پاکستانی سیاست اپنی ڈگر پر چل رہی ہے۔ اہلِ سیاست ایک دوسرے کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں، یا کرنے کے ارادے باندھ رہے ہیں، جو کرتے چلے آئے ہیں، انتخابات لشٹم پشٹم ہو چکے، جو کچھ جو بھی کر سکتا تھا، اُس نے کر دکھایا۔ جس کا تصور کیا جا سکتا تھا، وہ بھی اور جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا، وہ بھی پیش آ گیا۔ عمران خان وزیر اعظم بن گئے، اور انہوں نے اپنے دو صوبوں... پنجاب اور خیبر پختونخوا... میں اپنی مرضی کے وائسرائے مقرر کر دیئے۔ سندھ کو جناب آصف علی زرداری کی گرفت سے نکالا نہیں جا سکا‘ اور بلوچستان کو کسی ایک کی جھولی میں ڈالا نہیں جا سکا۔ نواز شریف ایک ریفرنس میں سزا پا کر، دوسرے کی پیشیاں بھگت رہے ہیں، جس میں وزیر اطلاعات فواد چودھری کے مطابق سزا سو فیصد یقینی ہے۔ اول الذکر مقدمے میں ان کی ضمانت اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس شان کے ساتھ منظور کی، کہ احتساب عدالت کا فیصلہ بلبلا اُٹھا۔ مولانا فضل الرحمن‘ آصف علی زرداری کے ساتھ ان کا فاصلہ کم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ پتھر بن جانے والے زرداری اب موم ہو رہے ہیں، اور نواز شریف سے معانقے کی تیاری میں ہیں۔ نواز شریف احتیاط میں مبتلا ہیں لیکن دروازے بند نہیں کر پا رہے۔ نیب قدموں کی آہٹ سے گھبرا کر سپریم کورٹ جا پہنچی ہے کہ ضمانت منسوخ کرائی جائے اور اس کے ملزم کو ایک بار پھر اڈیالہ جیل پہنچا دیا جائے۔ شہباز شریف بھی نیب کی قید بھگت رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی ڈھنگ کا الزام نہیں لگایا جا سکا ؎
مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر
حکومتی ترجمان کہہ رہے ہیں کہ ''پچاس افراد‘‘ مزید گرفتار کیے جائیں گے۔ احد چیمہ کو مہینوں قید میں گزر گئے، ان پر اربوں کی ''ہیرا پھیری‘‘ کا الزام لگا کر اب معاملہ کروڑوں تک پہنچا ہے۔ دائر شدہ ریفرنس میں الزامات سکڑ گئے ہیں، ان کا وزن بھی کم ہو گیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ انصاف کے ترازو میں تولنے والے سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ فواد حسن فواد کو بھی گرفتار ہوئے ایک عرصہ گزر گیا، لیکن ان کی بد عنوانیوں کے کوہ ہمالیہ کی سیر اب تک نہیں کرائی جا سکی۔ ایک ممتاز اخبار نویس کے بقول موجودہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو ایک معاملے میں اُلجھانے والے ان کے پاس پہنچے تھے کہ ان کی خبر اڑے تاکہ سابق اور موجودہ وزیراعظم کے درمیان توازن ہو جائے، دونوں کے سیکرٹریوں کے ساتھ ''یکساں سلوک‘‘ احتسابی ادارے کی ساکھ کو بہتر کر دے۔ لیکن انہوں نے اس کھیل میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ اور ایک شریف النفس افسر (اعظم خان) کی اخباری درگت نہ بنائی جا سکی۔خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان لاہور ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت حاصل کیے ہوئے ہیں کہ نیب ان کی تلاش میں ہے۔ان کے بقول ناکردہ گناہوں کی سزا ان کو دینے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ خواجہ برادران کا کہنا ہے کہ ان سے برسوں پرانا حساب مانگا جارہا ہے، جو ان کو یاد نہیں ہے اور جس کا یاد رکھنا قانوناً لازم بھی نہیں ہے۔
ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا ہے، دوسری طرف وزیراعظم اور ان کے رفقا ''کرپٹ سیاست دانوں‘‘ سے نبٹنے کے ارادوں کو بڑی شدت سے ظاہر کر رہے ہیں۔ سندھ کے بینکوں میں پائے جانے والے جعلی اکائونٹس سے کروڑوں، اربوں تلاش کئے جاچکے ہیں، ان کا ناتہ آصف علی زرداری سے جوڑنے والے کم نہیں ہیں، سندھ حکومت سے ٹھیکوں اور ٹھیکیداروں کی تفصیلات طلب کی جارہی ہیں، سپریم کورٹ کا دبائو کس بَل نکال رہا ہے، یہ کہنا آسان نہیں کہ مختلف کھاتہ داروں کے نام پر بینکوں میں جمع ہونے اور نکالی جانے والی رقوم کس کس کی ہیں، لیکن فضا میں آلودگی محسوس ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دبئی میں سینکڑوں پاکستانیوں کی جائیدادیں تلاش کرلی گئی ہیں، جن میں سے بیس افراد کو سپریم کورٹ نے طلبی کا نوٹس جاری کردیا ہے۔ ان میں تحریک انصاف کے قریبی لوگوں کے نام بھی ہیں، کون کتنا ذمہ دار ہے، کس کی جائیداد قانونی ہے اور کس کی غیر قانونی تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا، یہ معاملہ بھی کافی دلچسپ ہوسکتا ہے، نتیجتاً کئی پُرلطف مناظر دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
