تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     31-10-2018

کتنے علاقے فتح کئے ؟

19 اکتوبر کو نہال ہاشمی کے ملکی اداروں کے خلاف تضحیک آمیز بیانات اور تقریریں نشر کرنے پر 2 ٹی وی چینلوںکو پیمرا نے نوٹس جاری کر دیئے ہیں ۔یہ نوٹس اپنی جگہ‘ لیکن کسی بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو حق ہے کہ وہ اپنے ٹی وی چینل پر جس کے بھی چاہے‘ خیالات یا تقریریں اور پریس کانفرنس نشر کر ے ‘اس کیلئے اسے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں‘ لیکن ریاست کے ساتھ ایک طے شدہ معاہدے کے تحت عدلیہ اور قومی اداروں کے خلاف توہین آمیز پراپیگنڈہ شروع کر دیا جائے‘ تو اس پر سوالات تو اٹھیں گے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جس شخص کا جب جی چاہے‘ وہ کسی بھی طریقے سے کسی ٹی وی چینل کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ملک کے آئینی اور عسکری اداروں کو توہین آمیز طریقوں سے نشانہ بناتے ہوئے دنیا بھر میں بدنام کرناشروع کر دے ۔ کیا اسے میڈیا کی آزادی یا اظہار رائے کا حق کہا جا سکتا ہے؟۔
افسوس ہے کہ19 اکتوبر کو بہت سے ٹی وی چینلز ‘نہال ہاشمی کی اس تقریر کو دن رات وقفے وقفے سے بار بار آن ائر کرتے رہے‘ جس سے اپنے ہی ملک کے قومی اداروں کی تضحیک کی جاتی رہی۔ مسلم لیگ نواز کے رانا ثنا اﷲ نے نہال ہاشمی کی اس تقریر پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اس شخص کا اب نواز لیگ سے کوئی تعلق نہیں رہا‘ ہم نے اس کی بنیادی رکنیت ہی ختم کر دی ہے۔ یہ وہ گھٹیا مذاق ہے‘ جو نواز لیگ ملکی اداروں کے خلاف جھوٹ اور الزام تراشیاں پھیلانے کے بعد اس سے لا تعلقی ظاہرکرتے ہوئے کرتی ہے۔مشاہد اﷲ اور پرویز رشید کو قومی اداروں کے خلاف بد زبانی کرنے پر پہلے نکالا اورپھر وزیر اعظم ہائوس اور جاتی امراء سمیت اسلام آباد اور ماڈل ٹائون کی مسلم لیگ ہائوس کا نگران اور سینیٹر بنا دیا ۔ بقول شاعر:دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھُلا ۔ 
ا قومی اداروں کے شکوک شبہات کو اس وقت مزید تقویت ملتی ہے‘ جب نہال ہاشمی جیسے شخص کو مائیک کے آگے کھڑا کر کے اس سے عدلیہ اور اداروں کے خلاف توہین آمیز گفتگو کو اس وقت تک آن ائر رکھا جائے‘ جب تک کے مقرر تھک کر بیٹھ نہ جائے یا اس کے منہ سے چیخ چیخ کر جھاگ نکلنی شروع نہ ہو جائے‘ تو قانون اور ضوابط کی رو سے ایسے ٹی وی چینلز کے خلاف قانونی اقدامات تو کرنے ہوں گے ۔ نہال ہاشمی نہ تو اب مسلم لیگ نواز کا کوئی عہدیدار یا پارلیمنٹ اور سینیٹ کا رکن ہے ‘تو پھر کیا وجہ تھی کہ ایک ایسا شخص ‘جس کے بارے میں اس کے وکلاء نے سپریم کورٹ کو بتا دیا تھا کہ اس کابلڈ پریشر بڑھ کر جب بے قابو ہوجاتا ہے‘ تو ہمارے سائل کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہوتاہے؛اگر میں اس وقت سپریم کورٹ میں موجود ہوتا تو فاضل وکیل سے یقیناپوچھنے کی جسارت کرتا: جناب آپ کے سائل کا بلڈ پریشر ان عدالتوں اور اداروں کے خلاف ہی کیوں بے قابو ہو جاتا ہے‘ جن سے آپ کے اور ان کے لیڈر نواز شریف کو شکایات ہوتی ہیں یا جو اس کے خلاف قانون کے مطا بق آزادانہ فیصلے کرنا شروع کر دیتی ہے۔
19 اکتوبر کو نہال ہاشمی نے سیا ستدانوں کے ملک کی بہتری اور ترقی کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر اظہار خیال تو کیا کرنا تھا‘ قومی اداروں کو توہین آمیز لہجے میں یہ کہتے ہوئے پوچھنا شروع کر دیا کہ بتائو اب تک تم نے کتنے علا قے فتح کئے ہیں؟ تمہارے پاس8 لاکھ فوج ہے‘ تم نے اب تک کیا کیا ہے؟ تم نے1965ء کی جنگ میں بھی شکست کھائی تھی‘ تمہارے پاس ایٹم بم اور میزائل ہیں‘ یہ کس لئے ہیں؟نہال ہاشمی جیسے شخص سے تو کیا پوچھنا ‘لیکن آپ سب سے پوچھنا ہے کہ ''روس کی کئی لاکھ فوج تھی ‘کیا وہ افغانستان کو فتح کر سکا؟امریکہ‘ نیٹو اورا یساف سمیت افغانستان کی کوئی دس لاکھ کے قریب فوج 12 اکتوبر2001ء سے اب تک چند ہزار طالبان کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہے‘ ان کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ‘ فائٹر جہاز‘ ٹینک‘ بکتر بند گاڑیاں اور کھربوں ڈالرز ہیں ‘کیا اب تک وہ کوئی کامیابی حاصل کر سکے ؟ بھارت کی8 لاکھ سے زائد فوج‘ اس کی تین لاکھ سے زائد بارڈر سکیورٹی فورس اور پولیس کے تین ادارے مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 20 برس سے گھسے ہوئے ہیں۔ بے شک‘ انہوں نے90 ہزار کشمیریوں کو شہید کر دیا ہے‘ کئی ہزار خواتین کی عصمت دری کر چکے‘ لیکن کیا وہ ایٹم بم اور میزائلوں اور آٹھ لاکھ فوج کے ہوتے ہوئے نہتے کشمیریوں کی جدو جہد آزادی پر قابو پا سکا ہے؟ 
نہال ہاشمی جب تقریر کر رہا تھا‘ تو اگر ایساشخص جو اسے جانتا نہ ہو تو اس کی باتیں سنتے ہوئے یہی سمجھے گاکہ یہ کوئی مودی کا چیلا یا راشٹریہ سیوک سنگھ کا انتہا پسند ہے ‘جو پاکستانی فوج پر تبرے بھیج رہا ہے۔ نہال ہاشمی نے اب تک جو کچھ بھی کہا ہے‘ یہ اس کی اخلاقی گراوٹ اور شائد اس غلط تربیت کا نتیجہ ہے‘ جس نے اسے اس درجے کا نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔ اسے کچھ ماہ پہلے سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو ٹی وی پر گالیاں دینے پر توہین عدالت کے تحت ایک ماہ قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی‘ لیکن اس وقت چونکہ پنجاب اور مرکز میں اسے گالیاں سکھانے اور پھر ان گالیوں کو بکنے کی ہدایات دینے والوں کی ہی حکومت تھی ‘اس لئے اڈیالہ جیل میں اسے اس حالت میں رکھا گیا‘ لگتا تھا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کوئی اور نہیں‘ بلکہ نہال ہاشمی ہے۔جیلروں نے منا فع بخش اور بڑے بڑے قبضہ گروپوں اور منشیات سمیت جرائم کے بادشاہوں سے ماہانہ لاکھوں روپے کے فائدے کیلئے‘ ان کے ذاتی تعلقات استوار کیے ہوتے ہیں‘ اس کیلئے جن سفارشوں سے یہ جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈاکٹرحضرات اپنی تعیناتیاں کراتے ہیں ‘ان سے کسی بھی قسم کی اصول پسندی کی توقعات رکھنا حماقت ہوتی ہے اور جن لوگوں کا ان جیلروں اور ڈاکٹروں سے واسطہ پڑتا ہے‘ وہ اس سے بھی زیا دہ ان کے بارے میں الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ممکن ہے کہ کچھ خدا ترس لوگ بھی اس قافلے میں ہوں‘ لیکن وہ آٹے میں نمک کے برا بر ہیں۔
نہال ہاشمی کو اگر صحیح معنوں میں ایک ماہ کی سزا اسی طرح کاٹنی پڑتی‘ جیسی اسی اڈیالہ جیل میں غریب اور لاوارث قسم کے قیدی کاٹ رہے ہیں یا اڈیالہ میں کوکب وڑائچ جیسا جیلر ہوتا تو دوبارہ وہ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے ایک لمحے کیلئے ضرور سوچتا کہ اب کی بار سزا بھی پہلے سے زیا دہ اور سختی بھی بڑھا دی جائے گی‘ لیکن چونکہ وہ اس جیل میں ایک حاکم کی طرح داخل ہوا تھا‘ اس لئے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں سب دیکھتے رہے کہ اس ایک ماہ میںڈاکٹروں نے اسے شدید بیمار قرار دیتے ہوئے اپنا خصوصی مہمان بنائے رکھا اور دن رات نہال ہاشمی کی زیا رت کرنے کیلئے نواز لیگ‘ اس طرح اڈیالہ جیل میں فروکش رہنے لگی تھی کہ وہ اپنے قلعے میں خود سے ہی رہ رہا ہے اور وہ کوئی سپریم کورٹ کا سزا یافتہ قیدی نہیں‘ بلکہ جیل سپرنٹنڈنٹ اورباقی تمام عملہ کا کوئی باس ہے۔ 
جیل کے کچھ ایسے اہلکار‘ جن کی اس کے ساتھ ڈیوٹیاں تھیں ‘ان کا کہنا ہے کہ نہال ہاشمی کے وہ تمام بیماری کے سرٹیفکیٹ ڈاکٹروں نے جعلی اور خود ساختہ تیار کئے تھے۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت یا محترمہ یاسمین راشد بطورِ وزیر صحت‘ ان رپورٹس کی روشنی میں نہال ہاشمی کے کچھ ٹیسٹ لے کر جعلی اور فراڈ سرٹیفکیٹ اور تشخیصی رپورٹس تیار کرنے اور کروانے والوں کے خلاف انکوائری کروائے گی؟ اور مجرم ثابت ہونے پر ان کے خلاف جعل سازی ‘ اپنے اختیارات کے غلط استعمال اور ریا ست سے دھوکہ دہی جیسے الزامات پر قانونی اور تادیبی کارروائی کرنے کیلئے انہیں نیب یا اینٹی کرپشن کے کسی ایماندار افسر کے حوالے کیا جائے گا؟نہال ہاشمی قبیل کے لوگ بھول جاتے ہیں کہ آج کی سکیورٹی فورسز فتوحات یا کسی دوسرے ملک پربزور طاقت قبضہ کرنے کیلئے نہیں‘ بلکہ اپنے وطن عزیزکی حفاظت کیلئے ہوتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved