سروے حق و باطل کاپیمانہ نہیں،عوامی رجحانات کا عکس ہو تے ہیں۔اِن سے اندازہ ہو تا ہے کہ سماج کیا سوچ رہا ہے۔اُس کی پسند ناپسند کیا ہے۔ان سے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عوامی شعور یا مختلف طبقات کن مغالطوں میں مبتلا ہیں۔برٹش کونسل کا ایک سروے ان دنوں زیر ِ بحث ہے جو نو جوانوں کے سیاسی رجحانات کا عکاس ہے۔نئی نسل،اس سروے کے مطابق ،اس مغالطے کا شکار ہے کہ شریعت اور جمہوریت متضاد نظام ہائے سیاست کے نام ہیں۔نئی نسل جمہوریت پر آمریت اور پھر اُس پر بھی شریعت کو ترجیح دیتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت پر ملامت کرنے والے اس اکثریتی رائے کو جمہوریت کے خلاف بطور دلیل استعمال کرر ہے ہیں حالانکہ اکثریت کی بات ان کے نزدیک بنائے استدلال نہیں ہو سکتی۔یہ مغالطہ کیا ہے،اسے مو ضوع بنانے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ کیوں ہے؟ یہ مغالطہ پیدا کرنے میں چارعوامل کا ہاتھ ہے…پرائیویٹ ٹی وی چینلز،اہلِ دانش، اہلِ مذہب اورریاستی ادارے۔میڈیا کی بات پہلے۔ہمارے ہاں جب سے آزاد میڈیا کا سفر شروع ہوا ہے،یہ بے سمت ہے۔اس پر اگرچہ آزاد خیالی کا بہتان ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس نے سب سے زیادہ انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔یہ انتہا پسندی مذہبی ہے اور سیکولر بھی۔مذہبی انتہاپسندی نے تشدد،عدم برداشت اوررجعت پسندی کو جنم دیاہے۔ سیکولر انتہاپسندی تنگ نظری، مذہب بیزاری اور بد اخلاقی کی ترویج کا باعث بنی ہے۔میڈیا نے اُن مذہبی لوگوں کو،الا ماشااللہ ،اسلام کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جو توہم پرست تھے یا انتہا پسند۔مذہب، عملیات کا نام رہ گیا یا وظائف کا۔اس کے علاوہ اگر کوئی دینی تعبیر سامنے آئی تو وہ عدم برداشت کی حامل تھی جس کے لیے جہاد جیسی مقدس اصطلاح بھی مستعمل رہی۔دوسری طرف بھارتی اداکاراؤں کے نیم عریاں رقص براہ راست دکھائے گئے اور خبروں کی سرخیوں میں بار بار۔ٹاک شوز کی کامیابی اس پر منحصر ہوگئی کہ متضاد نقطہ ہائے نظر کے لوگوں کو اس طرح رو برو بٹھایا جائے کہ ایک ہنگامہ بر پا ہو جائے۔مقصود تنقیح نہیں تھی۔رائے سازی کے اس عمل کے دو مظاہر سامنے آئے۔ایک طرف جمہوریت کے حق میں سیاست دانوںکو بٹھایا گیا اور دوسری طرف ان کے نامۂ اعمال کی سیاہی کو پوری سکرین پر پھیلا دیا گیا۔یوں اہلِ سیاست اور جمہوریت مترادف قرار پائے۔ دوسرا کام یہ کیا گیا کہ بعض اہلِ دانش کو جمہوریت پرتنقیدکا کھلا موقع دیا گیا۔مجھے اس سے اختلاف نہیںلیکن اس کے برخلاف جمہوریت کا مقد مہ علمی اور سماجی پہلو سے سامنے نہیں آیا۔اہلِ سیاست کی تصویر اور پھر جمہوریت پر تنقید کا مجموعی تاثر یہی قائم ہوا کہ جمہوریت ایک مذموم عمل ہے جو اسلام کے مطابق ہے نہ اس سے کوئی خیر وابستہ ہوسکتی ہے۔اس کے بعد جمہوریت کی جگہ کہاں رہتی ہے؟ اہلِ دانش کے ایک طبقے نے بھی اسے مو ضوع بنایا اور یہ باور کرانا چاہا کہ اس سے نجات ہی میں خیر ہے۔وہ آج تک قوم کو یہ نہیں بتا سکے کہ اس کا متبادل کیا ہے؟بعض نے انقلاب کی مبہم اصطلاح استعمال کی ۔انہوں نے انقلاب کا کوئی فکری تجزیہ نہیں کیا، اسے ایک خواب بنا کر پیش کیا۔ سماج میں یہ خواب اس عنوان سے بکنے لگا کہ ’’ہمیں بھی ایک خمینی کی ضرورت ہے۔‘‘اس میں خمینی صاحب کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کا حوالہ نہیں تھا،صرف ان کی انتظامی سختی کا ذکر تھاکہ کس طرح انہوں نے ’عوام دشمنوں‘ کو صبح وشام موت کی وادی میں اتار دیا۔اس سے لوگوں کے جذبہ انتقام کو ابھارا گیا اور یہ شعوری کوشش کی گئی کہ انتقام کی اس کھیتی میں نئی نسل کی ایسی فصل اُگے جس کا پھل نفرت سے لبریز ہو۔اس کار خیر میں مصروف اگر کوئی اشتراکیت پسند تھا تو اس نے اپنا فکری حصہ ڈالا اور تاریخ کے مارکسی نظریے کی روشنی میں انقلاب کے فضائل بیان کئے۔ جو اسلام پسند تھا اس نے اسلام کو اپنی ڈھال بنا یا۔اقبال کے تمام فکری سیاق و سباق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دو اشعار کی بنیاد پر انہیں بھی اپنی تائید میں لاکھڑا کیا گیا۔ اس انقلابی ماحول میں جمہوریت کا گزر کہاں ہو سکتا ہے؟ اہلِ مذہب بھی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔جماعت اسلامی اس کی حامی ہے لیکن اس نے1979ء کے بعد تبدیلی کے بعض دوسرے طریقوں کی جس طرح فکری اور عملی پشت پناہی کی،اس کا لازمی نتیجہ جمہوریت بیزاری ہے۔ مو لانا فضل الرحمٰن نے اگرچہ جمہوریت کا علم اٹھائے رکھا،لیکن ان کا فکری حلقہ اثر اس سفر میں اُن کا ہم سفر نہیں تھا۔دیوبندی مکتب کے زیرِانتظام محراب و منبر سے کچھ دوسری آوازیں اٹھیں جو زیادہ مقبول ہوئیں۔اس سے یہ رائے مستحکم ہوئی کہ جمہوریت ایک غیر اسلامی طرزِ حکومت ہے۔اس میں بڑا دخل مذہبی جماعتوں کی انتخابی ناکامیوں کابھی ہے۔ مو لانا فضل الرحمٰن کو چونکہ اس نظام سے حصہ بقدر جثہ ملتا رہا ،اس لیے انہوں نے جمہوریت کے جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہو نے دیا۔جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کا معاملہ اس کے بر عکس رہا۔یہی سبب ہے کہ جماعت میں انتہا پسندی نے دوسری مذہبی جماعتوں کی نسبت زیادہ سرایت کیا۔بعض ریاستی اداروں نے جس سوچ کو فروغ دیا،عوامی رائے عامہ پر ہم اس کے اثرات بھی دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں رائے سازی کے یہی چار بڑے ذرائع ہیں۔جب یہ سب مل کر جمہوریت کے خلاف سرگرم ہوں گے تو اس کے بعد کیا ہمیں کسی مختلف نتیجے کی تو قع کر نی چاہیے؟اس کے بعد اگر نو جوان نسل جمہوریت کے حق میں فیصلہ دیتی تو ہمیں اس پر حیرت ہو نی چاہیے تھی۔اِن میں سے بعض نے یہ کوشش شعوری سطح پر کی جیسے چند اہلِ قلم اور اہلِ مذہب کا ایک طبقہ۔ بعض نے بھیڑ چال میں اسے اختیار کیا ،بعض نے نا سمجھی میں اور کچھ نے تجارتی مفادات کے تحت ۔ان شعوری یا غیر شعوری کاوشوں کا حاصل یہ ہے کہ نئی نسل کو جمہوریت پر اعتبار رہا نہ اہلِ سیاست پر۔میرے نزدیک یہ المیہ ہے اور اسی وجہ سے میں اسے ایک فکری مغالطہ کہتا ہوں ۔اب آئیے اس سوال کی طرف کہ کیا شریعت اور جمہوریت مختلف یا متضاد نظام ہائے حکومت ہیں؟ اس مغالطے کی اساس یہ ہے کہ شریعت کو نظام سمجھ لیا گیا ہے۔یہاں یہ لفظ جس سیاق و سباق میں زیرِ بحث ہے،اُس میں شریعت اُس قانون کا نام ہے جو الہامی ہے۔قانون کو نفاذ کے لیے نظام کی ضرورت ہو تی ہے۔ہمارے سیاسی پس منظر میں جب جمہوریت کا لفظ اختیار کیا جاتا ہے تو اس سے مراد نظام ہے۔پاکستان کا سیاسی نظام ایک عمرانی معاہدے پر کھڑا ہے جسے ہم 1973ء کا آئین کہتے ہیں۔اس میں طے ہے کہ نظمِ اجتماعی کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔سوال محض یہ ہے کہ اس نظمِ اجتماعی چلانے والے ہاتھوں کا انتخاب کیسے ہوگا؟ اس کے تین طریقے رائج رہے ہیں۔ایک یہ کہ کسی کے حق میں آسمانی فیصلہ آ جائے۔ ختمِ نبوت کے بعد ہماری روایت میں یہ راستہ بند ہو گیا۔دوسرا یہ کہ کوئی خاندانی عصبیت یاطاقت کے زور پر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لے۔یہ اخلاقاً غلط ہے اور شرعاً بھی۔میں ایک کالم میں اس کے دلائل دے چکا۔تیسرا یہ کہ عام لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ کسی پر اپنے اعتماد کا اظہار کر دیں۔اس کا جدید ترین طریقہ انتخابات ہیں۔ یہی جمہوریت ہے۔الہامی ہدایت اس کی تائید کرتی ہے اورانسانی تجربہ بھی۔مکرر عرض ہے کہ جمہوریت سے حق و باطل کا فیصلہ نہیں ہوتا۔اس سے ہم صرف اِس نزاع کا فیصلہ کرتے ہی کہ مسندِ اقتدار پر کون فائز ہوگا۔میں کبھی نہیں سمجھ سکا کہ اس سے شریعت اور جمہوریت میں تضادکیسے واقع ہو گیا؟ بلا شبہ جمہوریت میں کمزوریاں ہیں۔میں خود ان کی نشان دہی کرتا رہتا ہوں۔مثال کے طور پر ہمارے سماجی پس منظر میںپارلیمانی نظام کی نسبت متناسب نمائندگی کا طریقہ زیادہ مناسب ہے۔اگر کوئی اس سے بہترتجویز رکھتا ہے تو اُسے سامنے آنا چاہیے۔اس کے لیے جمہوریت کی نفی غیر منطقی ہے۔شریعت اور جمہوریت ایک دوسرے سے متصادم نہیں۔ ایک قانون ہے اور دوسرا نظام۔شریعت، سیاسی نظام کے باب میں یہ غیر مبہم اور اصولی راہنمائی دیتی ہے کہ وہ عوام کے مشورے سے وجود میں آتاہے۔اس طرح شریعت میں خاندانی بادشاہت یا آمریت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ شریعت اور جمہوریت کو متضادثابت کر نے کوشش باعثِ تشویش ہے اور اس طرح کی سوچ نے جس طرح نئی نسل میں سرایت کیا ہے،اس پر متفکر ہو نے کی ضرورت ہے۔اس کا نتیجہ انارکی ہے۔جس زمین میں نفرت کی تھور اگتی ہے،وہاںمدتوں کوئی حیات آفریں پودا جڑنہیں پکڑ سکتا۔کاش میڈیا،اہلِ دانش اور اہلِ مذہب اس پر غور فرما سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved