جب کبھی ہمارے ملک میں الیکشن ہوتا ہے اور مختلف پارٹیوں کے منشور مارکیٹ میں آتے ہیں‘ تو مجھے رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہار یاد آنے لگتے ہیں۔ مجھے کچھ عرصہ ریڈیوپاکستان میں کام کرنے کا موقع ملا۔ زیادہ وقت ایوب رومانی مرحوم کے ساتھ گزرا کرتا تھا۔ وہ ریڈیو کے کمرشل سیکشن کے انچارج تھے اور ان دنوں ریڈیوپاکستان کی بہت دھوم تھی۔ مختلف مصنوعات کے اشتہارات‘ اچھے اچھے گیتوں سے مزین ہوتے۔ ان گیتوں کوجنِگل کہا جاتا۔ یہ اچھے اچھے شاعروں سے لکھوائے اور موسیقاروں سے ان کی دھنیں بنوائی جاتی تھیں۔ جو چیز وہاں میرے علم میں آئی‘ وہ تھی رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہارات۔ کچھ عرصے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ جس کریم کے اشتہار چند مہینے تک بڑی تکرار سے چلتے ہیں‘ چند ماہ کے بعد وہ اچانک غائب ہو جاتے ہیں اور پھر اگلے سال ایک نئی کریم متعارف ہوتی ہے۔ میں نے ایوب رومانی سے ذکر کیا‘ تو انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ یہ ایک بہت بڑا ٹریڈ ہے۔ شاہ عالم مارکیٹ کی ایک دو کمپنیاں ہر سال وہی کریم بناتی ہیں۔ نیا نام رکھ کر اس کی تشہیر کرتی ہیں۔ کریمیں دھڑادھڑ بکتی ہیں اور اگلے سال کریموں اور کمپنیوں کے نام بدل جاتے ہیں اور پھر ان کی تشہیر ہوتی ہے۔ اس کے دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ کریم لگانے والے دو چار ماہ اسے استعمال کرنے کے بعد رنگ گورا نہ ہونے پر کسی سے شکایت نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کمپنی غائب ہو چکی ہوتی ہے۔ دوسرے انکم ٹیکس والے ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔ ان کمپنیوں کا پتہ نہیں چلتا۔ کاروبار چلتا رہتا ہے۔ لوگ دھوکے کھاتے رہتے ہیں۔ رنگ گورا کرنے کے بڑے بڑے دعوے ہوتے ہیں۔ رنگ کسی کا گورا نہیں ہوتا۔ نفع کمانے والوں کے وارے نیارے ہوتے رہتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے منشوروں کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ جب کبھی الیکشن ہوتے ہیں۔ یہ پارٹیاں رنگ گورا کرنے والی کریموں کی طرح بڑے بڑے دعوے کر کے میدان میں اترتی ہیں۔ جس طرح کریم کے ہر اشتہار میں طرح طرح کے دلائل اور دلکش ترکیبوں کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ یہ کریم چند روز کے اندر کس طرح کالے رنگ کو گورا کر دیتی ہے۔ اسی طرح ان منشوروں میں بھی بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں کہ اگر آپ پارٹی کو ووٹ دے کر حکومت بنانے کا موقع دیں گے‘ تو آپ کی قسمت بدل دی جائے گی۔ آپ کے شہروں کو پیرس بنا دیا جائے گا۔ آپ کے دیہات یورپ کے دیہات کی طرح خوبصورت ہو جائیں گے۔ تعلیم مفت کر دی جائے گی۔ لوگ ان منشوروں کو پڑھ کے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور جس طرح بھولی بھالی لڑکیاں کریم کی ایک شیشی خرید کر رنگ گورا ہونے کے خواب دیکھنے لگتی ہیں‘ اسی طرح ووٹ دینے کے بعد عام شہری بھی اپنی زندگی بدلنے کے سپنوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے‘ میری پارٹی حکومت میں آتے ہی لوگوں پر نوکریوں کی بارش کر دے گی اور وہ پیش کی گئی نوکریوں میں سے اپنی مرضی کی نوکری چن کر عیش کرے گا۔حکومت بنتی ہے۔ پہلے 6مہینے گزرتے ہیں۔ اگلے 6مہینے گزرتے ہیں۔ اس کے بعد مہینوں کی گنتی ہانپنے لگتی ہے۔ سال گنے جانے لگتے ہیں۔ پارٹی کی حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ نوکری نہیں ملتی۔ عمر بڑھتے بڑھتے مزید پانچ سال بڑھ جاتی ہے۔ وہ بال جو گھنے سیاہ رنگ کے ہوتے تھے اور ووٹ دیتے وقت جنہیں بڑے سٹائل سے بنایا جاتا تھا‘ ان میں سفید بال نظر آنے لگتے ہیں۔ چہرے کا رنگ جس پر سرخی غالب تھی‘ زرد پڑنے لگتا ہے۔ امیدوں سے بھری اور چمکتی آنکھوں کے سامنے آنے والے خواب دھندلانے لگتے ہیں۔ دھندلاتے دھندلاتے خوابوں کے رنگ غائب ہونے لگتے ہیں۔ بیروزگاری کی اذیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس دوران کوئی آمر حکومت پر قبضہ کر کے‘ من مانیاں شروع کر دیتا ہے اور ایک پوری نسل اپنی امیدوں بھری جوانی کو رخصت کرکے‘ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہوتی ہے۔ اس کے بچے جوانی کی حدیں چھو رہے ہوتے ہیں۔ وہ اور اس کے بچے دونوں مل کے آمر کے خلاف جلوسوں میں شریک ہونے لگتے ہیں۔ جاوے ای جاوے اور آوے ای آوے کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہر نئے دن کے ساتھ خبریں ملنے لگتی ہیں کہ آمریت کی تاریک رات ختم ہونے والی ہے۔ جمہوریت بحال ہو کر رہے گی اور جمہوریت جب بحال ہو گی‘ تو غریبوں کے دن بدل جائیں گے۔ آمریت کی سیاہ رات ختم ہو جائے گی۔ عوام کے محبوب لیڈر اقتدار میں آئیں گے‘ تو ساری خرابیاں دور ہو جائیں گی۔ کاروبار چمکنے لگیں گے۔ آٹا‘ دال‘ دودھ‘ دہی‘ گھی اور چائے‘ سب سستے ہو جائیں گے۔ روٹی دو روپے میں ملا کرے گی۔ دکانوں کے کرائے آدھے رہ جائیں گے۔ ٹرانسپورٹ سستی ہو جائے گی۔ بچوں کی پڑھائی مفت ہو جائے گی۔ یہ سوچ سوچ کر باپ اپنی اولاد کے ساتھ زیادہ جوش و خروش سے جلوسوں میں شریک ہوتا ہے۔ بڑھ چڑھ کر نعرے لگاتا ہے اور پھر جب آمریت کے خاتمے کی خبر آتی ہے‘ تو وہ خوشی کے مارے پھولا نہیں سماتا۔ اپنے شہر کے لوگوں کے ساتھ مل کر بھنگڑے ڈالتا ہے۔ نعرے لگاتا ہے۔ آمریت سے نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔ پھر انتخابات کا اعلان ہوتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں پھر نئے نئے وعدوں سے مزین نئے منشور لے کر انتخابی میدان میں اترتی ہیں۔ جلسے شروع ہوتے ہیں۔ ہر پارٹی کے مقررین اپنی دلچسپ اور لچھے دار تقریروں میں آنے والے حسین دنوں کے خواب دکھاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے آنے کے بعد عوام کی زندگی کس طرح بدل جائے گی؟ نوکریاں گھروں تک پہنچائی جائیں گی۔ گدلا اور کیڑوں سے بھرا ہوا پانی ختم کر کے‘ صاف اور پاکیزہ پانی فراہم کیا جائے گا۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں تعمیر کر دی جائیں گی۔ ہر گائوں اور ہر شہر میں تعمیروترقی کا عمل شروع ہو جائے گا۔ کوئی بیروزگار نہیں رہے گا۔ پھر انتخابات کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ووٹروں کی نازبرداریاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ ہر امیدوار‘ اس کی خوشامدیں کرتا ہے۔ اس کے ساتھ اظہار محبت کرتا ہے۔ ذاتی حیثیت میں وعدے کرتا ہے کہ اس کے دونوں نوجوان بیٹوں کو بہترین ملازمتیں دی جائیں گی۔ ووٹنگ کا دن آتا ہے۔ وہ اپنے بیوی بچوں سمیت ووٹ ڈالنے جاتا ہے اور گھر واپس آنے کے بعد سارا خاندان دعائیں کرتا ہے کہ ان کی پارٹی جیت جائے۔ حکومت بنائے اور اس کے دن بدلنا شروع ہوں۔ پہلے چند روز کے انتظار میں خوشی‘ تجسس اور بیتابی ہوتی ہے۔ بچے اپنی نوکریوں کا پوچھتے ہیں۔ وہ بڑی سرشاری کے عالم میں جواب دیتا ہے ‘ اب کے اس کے دن ضرور بدل جائیں گے۔ ان کا پیار اور محبت سے چنا ہوا امیدوار جو کامیاب ہو چکا ہے۔ وہ ان کے گھر آ کر نوکریاں پیش کرے گا۔ مگر بہت سے دن گزر جاتے ہیں۔ کوئی امیدبر نہیں آتی۔ نوکریوں کی درخواستیں لکھتے لکھتے‘ تھکن غالب آنے لگتی ہیں۔ امیدیں ‘ مایوسی میں بدلنے لگتی ہیں۔ اپنا بنایا ہوا ممبر اسمبلی علاقے میں نظر آنا چھوڑ دیتا ہے۔ گھر جانے پر سامنے نہیں آتا۔ دفتر میں جانے کی کوشش کرنے پر دھکے مارے جاتے ہیں۔ سڑک پر کھڑے ہو کر روکنے کی کوشش کی جائے‘ تو گاڑی تیزرفتاری سے ان کے منہ پر خاک ڈالتے ہوئے نکل جاتی ہے۔ جمہوریت کے 5سال پھر اسی جدوجہد میں گزر جاتے ہیں۔ باپ پر بڑھاپا غالب آنے لگتا ہے اور بیٹے نوکریوں کی امیدیں چھوڑ کر روٹی کمانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ کوئی خوانچہ لگا لیتا ہے۔ کوئی مزدوری کرنے لگتا ہے اور پورے کنبے کی وہی حالت ہو جاتی ہے‘ جو رنگ گورا کرنے والی کریم خریدنے کے بعد ‘ بھولی بھالی عورتوں اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ ان کے پیسے ضائع ہو جاتے ہیں مگر رنگ گورا نہیں ہوتا‘ ووٹروں کی زندگیاں ضائع ہو جاتی ہیں مگر ان کے دن نہیں بدلتے۔ کاروبار سب کا چلتا رہتا ہے۔ منشور میں سہانے خواب دکھا کر ووٹ لینے والوں کا بھی اور رنگ گورا کرنے والی مہنگی کریمیں بیچنے والوں کا بھی۔ جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے اور طرح طرح کے منشوروں میں حسین وعدوں کے اشتہار چلنے لگتے ہیں‘ تو مجھے رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہار یاد آتے ہیں۔ آج کل انتخابات کا موسم ہے۔ حسین اور دلکش وعدوں میں غریبی اور بیروزگاری ختم کرنے کے خواب بیچے جارہے ہیں۔ رنگ گورا کرنے والی کریمیں بنانے والے‘ کالے رنگ والوں کو سہانے خواب دکھا رہے ہیں۔ نہ کسی کی بیروزگاری ختم ہوتی ہے۔ نہ کسی کا کالا رنگ گورا ہوتا ہے۔ زندگی اسی طرح چلتی رہتی ہے۔ موسم اسی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ کالے نصیبوں اور کالے رنگوں والے ‘ ناآسودہ خواہشوں کومایوسوں میں بدلتے ہوئے دیکھ کر آہیں بھرتے رہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved