تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     09-04-2013

کھُرے پہ کھُرا

ہماری خوش شکل اورخوش لباس سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اپنے حلقے این اے 177کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کے لئے ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچیں تو موصوف نے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ان سے نکاح نامہ طلب کرلیا۔بیان کیاگیاہے کہ حنا ربانی کھر نے غصے کا اظہار کرنے کی بجائے نکاح نامہ مہیا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔عوامی نمائندگی کے خواہش مند مرد حضرات سے ان کی بیگمات کی تعداد کے حوالے سے بھی دریافت کیاگیا۔یہ بیان نہیںکیاگیاکہ ایک سے زیادہ نکاح یافتگان سے ان کی تمام شادیوں کے نکاح نامے طلب کئے گئے یانہیں۔اگراس نوع کی ریٹرننگ افسری جھاڑی جاتی تو یقینابعض حلقوں میںدستاویزات کے ساتھ اصل نکاح نامے مہیا کرتے ہوئے اضافی شیٹس بھی نتھی کرنا پڑتیں۔ ریٹرننگ افسر وں کی اس فرض شناسی سے مجھے اپنا نکاح نامہ یاد آگیا۔مجھ سے میرا نکاح نامہ کسی نے طلب تو نہیںکیالیکن اپنے تئیں مجھے اپنی یہ اکلوتی ڈگری یاد آگئی۔ کچھ پتہ نہیںکہ نکاح نامہ میرے پانچ مرلے کے گھر کے کس کونے کی کونسی تہہ میں’’متروکہ وقف دستاویز ‘‘ کی حیثیت سے دبا پڑا ہے ۔حناربانی کھر یقینا ذہین اورذمہ دار خاتون ہیںجنہوں نے اپنا نکاح نامہ فوراََ مہیا کرنے کی ہامی بھر لی۔ میںنے اپنی زوجہ محترمہ سے دریافت کیاکہ کیاہمارا نکاح نامہ محفوظ ہے تو انہوں نے اپنی دائیںآنکھ کا ابرواٹھاتے ہوئے دریافت کیاکیوں اس کی کیاضرورت پڑگئی؟بیگم صاحبہ لائف پارٹنر سے اچانک مجھے ’’ایف بی آئی‘‘ دکھائی دینے لگیں۔ میں شروع سے ہی ایک تابع فرمان شوہر کی زندگی گذار رہاہوں،یہی وجہ ہے کہ بیگم صاحبہ نے گھر میںمارشل لانافذکرکے کبھی میرے بنیادی حقوق غصب نہیںکئے۔ اس سے پہلے کہ وہ میری کسی حالیہ لغزش یا ماضی کے کسی قول وفعل پر اعتراض کرتے ہوئے برادرم ایاز امیر کی طرح میرے کاغذات مستردکرتیںاور میں راجہ پرویز اشرف، جمشید دستی یا شیخ وقاص اکرم کی طرح گھر جیسی اسمبلی سے باہر زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتا،نکاح نامے کا خیال میںنے ذہن سے جھٹک دیا۔ بیگم صاحبہ سمجھی تھیں کہ شاید دوسرانکاح کرنے کیلئے دستاویز کے طور پہلے نکاح نامہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بیگم مجھے اچھی طرح جانتی ہیںکہ زندگی کے سفر میں، میںنے ہمیشہ ایک محتاط ڈرائیورکی طرح ٹریفک کی اس زریں اصول پر عمل کیاہے کہ ’’ محتاط ڈرائیونگ سفر بخیر‘‘مگر نجانے کیوں نکاح نامے کا ذکر سنتے ہی وہ نیب کی طرح مجھ پر شک کرنے لگیں۔بیگم صاحبہ کو علم ہوناچاہیے کہ میںایک ہیوی مینڈیٹ تابع فرمان شوہر ہوں اور مجھے شیخ رشید کی طرح اپنے ایک ہی حلقے سے بار بار ہارنے کا کوئی شوق نہیں۔ہارنے سے خیال آیا ،شکر ہے کہ عوامی نمائندگی کے لئے شادی شدہ ہونا لازمی نہیں ، وگرنہ کنوارے اوررنڈوے عوامی نمائندگی کے اعزاز سے محروم رہتے ۔ تکنیکی بنیادوں پر دیکھاجائے تو کنواروں اوررنڈووں پر عوامی نمائندگی کی ذمہ داری ضرورڈالنی چاہیے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کنوارے اوررنڈوے چونکہ اہل وعیال کے بکھیڑوں سے آزاد ہوتے ہیںاس لیے وہ پوری توجہ سے ملک وقوم کی خدمت کرنے کے لئے دستیاب رہ سکتے ہیں۔ اس بار بڑے بڑے سیاسی ستارے آسمان ِسیاست سے گر کر حالات کے بلیک ہول میںغرق ہورہے ہیں۔گھر کے بھیدی اعتراضات عائد کرکے ایک دوسرے کو نااہل کرانے میںمصروف ہیں۔اس ضمن میںراجہ پرویز اشرف کی نااہلی اورجنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو الیکشن لڑنے کے اہل قرار دینے کے فیصلے کو بھی تاریخی قرار دیناچاہیے۔راجہ صاحب کو اقربا پروری کی سزا ضرورملنی چاہیے مگر دوبارآئین توڑنے والے جرنیل کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دے کرثابت کیاجانا چاہیے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے…کیونکہ افہام و تفہیم کے عظیم فلسفے سے یہی زریں اصول کشید کیا گیا تھا۔ الیکشن 2013 ء کے عام انتخابات کے لئے 24ہزار 94خواتین وحضرات نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن کی ابتدائی جانچ پڑتال کرلی گئی ہے۔تاہم الیکشن کمیشن نے اعلان کیاہے کہ اگر انتخابات سے قبل یا بعد میں کسی بھی مرحلے پرامیدوار کی حیثیت کو چیلنج کیاگیا تو قانون حرکت میںآئے گا۔یہ بہت اچھی روایت ہے۔ ہمارے ہاں ہمیشہ سیاستدانوں کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے جبکہ بعض دوسرے اداروں کے ریٹائرڈ خواص کے لیے یہ قانون لولے لنگڑے کا روپ دھا ر کر ’’وہیل چیئر‘‘ پر جابیٹھتاہے۔ اس ضمن میں جنرل ریٹائرڈ مشرف کی اہلیت ہمارے سیاسی ، آئینی اورقانونی نظام کی ’’روشن ‘‘مثال ہے ۔ الیکشن کے سلسلہ میںریٹرننگ افسروں اورعوامی نمائندگان کے مابین ہونے والے دلچسپ مکالمے، سٹیج ڈراموں میںکام کرنے والے مزاحیہ فنکارو ں کی طرح پھبتیوں اورقہقہوں سے بھرپور ثابت ہورہے ہیں۔گجرانوالہ کے شاہ نواز چیمہ سے ریٹرننگ افسر نے سوال کیا، چیمہ صاحب ! پندرہ پھلوں کے انگریزی میں نام بتائیں؟ چیمہ صاحب نے جواب دیاکہ سیب ، سنگترہ اورانگور کے ساتھ درجن کیلے گن لیں۔ ہمارا خیال ہے کہ چیمہ صاحب اگر الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچ جائیںتو وہاں انہیںایک ’’من ورنجن انکلوژر‘‘ قائم کرناچاہیے تاکہ اپنا اورہمنوائوں کا دل لگا رہے۔ عام انتخابات کے انعقاد کو اب صرف ایک ماہ باقی رہ گیاہے مگر ملک کی سیاسی فضا میں پایاجانے والا’’ اسرار‘‘ سراغ دے رہاہے کہ ’’ہنوز دلی دوراست‘‘۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ہاں ڈکٹیٹر الیکشن کی دلی لوٹتے رہے، جس طرح چھڑوں(کنواروں) کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے دن دیہاڑے دلی لوٹ لی تھی۔ کیااس بار بھی الیکشن کی دلی لوٹنے کی تیاری کی گئی ہے؟یہ کہناتو مشکل ہے لیکن اس ضمن میں اسی تاریخی وقوعے کا ہی حوالہ دیاجاتاہے جب 1977ء میںوزیر اعظم بھٹو کی طرف سے کرائے گئے انتخابات کو دلی کی طرح لوٹ لیاگیاتھا ۔ جنرل ضیاء الحق عام انتخابات کے نگران بن کر آئے اورنوے دن میںالیکشن کرانے کا وعدہ کرکے گیارہ سال تک ہماری تقدیر کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے ۔ امیدوں کی دلی لٹنے کا یہ سانحہ بڑا ہی دلدوز ہے۔یہی وہ سانحہ ہے جس نے ہماری زندگی کو دہشت گردی کے دوزخ میں دھکیل دیا۔لہٰذا ایسے کسی وقوعے سے خوفزدہ ہونا فطری امر ہے۔ ہماری زندگی دکھوں اورپریشانیوںسے لدی پھَندی ہے۔ ہمیں تو اپنی مصیبتوں کی تھراپی کرنے کے لیے منیر نیازی کے اس فارمولے سے ہی کام لینا پڑتاہے : ؎ منیرؔ ان دنوں سے پریشاں نہ ہو کہ دن ان سے گذرے ہیں ابتر کئی بیلٹ پیپر پر خالی خانے کے پیچھے کون ہے ؟یہ معمہ اس وقت تک حل نہیںہوگا جب تک یہ فیصلہ نہیںہوپائے گاکہ شیخ الاسلام کے انقلاب کنٹینر کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟خالی خانے اورکنٹینر انقلاب کاکھُرا مل جائے تو آئین میںآرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے پیچھے کارفرما طاقتوں کے قدموں کے نشان بھی مل جائیںگے۔مصیبتوںاوردکھوں کے دریاعبور کرنے کے بعد رنج و غم کے اس ساحل سے پیچھے مڑکر دیکھیں تو نظر باسٹھ تریسٹھ کے سنگ میل پر پڑتی ہے۔باسٹھ تریسٹھ کی لکیر پر سیدھے چلتے جائیںتوکھُرا اسلام آباد میںواقع فیصل مسجد کے پہلو میںآباد جنرل ضیاء الحق کے مزار شریف پر جانکلتا ہے ۔یہ کھُرا ہمیں ہمارے محبوب جنرل محمد ضیاء الحق کی یاد بھی دلاتاہے جنہوں نے 73کے متفقہ اورپاکستانی معاشرے کے لئے ایک صحت مند اورتوانا آئین میںصادق اورامین والی ’’سرجری ‘‘ فرمائی اورپھر جنرل پرویز مشرف کے دور میںاس نے باسٹھ تریسٹھ کا روپ دھارلیا۔قومی سانحات اور جائے وقوعہ کا ملاحظہ کریںتو کھُرے پہ کھُرا چڑھا دکھائی دیتاہے اوریہ تمام کھُرے اسی ایک جانب ہی جانکلتے ہیں۔منیر نیازی نے ہی کہاتھا: ؎ میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved