تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-10-2018

منزلِ جاں سے گزرنے کا مرحلہ

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ تن بہ تقدیر رہنے کا ماتم کریں یا تدبیر کی خامی و خرابی پر گریاں کُناں ہوں۔ لاکھ کوشش کر دیکھیے‘ بند گلی کا منظر بدلتا نہیں۔ گویا ہم کہیں اٹک کر رہ گئے ہیں۔ بہت سے احساسات آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ‘مگر محبوس رہنے کا احساس ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ خرابیاں رفتہ رفتہ اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ یہ تصور ہر آن ذہن کے پردے سے چمٹا رہتا ہے کہ جو کچھ خراب ہے وہ اب شاید کبھی درست نہ ہوگا‘ بلکہ مزید بہت کچھ خراب ہوتا جائے گا۔ 
بدنصیبی کا عالم یہ ہے کہ آج ہم میں سے کم و بیش ہر ایک کو اندازہ ہے کہ ملک کہاں کھڑا ہے اور اب کس سمت جائے گا۔ یہ ''علم الغیب‘‘ ذہن و دل پر متواتر کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ حد یہ ہے کہ معمولی نوعیت کی ذہانت رکھنے والا شخص بھی کسی حد تک ''انتر یامی‘‘ ہوچلا ہے ‘ یعنی ذہن پر ذرا سا زور دینے کی صورت میں بہت سے معاملات کی اصل کو سمجھ سکتا ہے۔ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ اس میں کمال ذہانت کا نہیں‘ بلکہ معاملات کی خرابی کا ہے۔ بیشتر معاملات کچھ ایسے بے طور و بے لباس ہیں کہ نہ سمجھنے والے کو گھامڑ ہی کہا جانا چاہیے۔ انفرادی سطح پر جینے میں جو خرابیاں رگِ جاں میں بسی رہتی ہیں وہی خرابیاں اب قومی وجود میں بھی پیوست ہوچکی ہیں۔ کسی بھی بحرانی کیفیت میں انسان شدید بے حواسی کی نذر ہوکر جن حماقتوں کا ارتکاب کرتا ہے وہی حماقتیں اب ہماری سیاسی‘ معاشی اور ریاستی قیادت سے سرزد ہو رہی ہیں۔ ہر زمانہ ایک ہی درس دیتا ہے ... کسی بھی مشکل گھڑی میں اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کیا جائے‘ اپنے بل پر زندہ رہنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ انفرادی سطح پر بھی کامیابی اُسی کو ملتی ہے‘ جو معاملات کو اپنی صلاحیت و سکت کی حدود میں رہتے ہوئے نمٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر بحرانی کیفیت سے نجات پانے کا ''طریقِ واردات‘‘ یکساں ہے۔ اپنے مسائل حل کرنے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کی ''تابندہ روایت‘‘ توانا ہوتی جارہی ہے۔ 
اُدھار پر جینا انفرادی سطح پر پایا جانے والا انتہائی دل کش تصور ہے۔ لوگ کسی بھی معاشی پریشانی سے نجات پانے کے لیے اپنے شب و روز‘ یعنی معمولات اور مزاج کو کسی حد تک بدلنے کے بجائے محض ادھار لینے پر‘ بلکہ ادھار لیتے رہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں‘ تب بھی سبق سیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ 
سات عشروں کے دوران ملک نے کئی بار شدید بحرانی کیفیت کا سامنا کیا ہے۔ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے‘ وہ تاحال نہیں کیا گیا۔ ابتداء ہی سے امداد پر بھروسہ کیا گیا ہے۔ آج کی دنیا میں معیشتوں کا مدار کسی حد تک قرضوں پر بھی ہوتا ہے۔ زور ''کسی حد تک‘‘ پر ہے۔ یہاں بہت پہلے یہ طے کرلیا گیا تھا کہ ہر بحرانی کیفیت میں دوسروں سے مدد لی جائے گی اور اس میں بھی زیادہ زور اُدھار پر رہا ہے۔ عالمی ساہوکاروں کو ایسے کمزور ممالک کی تلاش رہتی ہے‘ جو ضرورت پڑنے پر قرضوں کو پہلا آپشن قرار دیں اور جھولی پھیلادیں۔ ہم نے اس حوالے سے خود کو اُن کا تر نوالہ بنانے میں تساہل برتا ہے ‘نہ تاخیر سے کام لیا ہے۔ سات عشروں کے دوران ہم نے بارہا چادر دیکھے بغیر پاؤں پھیلائے ہیں اور پھر اِس عمل کے بھیانک نتائج بھی بھگتے ہیں۔ اچھے کام کا اچھا اور بُرے کام کا بُرا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی بہت انوکھی بات نہیں۔ یہ اصول پوری کائنات پر محیط ہے‘ مگر ہم اس اصول کو تسلیم اور ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 
قرضوں کے سوراخ سے خود کو ایک بار پھر بھرپور انداز سے ڈسوانے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ ''امدادی‘‘ پیکیجز‘ یعنی اُدھار کی تلاش جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں سعودی عرب سے کم و بیش 12 ارب ڈالر کا پیکیج مل گیا ہے۔ وزیر اعظم نے ''خوش خبری‘‘ سنائی ہے کہ دیگر 2 دوست ممالک سے بھی امدادی پیکیج کے لیے بات چیت جاری ہے اور بہت جلد یہ پیکیجز پکے ہوئے پھل کی مانند ہماری جھولی میں آ گِریں گے۔ 
سعودی عرب سے قرضے اور امداد کا جو ملا جُلا پیکیج ملا ہے‘ وہ وقتی طور پر سہارا دے سکتا ہے‘ عارضی سکون کا اہتمام کرسکتا ہے۔ قرضوں پر مشتمل کوئی بھی پیکیج اس سے زیادہ کچھ نہیں دے سکتا۔ قرض پر جینے کی ذہنیت دراصل جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کی عادت ہی کا دوسرا نام ہے۔ جب خواہشات بہت بڑھ جاتی ہیں تب اُنہیں لگام دینا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مختلف سطحوں کے ساہوکار منظرِ عام پر آکر خدمات پیش کرتے ہیں۔ جب قرض آسانی سے مل رہا ہو تو سمجھ جانا چاہیے کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ قدرت کی طرف سے ملنے والے چند نمایاں ترین اشاروں میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو قرضوں کے جال میں پھنسانے والے دل کش پیش کشوں کے ساتھ میدان میں آ جائیں۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎ 
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ 
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سُود تھا 
ہمارا معاملہ بھی خاصا ملتا جلتا ہے۔ فرق اگر ہے‘ تو یہ کہ غالبؔ نے خواب کی بات کی ہے اور ہم جاگتی آنکھوں کے خواب میں یہ تمام معاملات دیکھ رہے ہیں۔ آنکھیں کُھلیں تو تب کہ جب بند ہوں۔ ہم نے تاسّف کی منزل تک پہنچنے کے لیے آنکھوں کو کُھلنے کی زحمت سے بھی بچالیا ہے! اہلِ وطن امدادی پیکیجز کے ملنے پر سُکون کا سانس لے سکتے ہیں‘ مگر سوال یہ ہے کہ سُکون کتنی دیر کا ہے اور یہ کہ سکون ہے بھی یا بات صرف ''احساسِ سکوں‘‘ تک محدود ہے! سوال یہ ہے کہ آگے چل کر کیا ہوگا۔ مستقبل کے بارے میں سوچنے کی توفیق عام آدمی کو نصیب ہو پارہی ہے نہ ریاستی مشینری کے اعلیٰ اذہان کو۔ چلیے‘ کم از کم اس ایک معاملے میں تو دونوں ایک پیج پر پائے جارہے ہیں! 
ملک رفتہ رفتہ قرضوں کی دلدل میں مزید دھنستا جارہا ہے۔ ماہرین اجمالاً کہتے ہیں کہ ان قرضوں کا اصل اور سُود ادا کرنے کا مرحلہ تو بعد کا ہے‘ ہم تو ان تمام قرضوں کی شرائط کے تلے ہی دب مریں گے اور پھر معاملات کی ایک اور سمت بھی ہے۔ سعودی عرب سے نام نہاد امدادی پیکیج اور آئی ایم سے سخت تر شرائط پر بیل آؤٹ پیکیج کا حصول۔ یہ سب کچھ چین کو اچھا خاصا برگشتہ کرنے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ معاملات طشت از بام ہوتے جارہے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے عالمی سطح پر جو گریٹ گیم شروع ہوچکا ہے۔ ہمیں بھی اُس کا حصہ بننے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ امریکا اور یورپ اس نئے گریٹ گیم کے ذریعے اُن ریاستوں پر گرفت کسی نہ کسی طور مضبوط رکھنا چاہتے ہیں‘ جو رفتہ رفتہ ہاتھ سے پھسلتی جارہی ہیں۔ پاکستان اپنے محلِ وقوع کی مناسبت سے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 
پاکستان کے لیے پھر فیصلے کی گھڑی آگئی ہے۔ گو مگو کی کیفیت سے نکلنے کا وقت ہے۔ واضح اور درست سمت کا تعین کرنا ہے‘ جو کچھ کرنا ہے اپنے بل پر کرنا ہے۔ مانگے تانگے پر گزارا کبھی کوئی مسئلہ تھا نہ ہے؛ اگر اسی روش پر گامزن رہنا ہے‘ تو پھر کچھ بھی سمجھنے اور سوچنے پر ذہن کی توانائی ضائع کرکے ہلکان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ہاں‘ اپنے بل پر جینا ہے ‘تو اپنے لہو کی آگ میں جلنا پڑے گا۔ قدم قدم پر آگ کا دریا ہے اور ڈوب جانا ہے اور جو اس دریا میں ڈوبتے ہیں‘ وہی اُبھرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ؎ 
بات کچھ یوں ہے کہ ہر قافلۂ شوق یہاں 
منزلِ جاں سے گزرنے پہ رواں ہوتا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved