تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-10-2018

دعائے خیر

میں بالکل ایمانداری سے بتا رہا ہوں کہ میرا باکوجانے کا پروگرام کم از کم میری ذات کی حد تک سو فیصد پکا تھا‘ لیکن جیسا کہ جناب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اللہ رب العزت کی ذات کو پہچانا‘‘ سو‘ اسی طرح میرے ساتھ ہوا۔ ہم گناہ گاروں نے اپنے اللہ کی ذات کو کیا پہچاننا ہے‘ بس ارادوں کے ٹوٹنے کی حد تک خود کو مجبورِ محض پایا۔ پوری کوشش کی کہ دوستوں کے ساتھ حسبِ وعدہ باکو جا سکوں‘ مگر دنیاداری بڑی کمبخت شے ہے۔ کام ہیں کہ ایک کے بعد ایک ‘اور ترجیحات ہیں کہ روز بدلتی رہتی ہیں۔ سو‘ ترجیحات نے سارا خانہ خراب کر دیا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی ایک کالم میں لکھ چکا ہوں‘ باکو جانے کا شوق تو قربان سید کی کتاب ''علی اور نینو‘‘ پڑھتے ہی ہو گیا تھا۔ ستار طاہر مرحوم نے بھی کیا ترجمہ کیا تھا۔ یہ کتاب ان کتابوں میں سے ہے ‘جنہوں نے ایک عرصے تک دل و دماغ کو اپنے سحر میں مبتلا رکھا۔ آج کل یہ کتاب پھر سرہانے پڑی ہے۔ باکو نہ جا سکنے سے اور تو کچھ نہیں ہوا‘ لیکن اعتبار خراب ہو گیا۔ اعتبار کا خراب ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ قائم برسوں میں ہوتا ہے اور ختم ہونے کے لیے زیادہ وقت ہی نہیں لیتا۔ شوکت گجر‘ شوکت اسلام‘ رانا شفیق اور کامران‘ یہ وہ لوگ ہیں‘ جو اس سفر میں میرے ساتھ جانے والے تھے۔ میں سفر کا زیادہ تجربہ رکھنے کے جرم میں ''امیر سفر‘‘ قرار پایا تھا اور ویزہ‘ ٹکٹ‘ ہوٹل اور باقی سارے کام میرے ذمہ تھے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ان میں سے ایک کام بھی نہ ہو پایا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ سب کام تب ہوتے جب سفر کی تاریخ طے ہوتی۔ تاریخ طے ہونے کے بعد سب سے پہلا کام جہاز کی ٹکٹ کا تھا اور پھر اس کے بعد ویزہ اور ہوٹل بکنگ کی باری آنی تھی‘ ادھر یہ عالم تھا کہ ہر ہفتے نئی تاریخ کا اعلان ہوتا اور پھر تبدیل ہو جاتا ؛حتیٰ کہ سب نے ''امیر سفر‘‘ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔
سب سے پہلے کامران نے اعلان کیا کہ وہ از خود اپنے دوستوں کے ساتھ باکو جا رہا ہے۔ از راہِ احترام اس نے مجھے تو کچھ نہ کہا‘ تا ہم مجھے مطلع کیا کہ بھائی جان! میں میاں عضنفر‘ راشد اور دیگر دوستوں کے ساتھ دس تاریخ کو باکو جا رہا ہوں۔ میں نے دل میں اللہ کا شکر ا دا کیا اور اسے کہا کہ وہ بصد شوق جا سکتا ہے۔ سو‘ اس اجازت کے ساتھ ہی چار میں سے ایک ہمسفر کا ''کلیم‘‘ ختم ہو گیا۔ یہ اور بات کہ کامران بھی بوجوہ باکو نہ جا سکا ‘مگر اپنے طور پر جانے کے اعلان کے ساتھ ہی ہماری طرف سے فارغ ہو گیا۔ دو چار دن بعد رانا شفیق نے صبح ہی صبح طنز فرماتے ہوئے کہا کہ وہ رات خواب میں باکو چلا گیا تھا اور رات بھر باکو کی خوب سیر کی۔ میں نے کہا۔لو جی رانے کا کام تو ہوگیا‘ پھر میں نے رانا شفیق پر چڑھائی کر دی کہ جب اکٹھے جانا طے ہوا تھا وہ اکیلا‘ خواہ خواب میں ہی سہی ہمیں چھوڑ کر باکو کیسے چلا گیا؟ میں نے اپنے خلاف مدعیوں میں سے رانا شفیق کو بھی نکال دیا کہ اکیلے اکیلے باکو کی خواب میں سیر کر کے آ گیا تھا۔ اب باقی دو لوگ رہ گئے تھے۔ شوکت گجر اور شوکت اسلام۔ دو تین دن ہوتے ہیں‘ شوکت اسلام بھی باکو چلا گیا ہے۔ سو‘ اب صرف ایک مدعی باقی رہ گیا ہے؛ شوکت گجر‘ اور اس کے ساتھ ایک نیا معاہدہ ہوا ہے اور یہ معاہدہ اب صرف خالی خولی نہیں ہوا۔ اس معاہدے کے بعد ''دعائے خیر‘‘ بھی ہوئی ہے۔ہمارے ہاں دعائے خیر عموماً رشتہ پکا ہونے کی دلیل اور اس سلسلے میں باعث برکت سمجھی جاتی ہے یا خاندان میں صلح کی صورت میں بزرگ دعائے خیر کرواتے ہیں۔ سفر کا وعدہ پورا کرنے کے سلسلے میں کم از کم اس عاجز کو تو یاد نہیں کہ کسی نے دعائے خیر کروائی ہو ‘مگر خراب ہوئے اعتبار کو دوبارہ سے قائم کرنے کے لیے دوستوں کی طرف سے دوسرا موقعہ ملنے کی صورت میں دعائے خیر کرنا قبول تھا۔ سو‘ دعائے خیر کرلی۔
اس دعائے خیر میں طے پایا کہ ہم مارچ میں ملتان سے تاشقند بذریعہ جہاز اور پھر تاشقند سے ماسکو بذریعہ ٹرین جائیں گے۔ ٹرین کا یہ سفر قریب 66 گھنٹوں پر مشتمل ہے اور پھر ماسکو سے بذریعہ جہاز ملتان آئیں گے‘تاہم دعائے خیر میں یہ بھی طے پایا کہ اس پروگرام میں باہمی مشاورت سے تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ یہ تبدیلی تاریخ اور سفر کے روٹ ‘ دونوں میں ممکن ہے۔ اس سفر میں تین ممبران تو پکے ہے ‘یعنی شوکت گجر‘ شوکت اسلام اور رانا شفیق‘ تاہم اس میں تین چار مزید دوستوں کی شرکت کی مشروط اجازت مل گئی: کامران‘ عامر جعفری اور غلام قادر کو بمشکل سفر میں ساتھ لے جانے کی اجازت ملی۔ کامران نے دو دوستوں کی اجازت چاہی‘ مگر انکار ہو گیا۔ تعداد پر سارا پھڈا صرف اور صرف شوکت گجر ڈالتا ہے۔میں نے اس دوران تجویز دی کہ ایسا کرتے ہیں ‘کمبوڈیا اور ویت نام چلتے ہیں۔ عام ڈگر سے ہٹ کر سفر کرنا چاہئے۔ ایسی نئی جگہوں پر قدم رکھنا چاہئے‘ جہاں لوگ بھیڑ چال کے تحت نہ جا رہے ہوں‘ پھر انہیں بتایا کہ کمبوڈیا میں میرے زمانہ طالب علمی کا دوست امجد شیر خان مہمند پاکستانی سفیر ہے اور سمجھیں کہ کمبوڈیا کے آنجہانی بادشاہ‘ نوروڈم سمدک سہانوک کے بعد کمبوڈیا کا بادشاہ ہی ہے‘ لیکن شوکت کہنے لگا: کمبوڈیا جانے سے بہتر ہے کہ بندہ روانڈا چلا جائے۔ میں نے کہا: خیر یہ بھی بری آپشن نہیں ہے۔ روانڈا چلے جاتے ہیں۔ وہاں قریب ہی‘ بلکہ قریب کیا روانڈا سے بالکل متصل یوگنڈا میں میرا دوست اتفاق سے اس کا نام بھی امجد ہے ‘رہتا ہے۔ تو روانڈا چلتے ہیں۔ ساتھ یوگنڈا بھی دیکھ لیں گے۔ شوکت کہنے لگا: ہم طنز کر رہے ہیں اور تم سیریس ہو رہے ہو۔ میں نے کہا: میں بھی تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا تھا۔
پھر کسی نے بتایا کہ تاشقند سے ماسکو جانے والی ٹرین ''تھکی ہوئی‘‘ ہے‘ یعنی فارغ ہے۔ راستہ بھی کوئی ایسا خاص نہیں۔ مزید یہ کہ تین ویزے‘ یعنی ازبکستان‘ قزاقستان اور روس کے ویزے لینے ہوں گے۔ یہ ٹرین پرانے روس والے زمانے کی ہے۔ ٹرین کی حالت خستہ ہے اور رفتار بھی بس پاکستانی ٹرینوں جیسی ہے۔ تقریباً تین دن کا سفر اور راستہ بھی ‘بس ایسے ہی ہے۔ کسی نے تجویز دی کہ یوں کرتے ہیں کہ باکو ہی چلتے ہیں اور پھر وہاں سے ٹرین پکڑ کر ترکی چلے چلتے ہیں۔ درمیان میں جارجیا بھی آتا ہے۔ سارا راستہ بڑا شاندار ہے اور دیکھنے کے قابل ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ دنیا بھر میں سیاحت ایک بہت بڑا ذریعہ آمدنی ہے۔ ہر ملک میں سیاحت کے امکانات روز بروز روشن ہو رہے ہیں۔ ہمارے پاس کیا نہیں؟ دنیا کے بلند ترین اور خوبصورت پہاڑ ہیں۔ کراچی سے گوادر۔ راستے میں اورمارا‘ پسنی اور گوادر کے بعد جیوانی۔ ایک طرف سمندر اور دوسری طرف ہنگول نیشنل پارک۔ بلوچستان میں ایسے ایسے مناظر کہ عقل دنگ رہ جائے۔ شمالی علاقہ جات اور کشمیر کی ساری نیلم ویلی۔ پندرہ ہزار چار سو فٹ بلندی پر ''رش لیک‘‘۔ تیرہ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر دنیا کا سب سے بڑا دیوسائی میدان۔ پشاور تا لنڈی کوتل ریلوے کا سفر۔ چولستان میں برباد ہوتے قلعوں کا سلسلہ۔ 32 کلو میٹر طویل حفاظتی دیوار پر مشتمل رانی کوٹ کا قلعہ۔ عجیب و غریب‘ بلکہ مخیر العقول نقشے والا کوٹ ڈیجی کا قلعہ۔ دریائے سندھ میں سکھر کے قریب سادھو بیلا۔ پوٹھوہار میں کٹاس راج میں مندروں کا کمپلیکس۔ روہتاس کا قلعہ۔ کھیوڑہ کی گیارہ منزلہ نمک کی کان اور دیگر سینکڑوں نہیں‘ ہزاروں دلچسپی کی چیزیں‘ مگر سیاح ندارد ہیں۔ عشرے ہوتے ہیں‘ میں‘منیر چوہدری اور ایوب خان کمر پر رک سیک باندھے کافرستان میں بمبوریت وادی پہنچے‘ تو درجن بھر غیر ملکی سیاحوں سے ملاقات ہوئی۔ قریب ساڑھے تین عشرے قبل فیری میڈوز کے راستے میں تو درجنوںغیر ملکی سیاح نظر آئے‘ جو وہاں جا رہے تھے یا واپس پلٹ رہے تھے‘ پھر آہستہ آہستہ سب کچھ خاک ہوگیا۔
ٹور ازم کے صوبائی اور قومی ادارے صرف ا فسروں کے موج میلے کا ذریعہ بن گئے۔ چولستان جیپ ریلی ہی ایک ایسا ایونٹ ہے‘ جو دنیا میں پاکستان کا سوفٹ امیج بنا سکتا ہے‘ مگر انتظامات صفر بٹا صفر۔ استنبول گیا۔ بلامبالغہ ہزاروں سیاح۔ کیپاڈوسیا میں علی الصبح گرم ہوا والے اڑتے ہوئے سینکڑوں رنگدار غبارے سیاحوں سے لدے ہوئے۔ سب کچھ تین چار چیزوں کا مرہون منت ہے؛ مارکیٹنگ‘ اخلاص‘ ثقافتی ورثے کی حفاظت اور دیکھ بھال اور سب سے بڑھ کر امن و امان کی صورتحال۔ سیاح صرف محفوظ پاکستان مانگتا ہے۔ کوئی ہے‘ جو پاکستان میں سیاحت کے لیے بھی کوئی ''دعائے خیر‘‘ کروائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved