تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-10-2018

ذہنی پیچیدگیوں کے بھڑکتے شعلے

کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ نہ ماننا ہماری فطرتِ ثانیہ بن گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ملک کے کونے کونے میں ایک ہی قبیلے کے لوگ بسے ہوئے ہیں۔ یہ ہے‘ انکاری قبیلہ۔ فضا میں انکار کی بُو بسی ہے۔ تسلیم شدہ اقدار کی رمق تک دکھائی نہیں دیتی۔ اگر کسی خرابی کی نشاندہی کیجیے تو کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ جب ماننے ہی کی منزل سے گزرنے کے لیے تیار نہیں تو اصلاح کی منزل تک کیسے پہنچے گا؟ 
کیا اس دنیا میں اپنے طور پر بھی کچھ ہوتا ہے؟ یقینا نہیں‘ تو پھر یہ کیفیت بھی از خود نوٹس کے تحت تو ہرگز پیدا نہیں ہوئی۔ قوم کے خمیر میں ''میں نہ مانوں‘‘ کی عادت بہت محنت سے گوندھی گئی ہے۔ جس میں جتنا دم ہوتا ہے‘ اُسے پچھاڑنے کے لیے اُتنا ہی زیادہ دم لگانا پڑتا ہے۔ پاکستانی قوم کا بھی کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ اس قوم کو عشروں کی منصوبہ بندی اور محنت کے ذریعے دیوار سے لگایا گیا ہے۔ اس نکتے کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو خرابی خاصی محنت سے پیدا کی گئی ہے‘ اُسے محنت ہی سے دور کیا جاسکتا ہے اور یوں بھی خراب ہونے میں دیر نہیں لگتی ‘مگر خرابی کو دُور کرنے میں زمانے کھپ جاتے ہیں۔ 
آج بیشتر پاکستانی سو طرح کی ذہنی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے دوچار ہیں۔ آپ سوچیں گے‘ اس میں نیا کیا ہے۔ آج دنیا بھر میں کروڑوں‘ بلکہ اربوں افراد مختلف سطحوں کی ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا ہیں۔ یہ زمانہ انسان کے حواس پر بہت بُری طرح حملہ آور ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے ہر اعتبار سے اپنی مرضی کے مطابق جینا اب ممکن نہیں رہا۔ گزرے ہوئے زمانوں میں بھی اس حوالے سے بہت سی الجھنیں اور رکاوٹیں تھیں‘ مگر اب تو انتہا ہوگئی ہے۔ ذہنی الجھنیں دنیا بھر میں ہیں‘ مگر اُن سے گلو خلاصی کے بارے میں سوچا تو جارہا ہے اور سوچے ہوئے پر کچھ عمل بھی ہو رہا ہے‘ یہاں معاملہ یہ ہے کہ اب تک سوچنے کا عمل بھی شروع نہیں کیا گیا۔ 
ذہنی پیچیدگی کیا ہے؟ جب بھی انسان کسی معاملے کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں پاتا‘ اس کا ذہن الجھ جاتا ہے۔ ہر انسان کے لیے تین دنیائیں ہوتی ہیں۔ ایک دنیا تو وہ ہے‘ جس میں وہ رہتا ہے۔ دوسری دنیا وہ ہے جو لوگ اُس پر تھوپنا‘ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور تیسری وہ دنیا ہے‘ جو انسان اپنے لیے تخلیق کرنا چاہتا ہے۔ ان تینوں دنیاؤں میں پایا جانے والا (صحیح یا غلط) تضاد ذہن کو پریشان کن حد تک الجھا دیتا ہے۔ ہم اپنی مرضی کی دنیا کو یقینی بنانے کے لیے حقیقی دنیا سے متصادم رہتے ہیں۔ کبھی ہم حق پر ہوتے ہیں اور کبھی دنیا۔ یہ سلسلہ مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔ 
ہم زندگی بھر خواہشات کے دائروں میں بھی گھومتے رہتے ہیں۔ جب خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو ذہن الجھنوں سے دوچار ہوتا ہے۔ اس نوع کی الجھنوں سے نجات پانے کے لیے سب سے پہلے تو خواہشات کی تعداد گھٹانا ہوتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں یہ لازم ہو جاتا ہے کہ خواہشات کو منطقی حدود میں رکھا جائے‘ جو خواہشات صلاحیت و سکت سے مطابق نہ رکھتی ہوں‘ یعنی ممکنات کی حد سے نکل جائیں‘ وہ ذہن پر بوجھ بڑھاتی ہیں۔ 
بیشتر ذہنی پیچیدگیاں محض اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم منطقی سوچ اور توازن کو الوداع کہنے میں دیر نہیں لگاتے۔ بات بات پر اعتدال کی راہ سے ہٹ جانا ہمارا عمومی مزاج ہے۔یہی معاملہ زندگی کی بیشتر بنیادی ضرورتوں اور خواہشات کا بھی ہے۔ مثلاً: عمومی سطح پر لوگ مالی صلاحیت و سکت کو ذہن نشین رکھے بغیر بہت کچھ ایسا پانے کی خواہش رکھتے ہیں‘ جو کسی طور اُن کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ ذہن میں پنپنے والے تصورات اور زمینی حقائق کے درمیان پایا جانے والا یہ تضاد ذہن کو غیر ضروری الجھن اور بوجھ سے دوچار کرتا ہے۔ جو کچھ‘ بظاہر کسی بھی پہلو سے‘ انسان کی دسترس میں نہ ہو‘ اُسے پانے کی خواہش کی جانی چاہیے نہ کوشش۔ 
کچھ کر دکھانے کی خواہش ہر انسان کے دل میں پنپتی ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اپنی مالی حالت بدلے‘ کامیاب ہو اور زیادہ خوش حالی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ یہ کوئی ناجائز یا ناپسندیدہ خواہش نہیں‘ مگر معاملات محض خواہش کی منزل میں اٹکے نہیں رہنے چاہئیں؛ اگر انسان کسی خواہش کو پروان چڑھائے‘ تو اُسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے حقیقی عملی سطح پر کچھ کرنے کا ذہن بھی تو بنائے۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ ذہن میں کسی خواہش کو پروان چڑھانے پر تو دھیان دیا جائے‘ مگر اس سے مطابقت رکھنے والی صلاحیت و سکت کو یقینی بنانے پر برائے نام بھی توجہ نہ دی جائے؟ 
کون نہیں چاہتا کہ اُس کا اپنا مکان ہو‘ سر پر اپنی چھت ہو؟ ہر انسان ایک مستقل ٹھکانہ چاہتا ہے۔ مگر کیا محض خواہش کرلینے سے یہ ٹھکانہ ممکن ہو پاتا ہے؟ اس سوال کا جواب‘ ظاہر ہے‘ نفی میں ہونا چاہیے اور ہے۔ اگر کسی کو اپنی چھت یقینی بنانا ہے ‘تو اُس کے لیے اضافی کمانا پڑے گا ‘تاکہ کہیں زمین لے کر مکان بنائے یا بنا بنایا مکان خریدے۔ محض سوچتے رہنے سے کوئی بھی اپنی چھت کا مالک نہیں ہو جاتا۔ خواہش میں اِتنا دم ہونا چاہیے کہ وہ آپ کو بھرپور عمل کی طرف جانے کی تحریک دے‘ آپ اپنی سکت کو خاطر خواہ حد تک بروئے کار لائیں۔ ہماری بیشتر خواہشات اس لیے ادھوری یا کچی رہ جاتی ہیں کہ ہم اُن سے کام کرنے کی تحریک نہیں پاتے‘ عمل پسند رویے کو پروان چڑھانے میں مدد نہیں لیتے۔ 
آج ہمارے ہاں لکھاریوں کی بھی پوری نسل موجود ہے۔ ہر شعبے میں اور ہر سطح کے لکھنے والے ہیں اور کھل کر جولانیٔ طبع بھی دکھا رہے ہیں۔ بہت کچھ لکھا جارہا ہے‘ مگر جو کچھ لکھا جارہا ہے‘ اُس کا بڑا حصہ فرمائشی نوعیت کا ہے۔ ایسے میں‘ ظاہر ہے‘ ایسا مواد کم ہے‘ جو قوم کے کام کا ہو۔ آج کے پاکستان کو ایسے لکھاریوں کی ضرورت ہے‘ جو ذہنوں کو الجھنوں کی دلدل سے نکالیں اور پھر اس دلدل کو ختم کرنے کی تربیت بھی دیں۔ اخبارات و جرائد کے بیشتر لکھاری سطحی نوعیت کے سیاسی مباحث میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اللہ نے صلاحیت اور سکت دونوں سے نوازا ہے‘ مگر طبیعت کی روانی اور قلم کی شعلہ فشانی نان اشوز کو اشوز بنانے پر ضائع ہو رہی ہے۔ قوم کے اہم اشوز پر لکھنے والے کم ہیں اور تحقیق کی مدد سے لکھنے والے تو اور بھی کم ہیں۔ جنہیں اللہ نے ذہنِ رسا عطا فرمایا ہے ‘اُن کے کاندھوں پر غیر معمولی ذمہ داری بھی تو عائد ہوتی ہے۔ جنہیں سوچنے کی صلاحیت اور لکھنے کی سکت ملی ہے ‘وہ قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ ''پارٹی‘‘ یا ایجنڈے کا حصہ بننے کی بجائے غیر جانب دار رہتے ہوئے‘ ٹھوس علمی انداز اپناکر اُنہیں قوم کے لیے لکھنا چاہیے ‘تاکہ ذہنی پیچیدگیاں دُور ہوں‘ معاشرے کی اصلاح ممکن ہو اور لوگ فلاح پائیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved