تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-11-2018

نہ بدلنے کی ضِد نہیں اچّھی

مرزا تنقید بیگ کو صرف ایک بات سے غرض ہے ... یہ کہ معاملات جوں کے توں رہیں۔ اُن کی فکری ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ کوئی تبدیلی اُنہیں راس نہیں آتی۔ واقعہ یہ ہے کہ مرزا سرکاری ملازم رہے ہیں۔ کم و بیش چار عشروں تک انہوں نے سرکاری مشینری کا حصہ بنے رہنے کی صورت میں یہی سیکھا کہ جو کچھ چل رہا ہے بس چلتے رہنا چاہیے‘ یعنی تبدیلی موت کا دوسرا نام ہے! یہی سبب ہے کہ اب جبکہ نیا پاکستان اور اُس سے بھی ایک قدم آگے جاکر ‘‘نیا کراچی‘‘ معرضِ وجود میں آرہا ہے‘ تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مرزا سے کچھ بھی ہضم نہیں ہو پارہا۔ 
مرزا ایک زمانے سے ''نئی کراچی‘‘ میں سکونت پذیر ہیں۔ ''نئی‘‘ سے تاثر ملتا ہے کہ کراچی مونث ہے۔ اچھا ہے کہ اکیسویں صدی میں جہاں اور کچھ بدل رہا ہے ‘وہیں کراچی کی جنس بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ ایسے میں اگر کراچی کو ''نیا‘‘ کرکے مذکر بنایا جارہا ہے‘ تو مرزا کو معترض نہیں ہونا چاہیے! مگر صاحب‘ معترض ہونا تو اُن کی فطرت میں گوندھ دیا گیا ہے۔ اگر کسی معاملے میں اعتراض کی ذرّہ بھر گنجائش دکھائی نہ دے رہی ہو تو مرزا کو اِس بات پر اعتراض ہوتا ہے کہ اعتراض کی گنجائش کیوں نہیں چھوڑی گئی! 
کراچی میں تبدیلی کا عمل کم و بیش ایک عشرے سے جاری ہے۔ بہت کچھ تھا جو اب نہیں ہے اور بہت کچھ ایسا ہے ‘جو کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ پہلے تو سڑکیں بنائی گئیں‘ پھر پُل اور فلائی اوور تعمیر ہوئے۔ اس کے بعد شہر کی ''صفائی‘‘ شروع ہوئی ‘یعنی تجاوزات ہٹانے کا موسم آیا۔ متعدد علاقے ایسے ہیں‘ جن کی بھرپور ''صفائی‘‘ کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں شہر کی حالت کچھ بہتر ہوئی ہے‘ چہرہ ذرا نکھر کر سامنے آیا ہے۔ ''بیوٹیفکیشن‘‘ کے نام پر چند ہزار پورے لگائے گئے ہیں۔ بات ابھی پوری طرح بنی نہیں ہے ‘مگر خیر یہ بھی کیا کم ہے کہ کچھ ہلچل تو ہو رہی ہے۔ حرکت خواہ کسی درجے میں ہو‘ جمود سے تو بہر طور بہتر ہے۔ 
جب کبھی شہر کو نیا رنگ‘ روپ دینے کی بات آئی ہے ہم نے مرزا کو ہمیشہ شکوہ سنج اور گریہ کُناں پایا ہے۔ وہ کسی بھی تبدیلی کو برداشت تو کیا کریں گے‘ تبدیلی کا ذکر سُننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ٹھیٹھ سرکاری ملازم کی ذہنیت اُن کی کھوپڑی میں سمائی ہوئی ہے۔ اُن کا مزاج دفتری ماحول جیسا ہوگیا ہے ‘جہاں فائلیں برسوں‘ بلکہ عشروں پھنسی رہتی ہیں۔ بہت سی باتیں مرزا کی کھوپڑی میں پھنسی ہوئی ہیں۔ تبدیلی کو قبول نہ کرنا اور اُس کی روک تھام کا اہتمام بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب بھی اُنہیں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی سطح پر کوئی تبدیلی رونما ہو رہی ہے وہ لٹھ لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور جہاں تک راستہ روکا جاسکتا ہے ‘روکتے ہیں۔ 
اگر بھابی کبھی کہہ دیں کہ بیٹھک کا فرنیچر بدل دو ‘تو مرزا ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔ یہ فرنیچر اب قبل مسیح کا معلوم ہوتا ہے‘ مگر مرزا کو عزیز ہے‘ اس لیے وہ راستے میں دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اہلِ خانہ کچھ دن سَر پھوڑتے ہیں‘ پھر عاجز آکر اپنی راہ لیتے ہیں۔ 
کراچی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بھی مرزا بہت پریشان اور دل برداشتہ ہیں۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تبدیلیوں کی راہ کیسے مسدود کی جائے۔ زمانہ اپنی چال چل رہا ہے۔ ایسے میں مرزا اور اِس قبیل کے دوسرے لوگوں کے لیے کچھ کرنے کی گنجائش کم رہ گئی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں چورنگیوں کی بھرمار تھی۔ شہر بھر میں چورنگیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ یہ چورنگیاں شہر کا حُسن بھی تھیں‘ کیونکہ ان کے توسط سے فراخی اور وسعت کا احساس ہوتا تھا‘ پھر جب ٹریفک کا معاملہ پیچیدہ ہوا تو شہر کی سڑکوں میں تنگی دکھائی دینے لگی۔ یہ تنگی ختم کرنے کے لیے چورنگیاں ختم کرنا لازم ہوگیا۔ مرزا کے لیے یہ تصور ہی سوہانِ روح تھا کہ جن چورنگیوں کو وہ پانچ عشروں سے دیکھتے آئے ہیں ‘وہ اب دکھائی نہ دیں۔ ابتدائی مرحلے میں تو اُن کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ کیا کریں‘ کیا نہ کریں۔ 
پھر یہ ہوا کہ تجاوزات ختم کی جانے لگیں۔ اس کے نتیجے میں نہاری اور قورمے کے ایسے کئی ہوٹل جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جہاں مرزا مزے لے لے کر پیٹ بھرا کرتے تھے۔ ان ہوٹلوں کے کھانوں کا چٹخارا مرزا کے منہ کو لگا ہوا تھا۔ اس چٹخارے سے محروم ہونے کا خیال بھی مرزا کے لیے دل و جاں پر قیامت کے ٹوٹ پڑنے سے کم نہ تھا۔ نئی کراچی میں جب تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع ہوا‘ تو مرزا کی جان پر بن آئی‘ کیونکہ نالوں پر بنی ہوئی سیکڑوں دکانیں‘ وہ پانچ عشروں سے دیکھتے ہی نہیں آئے تھے‘ بلکہ ان سے خریداری بھی کرتے رہے تھے۔ جب انسدادِ تجاوزات کی جھاڑو پِھری تو منظر ہی تبدیل ہوگیا۔ مرزا وہ تمام دکانیں ڈھونڈتے ہی رہ گئے‘ جو ایک زمانے سے اُن کی نفسی ساخت کا حصہ تھیں۔ نظر میں بسی ہوئی دکانوں اور ہوٹلوں سے محرومی مرزا کے لیے اچھا خاصا دردِ سر ثابت ہوئی اور اُن کی طبیعت خاصی طویل مدت تک مکدّر رہی۔ 
کراچی کا حلیہ تبدیل کرنے کا عمل اب تیز تر ہوگیا ہے۔ لوگ ابھی سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ کیا تبدیل ہوا ہے کہ مزید بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ مرزا کی بے چینی بڑھتی جاتی ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنے اطراف بدلتے ہوئے ماحول سے مطابقت کس طور پیدا کریں۔ گلی میں کوئی مکان گراکر نئی عمارت کھڑی کی جائے‘ تب بھی انسان مضطرب ہوتا ہی ہے۔ 
جو حال مرزا کا ہے‘ وہی کراچی میں اُن کی سی فکری ساخت کے حامل دیگر لاکھوں افراد کا بھی ہے۔ بدلتا شہر اُن کے لیے سوہانِ روح ہوتا جارہا ہے‘ مگر خیر یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ تبدیلیاں آتی ہیں اور لوگ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ دل چاہے کہ نہ چاہے‘ یہ کڑوی گولی نگلنا ہی پڑتی ہے۔ 
کراچی میں اب بھی ایسے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے‘ جنہوں نے تبدیلی کا عمل قبول نہیں کیا اور کسی نہ کسی درجے میں مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تبدیلی کے عمل میں چند ایک ایسی چیزیں بھی رونما ہوئی ہیں‘ جو طبیعت کو مکدّر کردیتی ہیں‘ تاہم دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے ‘جو اجتماعی مفاد میں ہے۔ بہت کچھ ہے جو اب ''چینلائز‘‘ ہو رہا ہے۔ لوگوں کو اب تک کچرا ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے کی عادت نہیں۔ انتظامی مشینری سر توڑ کوشش کرلے تب بھی یہ معاملہ آسان نہیں ہو پاتا۔ ٹریفک کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ متعلقہ قواعد پر سختی سے عمل کرنے والے اب بھی خال خال ہیں۔ 
ملک کے دیگر شہروں کی طرف کراچی بھی تیزی سے بدل رہا ہے۔ ایسے میں ہر مرزا تنقید بیگ کو یادوں کی بُھول بُھلیّوں سے باہر آکر حقیقت کی دنیا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ ماحول بدل جائے اور آپ تبدیل ہوئے بغیر نئی زندگی کے مزے لیں۔ وقت کے ساتھ تبدیل ہونے سے انکار کرنے والے بالآخر بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کراچی کے ہر مرزا تنقید بیگ کو بھرپور ذہنی یا نفسی تیاری کے ساتھ نیا‘ بدلا ہوا شہر قبول کرنا پڑے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved