عنوان ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان میں نیب کا مستقبل ‘لیکن گزشتہ دس برس سے کی جانے والی ملکی خزانوں اور وسائل کی لوٹ مار کی وجہ سے آج جس قسم کی صورت حال کا سامنا وطن عزیز کو کرنا پڑ رہا ہے‘ اس کیلئے آزاد عدلیہ کی چھتری تلے‘ نیب جیسے احتساب کے مضبوط اور غیر جانبدار ادارے کا وجود پاکستان کے بہتر مستقبل کی ضمانت بن چکا ہے۔
بھارت کی سی بی آئی کی جب بھی بلا تفریق کارروائی کی خبر پڑھنے کو ملتی‘ تو یہی سوچ آتی کہ کاش! ہمارے ملک میں بھی ایسا کوئی ادارہ ہوتا‘ کیونکہ احتساب بیورو کی کارکردگی یا دوسرے لفظوں میں بھنگ پینے والوں کے گروہ کی جانب سے سولہ برس سے کوئی اچھی اور قابل توجہ خبر دیکھنے اور سننے کو نہیں ملی تھی‘ سوائے جنرل مشرف کے پہلے چھ ماہ کے یا میاں نواز شریف کے زیر سایہ سیف الرحمن کے1997-98ء کے گسٹاپو کے ‘جس میں سیا سی مخالفین اور ان کی بہو بیٹیوں کو بھی جیلوں کے میلے فرشوں پر لٹایا جاتا تھا۔شرمیلا فاروقی ‘اس کی والدہ کا کیا جانے والا حشر آج بھی اخباری فائلوں میں محفوظ ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ تصویریں بھی سیف الرحمن نے اپنے فوٹو گرافروں کو کہہ کر بنوائیں اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ان کی خصوصی طور پر بنائی گئیں یہ تصاویراخبارات میں شائع کرانے کیلئے بھیجی گئیں ‘تاکہ اگلی صبح ان تصاویر کو سب دیکھ کر عبرت حاصل کریں ۔
پاکستان میں آج کی نیب کی کارروائی کا اندازہ کرنا ہو تو FATF کے پاکستان آئے ہوئے سائوتھ ایشیا گروپ کی منی لانڈرنگ بارے رپورٹ باعث اطمینان ہے‘ جس میں نیب کی سخت اور بلا تفریق کارروائیوں پر اطمینان کا اظہار کیاگیا ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور بھارت کی بھر پور کوششوں کے با وجود بھی FATF سے پاکستان کو گرے لسٹ میں نہیں رکھا جا نا تھا؛ اگر نیب کا چیئر مین کوئی انصاف پسند یا دنیا وی لالچ سے پاک کوئی شخص ہوتا‘لیکن بدقسمتی سے قمر الزمان جیسے لوگ جب نیب کے سربراہ مقرر کئے جائیں گے‘ تو نتائج بھی گرے لسٹ کی صورت میں ہی ملنے تھے۔ جیسے ہی قمر الزماں کی مدت پوری ہونے کے بعد جسٹس جاوید اقبال کی تعیناتی عمل میں آئی‘ تو ایسے لگا کہ نیب ‘ری کنڈیشن ہو گئی ہے اور نواز حکومت ختم ہونے کے چند ماہ بعد ہی نیب کی کار کردگی اس ثبوت کے ساتھ سامنے آئی کہ کرپشن کی عالمی ریٹنگ میں پاکستان تین پوائنٹ نیچے چلا گیا ہے اور یہ یقینا نیب پاکستان کے جاں فشاں کارکنوں کی شب و روز محنت کا نتیجہ ہے۔
2000ء سے 2016ء تک‘ یعنی16 برس میں نیب نے پاکستان کی لوٹی ہوئی14153 ملین روپے کی رقم برآمد کی‘ لیکن جب سے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے چیئر مین نیب کا چارج سنبھالا ہے ‘تو 2017ء سے15 اکتوبر2018 ء تک یعنی صرف ڈیڑھ سال میں ڈائریکٹر جنرل نیب‘ لاہور سلیم شہزاد نے کرپشن کے ذریعے لوٹے گئے‘ پاکستان کے 6624 ملین روپے وصول کرتے ہوئے قومی خزانے میں جمع کرادیئے ہیں اور یہ ریکارڈ بر آمدگی اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ نیب لاہور کے نزدیک سب سے اہم اس کا ملک اور اس کے عوام ہے؛ حالانکہ آئے روز میڈیا کے بعض حصوں سے سنائی جانے والی مختلف تنقیدی یا مسلم لیگ نواز کی جانب سے کی جانے والی الزام تراشیوں اور دھمکیوں کے با وجود ڈائریکٹر جنرل نیب‘ لاہور سلیم شہزاد اپنے وطن عزیز کی لوٹی گئی ایک ایک پائی واپس کرانے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ یہ کوئی مبا لغہ نہیں‘ بلکہ ڈیڑھ سال میں6624 ملین روپے کی وہ سلامی ہے‘ وہ گارڈ آف آنر ہے ‘جو سلیم شہزادنے اپنے وطن عزیز کو پیش کرتے ہوئے خود کو سر خرو کیا ہے۔
ملک کی لوٹی گئی دولت کی بر آمد گی اور وصولی کا اوسطاًجائزہ لیا جائے‘ تو صورت ِحال حیران کن یوں ہے کہ16 برس میں نیب‘ لاہورلوٹی گئی رقوم کی بر آمد گی کے حساب سے ایک سال کا اوسط885 ملین‘ جبکہ سلیم شہزاد کی ڈیڑھ سال کی اوسط4140ملین ہے۔ جب اس اوسط کا موازنہ کرتے ہیں‘ تو بے ساختہ جذبات اور الفاظ اعتراف کرتے ہیں کہ قوم کے یہی بیٹے سول اعزازات کے اصل حق دار ہیں ۔
پاکستان کی جابر اور طاقت ور قوتوں کے مقابلے میں کھڑا ہو نا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں؛ اگر کسی کو شک ہے‘ تو وزیر اعظم عمران خان کے وہ گلے شکوے سن لے‘ جن میں وہ دس برس سے محکوم بیوروکریسی اور پولیس افسران کے عدم تعاون کی شکایات کرتے نظر آ رہے ہیں‘ کیونکہ یہ تمام بیوروکریسی اس قوت سے خوف زدہ رہتے ہوئے‘ ان کے متعلق ایک لفظ بھی کہنے اور لکھنے کی جرأت نہیں کررہی ‘اس ڈر سے کہ کل کو نہ جانے کیا ہو جائے؟ لیکن وطن کے سپاہی ایسا کبھی نہیں سوچتے‘ وہ اپنے وطن کو کھوکھلا کرنے والے کسی طاقت ور سے طاقت ور مجرم پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں سوچتے کہ کل کسی وقت انتقام میںکیا سلوک ہو سکتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
2000ء سے 2008ء اور پھر2016ء تک کے سولہ برس میں نیب آرڈیننس کے تحت سالانہ 95 لوگوں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہوئے‘ لیکن2017 ء سے اب تک یہ تعداد بڑھ کی فی سال 414 تک پہنچ چکی ہے ‘جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نیب لاہور اپنے فرائض میں تیزی سے کام کر رہی ہے۔ اس سے آگے جائیں ‘جو سب سے اہم ہے ؛چونکہ گرفتار تو جس کو چاہا کر لیا‘ لیکن کیا یہ لوگ جو اب تک نیب نے گرفتار کئے ہیں‘ ان پر الزامات بھی ثابت ہو چکے ہیں۔ کیا ان میں سے کسی کو عدالت نے مجرم سمجھتے ہوئے سزا بھی دی ہے؟ اس سلسلے میں حاصل معلومات کے مطا بق16 برس میں1074 ملزمان کو عدالتوں نے سزائیں دیں ‘جبکہ ڈیڑھ سال میں نیب لاہور کی پراسیکیوشن برانچ اور اس کے تفتیشی افسران کی بھر پور کارکردگی نے404 ملزمان پر جرم ثابت کر تے ہوئے احتساب عدالتوں نے سزائیں سنائیں۔ اب اگر اس کی اوسط نکالیں ‘تو16 برس کی اوسط67 سزائیں فی سال ‘جبکہ موجو دہ ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کے ڈیڑھ سالہ دور میں اب تک یہ اوسط253 فی سال بنتی ہے‘ جو ملزمان کے وکلاء کے تاخیری حربوں کے باوجود قابل رشک ہے۔
کسی بھی ملک اور معاشرے کی اس سے زیا دہ بد نصیبی نہیں ہو سکتی کہ اس کے اہم ترین آئینی اداروں کے سربراہ ذاتی مفادات اور احسان مندی کو ملک و قوم پر ترجیح دینا شروع کر دے دیکھا جائے ‘تو یہ ایک قومی جرم بنتا ہے ‘جو قمر الزمان چوہدری جیسے لوگوں نے نیب کے چیئر مین کی حیثیت سے پانچ سال تک روا رکھا۔کوئی بھی حلف اور وفاداری کسی شخصیت سے نہیں ‘بلکہ ریا ست سے منسوب ہوتی ہے اور اپنے حلف سے وفاداری کی بجائے جان بوجھ کر ایسے افراد و سے فاداری نبھانا جرم کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا اور کوئی بھی ایسا شخص چاہے‘ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو‘ جس کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے اس سلطنت اور ریا ست کے وسائل کو لوٹا ہے‘ جس سے وفا داری کا حلف اٹھا رکھا ہے‘ایک قومی جرم ہے۔
آخر میں صرف اتنا استفسار کرنا چاہتا ہوں؛اگر اختیارات سے تجاوز کرنا نیب کے قانون میں جرم تھا تو پھر اختیارات کو کسی کے حق میں جامد کر دینا بھی تو جرم سے کم نہیں۔