تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     27-10-2018

چین میں پانچ دن…(4)

چین میں ایک ہی پارٹی ہے ، اسی کی حکومت ہے اور پارٹی کا نام ہے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا۔ یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ پارٹی کہاں ختم ہوتی ہے اور حکومت کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ چین کو سمجھنا ہو تو اس کے نظام حکومت کے ساتھ ساتھ پارٹی کی حرکیات کی تفہیم بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر ظفر نے کمیونسٹ پارٹی کے دفتر جاتے ہوئے راستے میں ہمیں حکومت اور پارٹی کے باہمی تعلق کے حوالے سے کچھ بتایا جس کا لبّ لباب یہ تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں کی اہمیت حکومت کے عہدیداروں سے زیادہ ہے۔ ان کی بات پارٹی کے دفتر پہنچ کر سمجھ میں آئی۔ ایک عالیشان عمارت میں قائم یہ دفتر صرف حکومتی پالیسیوں کے اعلان کے لیے مختص ہے۔ یہیں سے پارٹی کی سرگرمیوں کے حوالے سے خبریں جاری کی جاتی ہیں اور اگر کوئی وزیر پریس کانفرنس کرنا چاہے تو بھی اسی دفتر سے اسے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت ایک وزیر اور ایک صوبے کا گورنر پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ ہمیں ایک ایسے کمرے میں بٹھایا گیا جہاں بہت بڑی سکرین پر یہ پریس کانفرنس انگریزی ترجمے کے ساتھ دکھائی جا رہی تھی۔ پریس کانفرنس کے بعد ہمیں یہاں سے دوسرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں چینی کابینہ کی ترجمان شی یان چن نے ہمارا استقبال کیا۔ 
شی یان چن درمیانی عمر کی اور پُرکشش شخصیت کی حامل خاتون ہیں۔ انگریزی بول سکتی ہیں مگر مترجم کو ساتھ بٹھا رکھا تھا جو کہیں کہیں لقمہ دیتا تھا۔ کمرے کی آرائش اور ہماری میزبان کا لباس خالصتاً مغربی طرز کا تھا۔ خیال گزرا کہ اگر چین کے لوگوں کے مخصوص خد و خال نہ ہوں تو چین اور امریکا میں کوئی فرق ہی محسوس نہ ہو۔ ایک دوسرے سے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرنے کے بعد شی یان چن نے بتایا کہ چین پاکستان کو کتنا قریب سمجھتا ہے اور مسکرا کر یہ شکوہ بھی کیا کہ پاکستان کا صرف ایک صحافی بیجنگ میں تعینات ہے جبکہ بھارت کی طرف سے کئی لوگ یہاں موجود ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ''ہمیں اپنی دوستی کو مغربی پروپیگنڈا کی زد سے بچانا ہے‘‘۔ اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے عرض کیا کہ بے شک ہمیں پاک چین دوستی کو کسی بھی پروپیگنڈا کا شکار نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ ہم اس دوستی میں ایک دوسرے سے غیر حقیقی توقعات نہ قائم کر لیں۔ انہوں نے استفہامیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے کہا، ''پاکستان نے انیس سو ستر میں چین کو دنیا سے سفارتی سطح پر قریب لانے میں اہم ترین کردار ادا کیا اور اس کے بعد مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ آج ہم سی پیک کے ذریعے چین کو دنیا کے ساتھ جوڑ رہے ہیں تو پاکستان معاشی تباہی کا شکار ہو رہا ہے، بے شک ان واقعات میں کوئی ربط نہیں ہے مگر واقعات کی تاریخی ترتیب ظاہر کرتی ہے کہ چین اور پاکستان میں تعلقات کی اونچائی آپ کے حصے میں آتی ہے اور گہرائی پاکستان کے۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘۔ شی یان چن نے اس سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور ویسے بھی ملاقات کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ ہم نے اپنی میزبان کے ساتھ ایک تصویر بنوائی اور چل نکلے۔
کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں ہونے والی اس ملاقات میں چین کی بین الاقوامی تجارت کی وزارت سے تعلق رکھنے والی ایک افسر بھی موجود تھیں جو باہر نکلیں تو مجھ سے اپنا تعارف کرانے کے بعد پوچھنے لگیں کہ تم لوگ جو باتیں کر رہے ہو ان سے تو معلوم ہو رہا ہے کہ پاکستان میں چین کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں‘ تو ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کا تاثر بالکل درست ہے ۔ جب معاہدوں کے بارے میں پورا علم نہیں ہو گا، آپ کے ملک میں بنا ہوا گھٹیا کوالٹی کا مال ہماری منڈیوں میں جا کر ہماری صنعتیں بند کرا دے گا اور آپ کے ساتھ ہونے والے تجارتی معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کو نقصان ہی نقصان ہو گا‘ تو پھر تحفظات تو ہوں گے۔ میں گفتگو میں کچھ جذباتیت کا شکار ہو گیا تو اس مہربان خاتون نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ''میرے پیارے پاکستانی بھائی، پاک چین معاہدوں کی شفافیت پر اگر تمہیں کوئی شکوہ ہے تو اپنی حکومت سے کرو ہم سے کیوں لڑتے ہو، دوسرے یہ کہ گھٹیا مال ہم بھیجتے نہیں تمہارے تاجر خود یہاں آ کر بنواتے ہیں اور تمہیں یہ بھی علم ہو گا کہ حکومتِ پاکستان کے پاس درآمد کی جانے والی اشیاء کے کم از کم معیار طے کرنے کا اختیار موجود ہے تو یہ اختیار استعمال کرنے سے ہم نے تو کبھی نہیں روکا۔ تیسرے یہ کہ تمہارے ملک کے ساتھ تجارتی معاہدہ دو ہزار چھ میں ہوا تھا تو تمہیں یہ خیال اس وقت آنا چاہیے تھا کہ اس کے اثرات کیا ہیں‘ اور چوتھے یہ کہ اب یہ معاہدہ ختم ہو چکا ہے اس کی تجدید سے پہلے تم لوگ خوب سوچ سمجھ کر اسے بدلنے پر بات چیت کر لو‘‘۔ اس خاتون کی کسی بات کا کوئی جواب میرے پاس نہیں تھا، سو میں نے بھی وہاں سے فوری طور پر نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔ 
اس مہربان اور صاف گو خاتون کی بات سن کر بیجنگ کی سلک مارکیٹ کا تجربہ یاد آیا‘ جہاں سہیل وڑائچ صاحب کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔ سہیل بھائی نے خبردار کر دیا تھا کہ یہاں ہزار کی چیز کے دس لگانے سے گریز نہ کرنا۔ ان کی بات مانتے ہوئے میں نے یہی کیا۔ کسی چیز کا بھاؤ پوچھا تو دکاندار نے جھٹ کیلکولیٹر ہاتھ میں پکڑا اور اس کی قیمت ہندسوں میں لکھ کر دکھا دی۔ میں نے جواباً اس قیمت کو سو پر تقسیم کر کے ایک ہندسہ لکھ دیا۔ کسی دکاندار نے برا نہیں منایا، نفی میں سر ہلایا اور اپنی دی ہوئی قیمت کو آدھا کر کے بتا دیا۔ تھوڑی دیر میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی، الٹے سیدھے کچھ اشاروں اور کیلکولیٹر پر بار بار بدلے جانے والے ہندسوں کی مدد سے فروخت کنندہ اور خریدار کسی ایسی قیمت پر پہنچ جاتے جو دونوں کے لیے قابل قبول ہوتی۔ فائدے نقصان کا اصل تعین سودا مکمل ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ اگر خریدار دکان سے مسکراتا ہوا نکلے تو جان لیجیے کہ دکاندار گھاٹے میں رہا، اگر دکاندار گاہک کو مسکرا کر رخصت کرے تو مان لو اس نے اچھی کمائی کر لی۔ مجھے ہر دکاندار نے انتہائی خوش اخلاقی سے خدا حافظ کہا اور اپنا کارڈ دے کر دوبارہ یہیں آنے کی تاکید بھی کی۔ مجھے لگا سی پیک کے معاملے پر بھی ہمارے چینی بھائی سب کچھ طے پا جانے کے بعد ہمارے وزیروں اور کارپردازوں کو مسکرا کر ہی رخصت کرتے ہوں گے۔ خبردار نہ کر دیا گیا ہوتا تو میں چار کی بجائے صرف ایک چیز خرید پاتا۔ نجانے حکومتوں میں ایسے سیانے لوگ کیوں نہیں ہوتے۔
بیجنگ میں ہمیں وزارت خارجہ کی ایک بریفنگ میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ پاکستان میں تو ہفتے میں ایک دن یہ بریفنگ ہوتی ہے مگر چین میں روزانہ ایک ترجمان خارجہ امور پر بیان جاری کرتا ہے اور گنے چنے سوالات کا جواب دیتا ہے۔ اس بریفنگ میں ہمیں سوالات کی اجازت نہیں تھی، ہم بس دیکھ سکتے تھے۔ یہاں معلوم ہوا کہ چینی وزارت خارجہ ہر سفارت خانے کے پریس اتاشی کو اجازت دیتی ہے کہ وہ اس بریفنگ میں شریک ہو سکے۔ اس اجازت کے تحت بھارتی نمائندہ ہمیشہ یہاں موجود ہوتا ہے اور پاکستانی نمائندے چین کی وزارت خارجہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا یہ موقع نظر انداز کر کے پاؤں پہ مہندی لگائے سفارت خانے میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کی طرف سے مختلف سرکاری اداروں کے پانچ صحافی بیجنگ میں تعینات ہیں جو ہر بریفنگ میں موجود رہتے ہیں جبکہ پاکستان سے اے پی پی کا ایک نمائندہ ہے جس کے ذمے سارے چین کی خبروں کی ذمہ داری ہے اور اس بے چارے کو دوسرے کاموں کے ساتھ یہاں بھی حاضر رہنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ معلوم ہوا تو نذیر لغاری صاحب سے پوچھا، ''ہماری حکومتیں ہمیشہ سے اتنی ہی ناکارہ اور پھسڈی تھیں یا اب ہوئی ہیں؟‘‘۔ لغاری صاحب نے کہا، ''میں توگزشتہ پچاس برس کی صحافت میں یہی دیکھ رہا ہوں کہ ہماری حکومتیں ہوں یا سرکاری افسر، روز بروز زیادہ نالائق ہوتے جاتے ہیں‘‘۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved