تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     01-11-2018

اب کام کر لیں؟

لاہور میں شوکت خانم ہسپتال اور یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے درمیان والے چوک میں ایک پُل بن رہا ہے‘ جس کے مکمل ہو جانے کے بعد جوہر ٹاؤن سے گزر کر رائے ونڈ روڈ کی طرف جانے والی ٹریفک کسی حد تک ہموار ہو جائے گی۔ مجھے دفتر جانے کے لیے روزانہ اس چوک سے گزرنا پڑتا ہے اور زیر تعمیر پُل کی وجہ سے ٹریفک یہاں سے رینگ رینگ کر گزرتی ہے۔ یہ معاملہ تقریباً پچھلے آٹھ ماہ سے چل رہا ہے۔ عام انتخابات سے پہلے تو یہاں دن رات کام جاری تھا‘ جس کی وجہ سے نوے فیصد کام تیزی سے مکمل ہو گیا‘ لیکن جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت وفاق اور پنجاب میں آئی تو کام پہلے سست ہوا‘ اور اب مکمل طور پر بند ہو چکا ہے۔ کبھی کبھار چند مزدور کوئی گڑھا کھودتے یا بند کرتے نظر آتے ہیں‘ ورنہ عمومی صورت یہی ہے کہ یہاں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ وزیر اعظم عمران خان کے اپنے بنائے ہوئے شوکت خانم ہسپتال کے سامنے بننے والے اس منصوبے پر کام اچانک رُکا تو حیرت ہوئی کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اِدھر اُدھر لوگوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ نئی حکومت نے ٹھیکیدار کے پیسے روک رکھے ہیں‘ جس کی وجہ سے اس پُل کی تکمیل نہیں ہو پا رہی۔ پیسے کیوں روکے گئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں پنجاب حکومت کے متعلقہ ادارے آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ کرید کرید کر معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کی حکومت ''ایمانداروں‘‘ پر مشتمل ہے اس لیے ہر وہ شخص جو سرکاری خزانے سے کچھ خرچ کرے گا‘ آخر کار نیب یا ایف آئی اے کے حوالے ہو کر اپنی نسلوں کے لیے ذلت کا سامان کر جائے گا۔ اس لیے کوئی سرکاری افسر کسی چیک پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ لہٰذا یہ پُل آئندہ پانچ سال بھی زیرِ تعمیر ہی رہے گا۔ 
لاہور کا یہ منصوبہ تو چھوٹا سا ہے، مکمل نہ بھی ہوا تو ایماندار حکومت کو کیا فرق پڑ جائے گا لیکن بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ لاہور سے عبدالحکیم تک موٹر وے اسی فیصد کے قریب مکمل ہے۔ اس پر مسلسل کام ہوتا رہتا تو اب سے دو ماہ پہلے یہ عوام کے لیے کھل چکا ہوتا۔ اس پر اربوں روپے لگ چکے ہیں اور پندرہ ارب مزید مل جائیں تو یہ عوام کے استعمال میں آ جائے گا۔ یہ منصوبہ بھی تحریک انصاف کی ایمانداری کی سولی پر لٹک گیا ہے۔ شرق پور سے آگے بڑی حد تک کام مکمل ہے اور لاہور سے شرقپور تک بھی موٹر وے کا بنیادی کام ہو چکا ہے‘ بس کچھ کام باقی ہے جس کی وجہ سے لاہور سے اس موٹر وے پر جانا ممکن نہیں اور یہ کام ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔ اسی طرح کہیں انٹر چینج کے لیے زمین کے مسائل ہیں، کہیں ٹول پلازہ کی عمارت بننی ہے اور کہیں ریسٹ ایریا بننے کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ ظاہر ہے اس موٹر وے کی زد میں بہت سے لوگو ں کی زمینیں بھی آئی ہیں‘ جنہیں اب تک پیسے نہیں مل پا رہے‘ جس کی وجہ سے ریسٹ ایریا میں جو زمینیں ہیں‘ ان کے مالکان پیسوں کے بغیر قبضہ نہیں دے رہے۔ پہلے تو کچھ قانونی مسائل تھے لیکن اب مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومتی پیسہ خزانے سے نکالنے کے لیے چیک پر دستخط کون کرے گا کیونکہ اعلیٰ سرکاری افسران تو نیب اور عدالت کے خوف سے کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں جبکہ وزیر اعظم صاحب کو بھی بظاہر کوئی پروا موٹروے کی ہے نہیں‘ لہٰذا یہ منصوبہ بھی خدانخواستہ برباد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ 
یہ دو منصوبے تو پاکستان بھر میں چلتے منصوبوں کے ڈھیر میں سے محض نمونے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں‘ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کاروبارِ ریاست مکمل طور پر رک چکا ہے۔ وسائل کی کمی کا رونا اپنی جگہ مگر نئی حکومت دستیاب وسائل کو بھی کہیں استعمال نہیں کر پا رہی۔ حالت یہ ہے کہ اسلام آباد کے ایک سرکاری ہسپتال میں دوائیوں کی خریداری کے لیے کمیٹی کا مرحلہ پیش آیا تو کسی ڈاکٹر نے بھی اس کمیٹی کی رکنیت کی ہامی نہیں بھری۔ جس ڈاکٹر کو کمیٹی میں شامل کیا جاتا وہ چھٹی مانگ لیتا یا سیدھے سبھاؤ انکار کر دیتا۔ جب ہسپتال کے سربراہ نے اپنا انتظامی اختیار استعمال کرنے کی دھمکی دے کر کچھ ڈاکٹروں کو اس کمیٹی میں شامل کرنا چاہا‘ تو انہوں نے اپنے استعفے پیش کر دیے۔ وجہ اس انکار کی صرف ایک تھی کہ دوائیاں خریدنے کے بعد نیب اور ایف آئی اے کے اہلکاروں کے سامنے پیش ہو کر کوئی ڈاکٹر بے عزت ہونے کو تیار نہیں تھا۔ یہ صورت اب پنجاب کے ہسپتالوں میں بھی بنتی جا رہی ہے کہ ڈاکٹر کوئی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ وجہ وہی کہ پاکستان میں پیشہ ورانہ کوتاہی، دفتری کم و بیش یا انتظامی غلطی جیسی اصطلاحیں بے معنی ہو چکی ہیں۔ یہاں ہر غلطی اب صرف ''جرم‘‘ کہلاتی ہے۔ اس جرم کی اصل سزا ملے یا نہ ملے مگر رسوائی، اذیت، خاندان کی پیہم ذلت اور قید وہ یقینی سزائیں ہیں جو صرف شک کی صورت میں تفتیش کار ادارہ ہی دے سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی عدالت کا تکلف ضروری ہے نہ قانون کی پیروی کا۔ 
حکومت کے اس طرزِ عمل کا اثر ملکی معیشت پر بھی آ رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت میں حکومت کا حصہ بیس فیصد کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں تو بظاہر یہ ملکی معیشت کا پانچواں حصہ ہے‘ لیکن جب یہ حصہ بازار میں آتا ہے تو اس کا معاشی پھیلاؤ کئی گنا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حکومت صرف ایک سڑک بناتی ہے مگر اس سڑک سے درجن بھر کاروبار براہ راست منسلک ہوتے ہیں اور اس کی تکمیل کے بعد اس علاقے میں جو تبدیلیاں آتی ہیں وہ معیشت کی نئی راہیں کھول دیتی ہیں۔ اگر حکومت اخراجات سے ہاتھ روک لے تو ملک بھر کی منڈیاں کساد بازاری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مندے کی وجہ سے ٹیکس کم اکٹھا ہوتا ہے اور حکومت کی خرچ کرنے کی صلاحیت مزید کم ہو جاتی ہیں‘ یوں ملک اس معاشی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ حکومت اپنی بے عملی سے یہی کر رہی ہے اور ہمارے بازاروں میں مندی کا رجحان نظر آنے لگا ہے۔ اس وقت ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے، بلکہ بد قسمتی یہ ہے کہ حکومت کے پاس پیسہ خرچ کرنے صلاحیت بھی مفقود نظر آ رہی ہے۔ احتساب کے شوق میں یہ حکومت اتنی آگے نکل گئی ہے کہ سرکاری کھاتوں میں پڑا پیسہ عوامی فلاح کے منصوبوں پر بھی نہیں لگا پا رہی۔ بیوروکریسی کو اس قدر خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے کہ ہر افسر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے، معیشت خراب تر ہوتی جاتی ہے اور وزرا ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ 
بیوروکریسی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرنے کے دعوے پر حکومت لینے والی تحریک انصاف کا اپنا حال یہ ہے کہ چکوال اور راجن پور کے ڈپٹی کمشنروں کو اس لیے عبرت کا نشان بنایا گیا کہ انہوں نے تحریک انصاف کے اراکینِ اسمبلی کی فرمائشیں پوری کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ ڈی پی او پاک پتن کو با رسوخ مانیکا خاندان کے در پر حاضری نہ بھرنے پر کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کے آئی جی کو وزیر اعظم نے اس لیے ہٹا دیا کہ اس نے اُس گائے کے مالک کو گرفتار نہیں کیا تھا‘ جس نے وفاقی وزیر کے فارم ہاؤس میں لگے پودوں کو منہ مار لیا تھا۔ جس ملک کا وزیر اعظم اپنے حکومت کے پہلے ستر دنوں میں ایک گائے اور ایک وزیر کے تنازع میں الجھ جائے اس سے بہت بڑی توقع تو نہیں رکھی جا سکتی‘ لیکن اس سے یہ تقاضا تو کیا جا سکتا ہے کہ جناب اب کام کر لیں۔ آپ کو کروڑوں لوگوں نے ووٹ اس لیے نہیں دیے تھے کہ آپ نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا، بلکہ اس لیے دیے تھے کہ آپ معیشت میں بہتری، آزاد بیوروکریسی اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے دعویدار تھے۔ آپ کی حکومت بن چکی۔ اب حکومت کا جشن منانا بند کریں اور مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔ یاد رکھیں کہ آپ کی حکومت صرف اٹھارہ سو پچیس دنوں کے لیے آئی ہے اور اس مدت میں سے پچھتر دن گزر چکے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved