1980ء تک پاکستان میںاین جی اوز کے نام سے کوئی بھی واقف نہیں تھا‘ لیکن 80 کی دہائی کے آغاز میں جیسے ہی‘ روس نے افغانستان میں اپنی افواج داخل کیں‘ تو پاکستان این جی اوز کے نام سے متعارف ہونا شروع ہوا اورابتدا میںان کی دوستیاں انگریزی پرنٹ میڈیا کے سکہ بند‘ ایک درجن سے زائد لوگوں تک محدود رہیں‘پھر1988ء میں روس کی شکست کے بعد ان کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی‘ لیکن جیسے ہی9/11 ہوا ‘تو این جی اوز کی بھر مار ہونے لگی اور چند ماہ بعد ہی لاہور‘ اسلام آباد ‘ کوئٹہ ‘پشاوراور کراچی میں ان کے کئی کئی کمروں پرمشتمل عالی شان دفاتر قائم ہونے لگے‘ جن کے اندر داخل ہوتے ہوئے احساس ہوتا تھا کہ آپ کسی بہت بڑے ملک کی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے دفاتر میں گھوم رہے ہیں‘ پھر یہاں پر ایک مخصوص سوچ کے حامل مرد وخواتین کی آمد و رفت دیکھی جانے لگی۔
1988ء سے جب پاکستان آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بینک‘ امریکہ سے بھاری قرض لینا شروع ہوا‘ تو ان این جی اوز کے پر بھی نکلناشروع ہو گئے اور2009ء میں آصف علی زرداری کی حکومت میں جب کیری لوگربل منظور ہواتو اس بل کی دولت کے ساتھ ہی قسم قسم کی این جی اوز کا ایک سیلاب پاکستان امڈ آیا‘ جس سے اسلام آباد کے ہر سیکٹر اور گلی میں کرائے پر گھر ملنا مشکل ہو گئے ۔ نجی ٹی وی کی سکرینوں پر شو بز سے تعلق رکھنے والوں کی طرح ان این جی اوز کے چہرے پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس قدر دخل اندازی دینا شروع ہو گئے کہ لگتا تھا کہ پاکستان کے فیصلے اب پارلیمنٹ میں نہیں‘ بلکہ ان کی ہدایات پر ہوا کریں گے۔
جنرل مشرف کے دور حکومت میں مظفر گڑھ کی مختاراں مائی کے ایشو کو لے کر ان این جی اوز نے اس طرح اپنی طاقت منوائی کہ پاکستان اور اس سے باہر ہر ٹی وی سکرین پر مختاراں مائی کا راج ہو گیا‘ جس کے ذریعے مذہبی سوچ کے حوالے سے پاکستانی معاشرے کی بھیانک تصویریں امریکہ اور یورپ کے ہر گھر میں دکھائی جانے لگیں۔ کونڈ الیزا رائس اور ہیلری کلنٹن سمیت اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کی اہلیہ مسز بش بی بی سی‘ سی این این‘ فاکس نیوز‘ الجزیرہ‘ سمیت ہر امریکی اور یورپی چینلز پر مختاراں مائی کی بلائیں لیتے دکھائی دینے لگے۔ اس پر دنیا کے ہر ملک اور دولت کے دروازے کھل گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی حکومت اور تمام انتظامیہ اس کے ایک اشارے کی منتظر رہنے لگی۔ ملکی میڈیا نے اسے پاکستان کی سب سے طاقت ور شخصیت کے روپ میں پیش کرنا شروع کر دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ مختاراں مائی کی جانب رشک بھری نظروں سے دیکھا جانے لگا۔
ان بین الاقوامی این جی اوز نے ایسے اقدامات شروع کر دیئے‘ جن کا ان کے مینڈیٹ سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا ۔انہوں نے خود کو لبرل کہلانے والے ایسے اساتذہ اور جرنلسٹس سمیت کچھ سیا سی لیڈران اور وکلاء اور خواتین و حضرات پر مشتمل تھینک ٹینک تشکیل دینے شروع کر دیئے ‘تو کچھ این جی اوز نے گیلپ سروے‘ ناموس ِرسالت جیسے قوانین کی تنسیخ اور پاکستان میں سوشل اور تعلیمی افادیت کو اجاگر کرنے کے نام پر ایسے سیمینار شروع کروادیئے ‘جن میں نصاب کی تبدیلی‘ مخلوط تعلیمی نظام کے فروغ اور جنسی تعلیم جیسے مضامین شامل کرانے کی ترغیب شروع کر دی گئی۔ جلد ہی ان کی خاموشی سے کی جانے والی یہ کوششیں سامنے آنا شروع ہو گئیں تو ساتھ ہی پاکستان کے کچھ میڈیا گروپس نے نا معلوم وجوہ کی بنا پر ان کے خیالات اور سوچ کو عوام کے ذہنوں میں مقبول بنانے کیلئے اپنے زیر نگرانی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں جلی سرخیوں سے شائع اور نشر کروانا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہماری سوسائٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے‘ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کر دیا ۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس قسم کا ایجنڈہ لئے ہوئے این جی اوز نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا‘ جن میں ان کو کامیابیاں بھی ملیں اور آج ان کے ہی بوئے گئے بیجوں کی وجہ سے کراچی ‘ اندرون سندھ‘ اسلام آباد اور کوئٹہ سمیت ہمارے قبائلی علا قوں میں علاقائی اور لسانی مسائل جنم لے چکے ہیں اور ان کے بوئے گئے کانٹے ایک ایک کرتے ہوئے ہمیں چننے پڑ رہے ہیں۔
ان این جی اوزکا رخ اب فاٹا‘ گلگت ‘ بلتستان ‘ اندرون سندھ کی یونیورسٹیوں‘ ہاریوں اور ترقی پسندی کے نام سے کام کرنے والی مختلف تنظیموں میں بڑھتا جا رہا ہے‘ جس کی جانب حکومت کو ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر توجہ دینا ہو گی اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے بین الاقوامی دبائو کو خاطر میں نہیں لانا ہو گا‘ کیونکہ رحمن ملک کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے7800 کے قریب این جی اوز کے بھیس میں بلیک واٹر اور سی آئی اے سے متعلق جاسوسوں کو تھوک کے حساب سے ویزے جاری کئے‘ جن میں سے ایک بعد میں ریمنڈ ڈیوس کی صورت میں سامنے آیا ۔ان تمام این جی اوز کا پھیلایا گیا زہر ہماری سوسائٹی کے مختلف طبقوں میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ ان کے مقامی جانشین ان سے بھی زیا دہ پاکستان کیلئے مہلک ثابت ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ ان این جی اوز نے نہائت سائنٹیفک طریقوں سے خود کو محروم طبقوں کی آواز اور ان کے دکھ درد کو سمجھنے اور ان کے حل کیلئے اپنی تمام تر ہمدردیوں اور سرمائے سے انہیں اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے ۔ غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے سرمائے کی ان کے پاس اس قدر بہتات ہے کہ کچھ بھی خریدنا ان کیلئے مشکل نہیں۔ حالات کی سنگینی دیکھئے کہ لبرل ازم کے نام پر یہ این جی اوزپرائیویٹ تعلیمی ا داروں اس کے طلبا و طالبات اور وہاں تعلیم دینے والے مرد و خواتین اساتذہ کو نہایت میٹھے اور اثر انگیز طریقوں سے اپنا ہم خیال بناتے ہوئے ‘اس تاثر کے ساتھ ان سے کام لے رہے ہیں کہ وہ یہی سمجھیں کہ اس سے پاکستانی معاشرے کی بہتری ہو گی اورنوجوان نسل کو گھٹے گھٹے ما حول سے باہر نکال کر بے جا پابندیوں کا شکار ہونے سے بچانا ہے ۔ان این جی اوز کا پہلا سبق ہی یہ ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا تھا اسے آزاد ہی رہنا چاہئے‘لیکن ان کے نزدیک یہ آزادی قدامت پسند معاشرے اور مذہبی پابندیوں سے بغاوت کا نام ہے۔
افواج پاکستان نے آپریشن ضربِ عضب اور پھر رد الفساد کے ذریعے بے بہا قربانیاں دیتے ہوئے جب تحریک طالبان پاکستان اور ایک درجن کے قریب دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ہیڈ کوارٹرز ان کے کنکریٹ سے بنائے گئے مورچوں اور قلعوں‘ زیر زمین خندقوں اور سرنگوں ‘ دشوار گزار اور گھنے جنگلوں میں پھیلی ہوئی بے ترتیب پہاڑیوں سے خالی کراتے ہوئے تمام قبائلی ایجنسیوں کے لوگوں کو ZONES COMBAT سے نکال کر کے پی کے کی شہری آبادیوں میں لایا جا رہا تھا‘ تو یہ این جی اوز اور ان کے بھاری بھر کم تنخواہوں سے فیض یاب ہونے والے عہدیداروں نے انDISPLACED PERSONS کو اپنے گھر والوں پر بیتی ہوئی فوج کے مظالم کی خود ساختہ داستانیں سناتے ہوئے اپنے دام فریب میں لانا شروع کر دیا اور اس میں یہ این جی اوز خاصی کامیاب ہونے لگیں۔ اس سے یہ ہوا کہ ایک جانب فوج کو جنوبی اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے نظر نہ آنے والے ایک ایک ٹھکانے کو تباہ کرنا تھا تو ساتھ ہی ان این جی اوز کے بھیس میں چھپی ہوئی منظور پشتین‘ جیسی پشتون تحفظ مووومنٹ اور کئی دوسری تنظیموں سے نمٹنا پڑ رہا ہے ۔ دشمن کا مقصد ہی یہی تھا کہ افواج پاکستان کی توجہ دو جانب بٹ جائے ۔یہی وجہ تھی کہ سکیورٹی فورسز کو ایک جانب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نام پر بین الاقوامی پراپیگنڈہ کا سامنا کرنا پڑا ‘تو ساتھ این جی اوزکے اندر پناہ لئے ہوئے دشمنوں کی جگہ جگہ بارودی سرنگوں کے دھماکوں سے نقصان اٹھانا پڑا۔