تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-11-2018

سرخیاں، متن اور شعر و شاعری

این آر او مانگنا ثابت ہو جائے‘ تو سیاست چھوڑ دوں گا: شہباز شریف
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''این آر او مانگنا ثابت ہو جائے‘ تو سیاست چھوڑ دوں گا‘‘ کیونکہ مقدمات اور انکوائریوں کی جو بھرمار اور ریل پیل ہے‘ اُن کے پیش نظر تو سیاست ویسے ہی ہمیشہ کے لیے چھٹتی نظر آتی ہے‘ اس لیے کہنے میں کیا ہرج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں این آر او پر لعنت بھیجتا ہوں‘‘ کیونکہ جو چیز اتنی کوششوں کے باوجود حاصل نہ ہو رہی ہو‘ اس پر لعنت بھیجنے کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تحریک انصاف کی حکومت کو من مانی نہیں کرنے دیں گے‘‘ کیونکہ ہم من مانی کرتے رہے‘ جس کے نتائج بھگت رہے ہیں‘ اس لیے حکومت کو کم از کم ہم سے ہی عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم کے اتحادیوں کو ہم نے نہیں‘ وزیراعظم نے این آر او دیا‘‘ اور اگر وہ اپنے اتحادیوں کو این آر او دے سکتے ہیں تو ہمیں کیوں نہیں۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔
مریم نواز کی خاموشی حکمت عملی کے ماتحت ہے: پرویز رشید
ن لیگ کے رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''مریم نواز کی خاموشی حکمت عملی کے تحت ہے‘‘ کیونکہ ایک طرف این آر او کی بات چل رہی ہو اور دوسری طرف مریم نواز حسب ِ معمول تندو تیز بیانات دے رہی ہوں ‘تو خاموشی سے بہتر حکمت عملی اور کیا ہو سکتی ہے‘ جبکہ اسی حکمت عملی کے تحت ہمارے قائد نے بھی جی ٹی روڈ والے بیانیہ سے توبہ کر لی ہے اور نہ عدلیہ کے خلاف کچھ کہہ رہے ہیں اور نہ ہی فوج کے لتّے لے رہے ہیں اور زندگی میں پہلی بار انہوں نے عقلمندی سے کام لینے کا مظاہرہ کیا ہے‘ جس سے جملہ پارٹی ارکان نے سُکھ کا سانس لیا ہے اور اسی طرح مستقبل کی وزیراعظم جو ایک بار تو اپنا کام بگاڑ بیٹھی ہیں اور مزید بگاڑنا نہیں چاہتیں‘ جبکہ ان کا میڈیا سیل بھی کافی آرام سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیر اطلاعات خود ہی ہمارا کام کر رہے ہیں‘‘ اور بار بار این آر او کا ذکر کر کر کے اس معاملے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ‘تاکہ حکومت اسے فراموش ہی نہ کر دے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔
شیخ رشید کی باتوں کا جواب اسمبلی میں دوں گا: سعد رفیق
سابق وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''شیخ رشید کی باتوں کا جواب اسمبلی میں دوں گا‘‘ کیونکہ انکوائریوں کی جو بھرمار ہو رہی ہے‘ جب یہ اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گی‘ تو اسمبلی والا تو رولا ہی ختم ہو جائے گا‘ اس لیے کوشش یہی ہے کہ جب تک اس کا رُکن ہوں تب تک تو اس کا استعمال کرتا ہی رہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''کراچی کی طرح میں بھی لاہور میں ٹرین چلا سکتا تھا‘‘ لیکن پہلے میٹرو اور پھر اورنج ٹرین منصوبہ کی وجہ سے میری دال نہیں گلنے دی گئی‘ کیونکہ ہمارے قائدین اپنی دال گلوانا چاہتے تھے؛ اگرچہ اس میں کچھ کالا کالا بھی تھا‘ بلکہ ساری دال ہی کالی ہو گئی تھی‘ اس لیے میرے ٹھوٹھے پر ڈانگ مارتے ہوئے اُن مہربانوں نے اپنے دونوں منصوبے مکمل کرنے اور خدمت کی بھی ریل پیل ہو گئی اور مجھے مہنگے انجنوں کی خریداری اور ہاؤسنگ سوسائٹی پر ہی اکتفاء کرنا پڑی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کیلئے چھ ماہ بہت ہیں‘ یہ تین ماہ میں گر جائے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کے لیے چھ ماہ بہت ہیں‘ یہ تین ماہ میں ہی گر جائے گی‘‘ اگرچہ پہلے تو میں اور میری اے پی سی ہی مُنہ کے بل گرے ہیں‘ جبکہ زرداری صاحب نے تو حکومت کو تعاون کی پیشکش کر کے کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا ہے‘ جسے بھی مجھے ہی کنوئیں سے نکالنا پڑے گا ‘ جبکہ صاحبِ موصوف مجھ سے کچھ کہتے رہے اور اسمبلی میں آ کر پینترا ہی بدل لیا؛ حالانکہ میرے روزگار کا مسئلہ بھی حل ہونے کے قریب ہی پہنچ چکا تھا کہ اُلٹا لینے کے دینے پڑ گئے ہیں ‘بلکہ اپوزیشن پارٹیاں ن لیگ سمیت اے پی سی میری صدارت میں ہونے پر بھی متفق نہیں ہیں؛ حالانکہ بھاگ بھاگ کر میرے گردوں پر بھی بہت بُرا اثر پڑا ہے۔ آپ کراچی میں ایک ٹی وی شو میں شریک تھے۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری:
جو دیکھنا چاہتے نہیں ہیں مجھ کو
اُنہیں مسلسل دکھائی دیتا ہوں میں
تمام رستے جہاں جا کے ختم ہوتے ہیں
اُسی مقام سے اک راستا نکلتا ہے
جو برتن میں کبھی ڈالا ہی نہیں ہوتا
وہ برتن سے کیسے نکالا جا سکتا ہے (ضمیر طالب)
جیسی ہے جا‘ سہا نہیں جاتا
مجھ سے مجھ میں رہا نہیں جاتا
جو یہ آباد ہوں تیرے بغیر
تیرا مجرم ہوں‘ مجھے مصلوب کر
وہ اپنے حصے کا تارا اُتارنے کے لیے
زمیں پہ آسمان سارا گرا دے‘ ممکن ہے
خواب آنکھوں میں مر گیا تنہا
آنکھ سے آنکھ مل کے روتی ہے
وقت آتا ہے‘ مرے گزرے ہوئے لمحوں سے
روز آتا ہے‘ چراتا ہے‘ نکل جاتا ہے
کمال شخص تھا وہ‘ مجھ سے اس طرح ہارا
کہ میں اکیلا کھڑا تھا‘ ہجوم اُس کے گرد
ایک بکھری ہوئی سی لڑکی ہے
مجھ سے مل لے تو نظم ہو جائے (نعیم ضرار)
کچھ نے آنکھیں‘ کچھ نے چہرہ دیکھا ہے
سب نے مجھ کو تھوڑا تھوڑا دیکھا ہے (توصیف تابش)
آج کا مطلع
احساں نہیں کرتا جو گزارے کے علاوہ
وہ بھی کسی مبہم سے اشارے کے علاوہ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved