تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     28-10-2018

چین میں پانچ دن …(5)

بیجنگ میں ہم اس ریل کمپنی کے دفتر بھی گئے جو سی پیک کے تحت پاکستان کی پشاور تا کراچی ریلوے لائن کو بہتر بنانے کا کام کرے گی۔ اس کمپنی نے اپنے دفتر میں ایک میوزیم بھی بنا رکھا ہے جس میں چین کی ریلوے کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ دلچسپ بات بھی اس میوزیم میں معلوم ہوئی کہ انیس سو چھیاسی تک ریلوے چین کی فوج کا حصہ تھی۔ فوج سے الگ ہونے کے بعد اس کی ترقی شروع ہوئی اور اب یہ دنیا کی بہترین اور تیز ترین ریلوے بن چکی ہے۔ یہاں ہونے والی بریفنگ میں ہم سب کے ذہنوں میں یہ سوال تڑپ رہا تھا کہ ہمارے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے دعوے کے مطابق پاکستان کی مین لائن اپ گریڈیشن پر آٹھ ارب ڈالر کے خرچے کو کم کر کے چھ ارب ڈالر پر لے آیا گیا ہے۔ جب یہ سوال پوچھا گیا تو چینیوں نے بتایا، ''یہ آپ کے وزیر کا بیان ہے لیکن اس موضوع پر اب تک ہم سے کوئی بات سرکاری طور پر نہیں ہوئی۔ اس پروجیکٹ میں کوئی تبدیلی آئی ہے‘ نہ اس پر اٹھنے والی لاگت میں کوئی کمی ہوئی ہے‘‘۔ یہ سن کر احساس ہوا کہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہم اپنے وزیروں کو جو دل چاہے کہتے رہیں، دوسرے ملک میں کوئی شیخ رشید احمد جیسے وزیر کے بارے میں بھی کوئی بات کرے تو خواہ مخواہ شرمندگی ہوتی ہے۔ 
ہمارے لیے چین میں وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے علاوہ شرمندگی کی ایک وجہ اور بھی تھی، یعنی چین کی ریلوے۔ جب شنگھائی جانے والی بلٹ ٹرین پکڑنے کے لیے ہم بیجنگ ریلوے سٹیشن پہنچے تو وہاں کا انتظام دیکھ کر دل کو رشک سے ایسا دھچکا لگا، جس کا بیان ہی ممکن نہیں۔ مجھے پاکستان کی ریلوے چین کے مقابلے میں ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں لگی۔ ڈاکٹر ظفر صاحب نے بتایا: چین کی ریلوے لائن تقریباً ڈیڑھ لاکھ کلومیٹر طویل ہے اور پچیس ہزار کلومیٹر کے لگ بھگ وہ ریلوے لائن ہے جس پر چار سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹرین دوڑ سکتی ہے۔ مجھے زمین پر ساڑھے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کا پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا‘ اس لیے جب ٹرین چلی تو مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ہماری رفتار اتنی ہو چکی ہے۔ پھر منصور آفاق نے یہ کہہ کر مزید شک میں مبتلا کر دیا کہ ''کھڑکی سے باہر دیکھو، کوئی گرد اڑ رہی ہے نہ اندر کوئی شور آرہا ہے‘‘۔ میں نے اپنے شک کا اظہار ڈاکٹر ظفر سے کیا تو انہوں نے ڈبے کی دیوار کی طرف اشارہ کیا جہاں ٹرین کی رفتار لکھی آرہی تھی پھر کہا، ''بیجنگ سے شنگھائی چودہ سو کلومیٹر ہے، آپ چار گھنٹے میں وہاں پہنچ جائیں تو یقین کر لیجیے گا، ورنہ رہنے دیجیے گا‘‘۔ سہ پہر تین بجے چلنے کے بعد جب گھڑیاں شام کے سات بجا رہی تھیں تو ہماری ٹرین شنگھائی پہنچ چکی تھی۔ چین کے دورے کے پہلے دن سے لے کر شنگھائی پہنچنے تک میں دل ہی دل میں یہاں نظر آنے والی ہر چیز کا مقابلہ پاکستان سے کرکر کے اداس ہو رہا تھا‘ لیکن بلٹ ٹرین میں بیٹھ کر شنگھائی پہنچنے کے تجربے نے مجھے نڈھا ل کر دیا۔ میں نے تسلیم کر لیا کہ پاکستان کا چین سے کوئی مقابلہ نہیں۔ جب ہم پلیٹ فارم پر کھڑے فقہی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے، چین ترقی کی گاڑی پکڑ چکا تھا۔ اب وہ منزل کے قریب ہے اور ہم اپنے افکار کے جنگلوں میں بھٹک رہے ہیں۔ 
شنگھائی میں ہماری ایک ہی مصروفیت تھی۔ ہمیںصبح سویرے 'شنگھائی اربن ڈویلپمنٹ میوزیم‘ دکھایا جانا تھا۔ جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا وہ شنگھائی کے مرکز میں واقع ہے اور اس کے ارد گرد درجنوں شاپنگ مال رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ ارشاد عارف اور میں ساتھیوں سے الگ ہو کر ایسے ہی دکان دکان گھومنے لگے تو ایک خاتون نے ہمیں کپڑوں اور گھڑیوں کی خریداری کی دعوت دی۔ ہم ہچکچاتے ہوئے اس کے پیچھے چلے تو وہ ہمیں ایک دکان کے پچھلے حصے سے گزار کر اس کے اوپر لے گئی۔ اوپر کے حصے میں ایک طرف باورچی خانہ تھا‘ اور دوسری طرف ایک چھوٹے سے کمرے میں گھڑیاں، دستی بیگ اور نجانے کیا کچھ ٹھسا ہوا تھا۔ یہاں پر بھی بھاؤ تاؤ بیجنگ کی سلک مارکیٹ کی طرح تھا کہ سو کی چیز کا ایک بتاؤ اور پانچ دس میں لے لو۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عام نظروں سے اوجھل یہ دکانیں نقلی مال کی بلیک مارکیٹ ہیں۔ دنیا کے معروف برانڈز کی نقل تیار کرنا اب چین میں غیر قانونی ہے‘ مگر یہ کام چوری چھپے اب بھی چل رہا ہے اور خوب چل رہا ہے۔ 
صبح جب ہم میوزیم پہنچے تو حیرتوں کا ایک جہان ہمارا منتظر تھا۔ یہاں شہر کا ایک بہت بڑا نقشہ ہے جس میں ہر عمارت اور ہر مکان دکھایا گیا ہے۔ اس نقشے کا انتظام اس طرح ہوتا ہے کہ جیسے ہی کہیں کوئی عمارت بنتی ہے، اس کا چھوٹا سا ماڈل اس نقشے پر بھی لگا دیا جاتا ہے۔ وہاں لگی پرانی تصویریں بتاتی ہیں کہ انیس سو اسّی کی دہائی تک یہ شہر ایک پسماندہ سی بستی تھا مگر پینتیس برسوں میں عالم یہ ہے کہ جس علاقے میں ہمارا ہوٹل تھا اسے دیکھ کر ہارون الرشید بے ساختہ بولے، ''یہ تو نیویارک کے علاقے مین ہیٹن سے بھی بہتر ہے‘‘۔ اس میوزیم میں یہ انتظام بھی تھا کہ سینما گھر نما ایک ہال میں کھڑے ہوں تو سکرینوں کا ایک دائرہ آپ کے گرد بن جاتا ہے۔ جب اس دائرے میں شنگھائی پر دستاویزی فلم چلتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ آپ تیزی سے حرکت کرتے ہوئے شہر کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔ اس ہال سے باہر آئے تو ڈاکٹر ظفر بغیر کسی کو مخاطب کیے بولے، ''انیس سو پچاسی میں شنگھائی والے کراچی گئے تاکہ اس شہر کو کراچی جیسا جدید بنا لیں، مگر دو ہزار چار میں کراچی کی بلدیہ والے شنگھائی آئے کہ اِن سے کراچی کو بہتر بنانے میں کوئی مدد لے سکیں‘‘۔ اس سفر میں ڈاکٹر ظفر کی ایک خوبی سامنے آئی کہ بات اس وقت کرتے ہیں جب اس کا محل ہو اور نکتہ مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ ان کی یہ بات تیر کی طرح دِل میں ترازو ہو گئی۔
اس میوزیم سے ہمیں سیدھا شنگھائی ایئر پورٹ پہنچنا تھا۔ یہ ہمارے واپسی کے سفر کا آغاز تھا۔ شنگھائی سے پونے دو گھنٹے کی پرواز کے بعد بیجنگ سے ہمیں اسلام آباد کے لیے اڑان بھرنا تھی۔ ہمیں کچھ تاخیر ہو چکی تھی مگر ہمارے میزبانوں نے اس تاخیر کا مداوا تعلقات کے زور پر کر لیا تھا اور ہم ترجیحی بنیادوں پر سارے مراحل طے کرکے جہاز تک پہنچ گئے۔ جہاز بروقت اڑا اور اندرونِ ملک پرواز کے دوران فضائی عملے نے جس طرح مسافروں کی خدمت کی اس کا تصور بھی پاکستان میں اندرونِ ملک سفر کے دوران نہیں کر سکتے۔ میں نے ساتھ بیٹھے ڈاکٹر ظفر سے پوچھا، ''یہ فضائی کمپنی بھی سرکاری ہے؟‘‘۔ تھوڑی الجھن سے بولے ، ''ہاں، ہاں بھائی یہ سرکاری ہے، ایئر ہوسٹس اور پائلٹ بھی سرکاری ملازم ہیں‘‘۔ 
بیجنگ ایئر پورٹ پر جب ہم پہنچے تو پی آئی اے کی پرواز میں روانگی کے وقت میں ابھی ڈھائی گھنٹے پڑے تھے۔ امیگریشن اور دیگر مراحل سے گزر کر جب ہم لاؤنج میں پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ جہاز ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہے۔ ایسا لگا کہ ہماری بین الاقوامی سبکی کی ایک وجہ قومی ایئر لائن بھی ہے۔ جب اس میں سفر کرنے والے مسافروں کو پتا چلتا ہو گا کہ پی آئی اے اور وقت کی پابندی متضاد چیزیں ہیں تو وہ پاکستان کے بار ے میں بھی کچھ اچھا تو نہیں سوچ سکتے ہوں گے۔ خیر، چینی ایئر لائن کے جہاز سے اتر کر پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہوئے تو اپنا جہاز کچھ زیادہ ہی پرانا لگا۔ میں نے اسے محض ایک تاثر سمجھ کر جھٹک دیا۔ جب جہاز اڑا اور پرواز کچھ ہموار ہوئی تو میرے سر پر لگی وہ روشنیاں خود بخود جل اٹھیں جو مسافر بٹن دبا کر روشن کرتا ہے۔ میں سمجھا انجانے میں میرا ہاتھ بٹن پر جا پڑا ہو گا۔ میں نے بتی بجھانے کے لیے بٹن دبایا تو کچھ بھی نہ ہوا۔ معلوم ہوا‘ بٹن خراب ہے۔ اگلی سیٹ کی پشت پر لگی سکرین کو ہاتھ لگایا تو وہ سیٹ سے نکل کر میرے ہاتھ میں آ گئی۔ اسے بمشکل اپنے خانے میں فٹ کیا تو اوپر لگی ہوئی بتی خود بخود بجھ گئی۔ اسلام آباد پہنچنے تک یہی سلسلہ جاری رہا کہ بتی از خود جلتی اور از خود بند ہو جاتی۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved