بہ زاہد نماز کرد
فنّی غلطیاں میرے سمیت سبھی کرتے ہیں‘ جو اکثر اوقات لاپروائی اوربے احتیاطی کا نتیجہ ہوتی ہیں‘لیکن ان کے بارے ایک دوسرے کو بتا دینا چاہئے ‘تاکہ اصلاحِ احوال بھی ہو جائے اور آئندہ‘ احتیاط بھی۔ سو‘ اس حوالے سے کشور بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔صفحہ 109 پر درج غزل خارج از وزن ہے‘ جس کا مطلع ہے۔؎
شوقِ دیدار نہیں تھا نہ محبت تھی اُس سے
بے خیالی میں بلاوجہ عداوت تھی اُس سے
کیونکہ ''اُس‘‘ کے بعد بحر ختم ہو جاتی ہے اور ''سے‘‘ زائد ہو جاتی ہے۔صفحہ 110 والی غزل کے آخر ی دونوں مصرعے بے وزن ہیں:
شیفتگی جا کہ اب تو گھر میں
خلوتِ خاص چراغاں ہے اُس سے
صفحہ 111والی غزل میں دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ اور پانچواں اور چھٹا شعر بے وزن ہیں۔ صفحہ 120والی غزل میں ''سحر‘‘ کو غلط وزن پر باندھا گیا ہے۔ صفحہ 122 والی غزل کے پانچویں شعر کا پہلا اور نویں شعر کا پہلا مصرع خارج از وزن ہے۔ صفحہ 127 والی غزل کا تیسرا مصرع بے وزن ہے۔ صفحہ 128 والی غزل کا پانچواں اور پندرہواں مصرعہ بے وزن ہے۔ صفحہ 119والی غزل کے ہر مصرعے کے آخر میں لفظ ''گیا‘‘ خارج از وزن ہے۔ کچھ پسندیدہ اشعار:
بے نشانی میں نشاں ہے اُس کا
دیکھ لو مجھ کو‘ بیاں ہے اُس کا
یہ آسمان بھی چلتا ہے ساتھ ساتھ مرے
کہ میری در بدری اُس کو بھا گئی ہے بہت
ایک بھی آبلہ نہیں پھوٹا
درد ٹھہرا رہا سہولت سے
مجھ میں ٹھہرا تری یادوں کا دھواں جس کے سبب
نام لینے کو ترا عکسِ رواں میرا نہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں‘ تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دنیا ہی نہ ہو
آج کا مطلع
جڑی ہوئی ہر شے کو جدا کرتا رہتا ہوں
پتا نہیں سارا دن کیا کرتا رہتا ہوں