ایک طرف یہ سب جاری ہے، دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب کے دورے سے لدے پھندے واپس آئے ہیں۔ چھ ارب ڈالر کے قرض نے پاکستانی معیشت میں جان ڈال دی ہے۔ زرمبادلہ کی شدید کمی کا شکار معیشت اچانک دوڑنے بھاگنے لگی ہے۔ سعودی عرب کے باغی صحافی جمال خشوگی کی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ہونے والی پُراسرار موت نے سعودی شاہی خاندان کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ کو برانگیختہ کر رکھا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی طلب کردہ سرمایہ کاری کانفرنس ٹھس ہو کر رہ گئی ہے، لیکن وزیر اعظم عمران خان اس میں خصوصی شرکت کرکے میلہ لوٹ آئے ہیں۔ ولی عہد سے ان کی طویل خصوصی ملاقات بھی ہوئی اور وہ خود ڈرائیو کرتے ہوئے ان کو چھوڑنے ایئرپورٹ پہنچے:
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ سطحی وفد بھی اسلام آباد کا دورہ کرچکا ہے۔ شنید ہے کہ عمرانی حکومت نے اس سے بھی چھ ارب ڈالر کا ''دوستانہ‘‘ طلب کیا ہے، وزیر اعظم ملائیشیا اور چین بھی جارہے ہیں۔ ان کے مداحوں کو یقین ہے کہ وہ وہاں سے بھی لدے پھندے آئیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو نرم شرائط پر وہاں سے منہ مانگی رقم مل جائے گی، اور یوں پاکستانی معیشت سرپٹ دوڑنے لگے گی۔
حزبِ اختلاف کے متعلّقین اہل ِ اقتدار سے وہی سوال کر رہے ہیں جو وہ سعودی امداد ملنے پر نواز شریف سے کرتے تھے۔ وہی تفصیل طلب کر رہے ہیں،جو وہ طلب کیا کرتے تھے، لیکن حکومت سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا... سعودی ڈالروں کے ساتھ عائد شرائط کی تفصیل بیان کرنے کا مطالبہ زوروں پر ہے، اِس حوالے سے خیالات کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں، لیکن معاشی مبصرین اور متاثرین کو آم کھانے سے غرض ہے پیڑ گننے سے نہیں۔ ڈالر جہاں سے بھی آئیں، اور جتنے بھی آئیں، معیشت کو سنبھالا دیں گے۔ معیشت سیاست کو سنبھال لے گی اور یوں دونوں مل کر چین کی بانسری بجائیں گے... کہنے والے کہتے ہیں کہ معیشت کی طرف توجہ دینے والے سیاست سے بے پروا نہ ہوں کہ سیاست کا بگاڑ معیشت کو بگاڑ سکتا ہے۔ کسی ایک کو بھی نظر انداز کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے... معیشت کو سنبھالے بغیر سیاست اور سیاست کو سنبھالے بغیر معیشت کو سنبھالنا آسان نہیں ہوتا۔
''پیر سابر متی‘‘
گاندھی جی پر اندو لال کنہیا لال کی یہ تصنیف ''گاندھی، جیسا کہ مَیں انہیں جانتا ہوں‘‘ 1943ء میں شائع ہوئی تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے عظیم رہنما مولانا ظفر احمد انصاری نے اس کا ''پیر سابر متی‘‘ کے عنوان سے اُردو ترجمہ کیا، جو انہی دِنوں شائع ہوا۔ اندو لال بھارتی سیاست اور صحافت کا ایک بڑا نام تھا۔ انہیں گاندھی جی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، ان کی اِس تصنیف نے اُس وقت دھوم مچا دی تھی۔بزم تخلیق ادب پاکستان(پوسٹ بکس نمبر17667، کراچی75300) کے روشن دماغ سربراہ راشد اشرف صاحب نے اسے بڑے اہتمام کے ساتھ ''زندہ کتابوں‘‘ کے اپنے جاری سلسلے کے تحت شائع کیا ہے۔ سفید کاغذ کے649 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت انتہائی کم ہے۔ صرف500روپے۔قومی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک تحفہ ٔ خاص ہے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)