تحریر : حسن نثار تاریخ اشاعت     10-04-2013

تصویریں ہی رہ جاتی ہیں

یہ کیسا ’’نگرانیہ‘‘ ہے جو چمچہ گیری کی آخری حد پر کھڑا ہو کر ن لیگ کی انتخابی مہم چلا رہا ہے۔ میرا اشارہ وفاقی وزیر داخلہ کی طرف ہے جو ہر شے بالائے طاق رکھ کر ن لیگی قیادت کا قصیدہ پڑھ رہا ہے اور سرعام ن لیگی ووٹر ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ یہ ’’نگران‘‘ ہے یا ن لیگ کا نگہبان‘ باغبان یا قصیدہ خوان؟ اس نگرانیے کے اس بے تکے رویے کا نوٹس صدر زرداری کو لینا چاہیے؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو؟ چیف الیکشن کمشنر کو یا اس ملک کے عوام کو؟ دوسری اہم بات یہ کہ جمشید دستی جیسے بے دست و پا غریب غربا جھوٹوں پر تو نظام کا ’’دستِ شفقت‘‘ صاف دکھائی دے رہا ہے لیکن ٹیکس چور کتنے پکڑے؟ نادہندے اور درندے کتنے گھیرے؟ یہ ملک اور اس کے مظلوم محروم عوام کب تک ’’سٹے‘‘ پر سسکتے رہیں گے اور ہم جیسے کب تک اس پر محو ماتم رہیں گے کہ چھوٹی موٹی مچھلیوں کا شکار کب تک؟ مگرمچھوں کا شکار کب شروع ہوگا؟ گیدڑ اور بکریاں نہیں عوام کو آدم خور شیروں کے لیے کسی کینتھ اینڈرسن اور جم کاربٹ کا انتظار ہے اور کمال دیکھو کہ ’’جم کاربٹ‘‘ میں بھی ’’بٹ‘‘ موجود ہے۔ تیسری تمہید کے بعد کالم شروع کروں گا اور تیسری تمہید یہ ہے کہ الیکشن کے آگے مسلسل اک سوالیہ نشان کیوں ہے؟ سب سے اہم بات پیپلز پارٹی کی خاموشی اور ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ ہے جیسے ملک کی اس سب سے اہم اور بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کو یہ یقین ہو کہ اول… الیکشن ہونے ہی نہیں اور ہو بھی گئے تو نہ ہونے جیسے ہوں گے۔ دوسری بات ہے ریٹرننگ افسروں کا رویہ جس کے بارے‘ میں نے شروع میں لکھا تھا کہ یوں لگتا ہے جیسے یہ حضرات پورے الیکشن پراسیس کو جگتیں مار رہے ہیں۔ تیسری وجہ ہے نجم سیٹھی جیسے پڑھے لکھے سمجھدار سیانے آدمی کی کوئلوں کی دلالی میں دلچسپی… کیا کوئی سیانا آدمی چند ہفتوں کے لیے وزارتِ اعلیٰ کے اس گند میں پڑے گا؟ یہ درست ہے کہ نجم نے رضاکارانہ طور پر یہ بیان دیا کہ اگر الیکشن ملتوی کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ مستعفی ہو جائے گا تو کیا ایسی ہی بات کو چور کی داڑھی میں تنکا نہیں کہتے؟ نجم تیز طرار اور اندرونی بیرونی پی آر کا ماہر بیحد معاملہ فہم آدمی ہے اور میری سمجھ سے باہر ہے کہ اس نے کس خوشی میں نظام سقہ بننا قبول کیا؟ معاملہ دو تین سال تک چلنا ہو تو قابلِ فہم ہے… ویکھی جا مولا دے رنگ! چوتھی اہم بات قائدِ تحریک الطاف حسین اور قائدِ تبدیلی عمران خان کے اشارے کہ الیکشن کے لیے کچھ اور وقت مل جاتا تو بہتر تھا۔ پانچویں ’’فکر مندی‘‘ کا تعلق براہِ راست الیکشن کمیشن سے ہے جس نے انتہائی بھولپن کے ساتھ یہ جملہ لڑھکا دیا ہے کہ ’’سکروٹنی‘‘ کا عمل الیکشن کے بعد بھی جاری رہے گا اور منتخب لوگ بھی ناک آئوٹ ہو سکتے ہیں۔ پھر مشرف پر مقدمہ بھی مذاق نہیں کہ اسے بھی منطقی انجام تک جانا ہوگا تو ’’منطق‘‘ کس کی ہوگی؟ اہم ترین بات وہ سوال جو عوام میں زبان زد عام ہو رہے ہیں کہ یار لوگ امیدواروں سے بیویوں کی تعداد تو پوچھ رہے ہیں لیکن فیکٹریوں اور قرضوں کے بارے میں بات نہیں ہو رہی… صرف گردنیں پکڑی جا رہی ہیں ’’گاٹے‘‘ ناپنے کا کام کون اور کب کرے گا؟ الیکشن کے بارے مجھے تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ’’مل بھی گیا تو پھر کیا ہوگا لاکھوں ملتے دیکھے ہیں‘ پھول بھی کھلتے دیکھے ہیں‘‘۔ اصلی بات یہ کہ اگر الیکشن کے متعلق خوبصورت ’’خطرے‘‘ اور خدشے‘‘ صحیح ثابت ہوئے تو میں منصوبہ سازوں کے ہاتھوں پر بیعت کر لوں گا کہ سارا معاملہ اس شعر جیسا ہو رہا ہے ؎ مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیے کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا قارئین! وعدہ تو کیا تھا کہ تین تمہیدوں کے بعد اصل موضوع کی طرف بڑھوں گا لیکن معاف کیجیے دو مزید ’’تمہیدیں‘‘ سامنے آ گئی ہیں۔ اول یہ کہ الیکشن کمیشن بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت دینے کی مخالفت کر رہا ہے تو ایسا کیوں؟ خاص طور پر ان حالات میں جبکہ 90 فیصد بیرون ملک پاکستانی پی ٹی آئی کا ووٹر ہے تو کیا یہ کسی گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کی کوشش یا سازش ہے؟ یہ خبر پڑھنے کے بعد عوام کا ردِعمل کچھ ایسا ہی ہے۔ آخری تمہید کا تعلق شہباز شریف کے اس بیان سے ہے کہ… ’’صرف پنجاب میں تبادلے سمجھ سے باہر ہیں‘‘ جبکہ میری ذاتی سمجھ سے یہ بات بھی باہر ہے کہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سے سکیورٹی واپس لے لی گئی تو پنجاب میں کیوں نہیں؟ اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ… ’’تصویریں ہی رہ جاتی ہیں‘‘ تو ہوا یوں کہ 4 اپریل کا ایک اخباری سپیشل سپلیمنٹ اچانک سامنے آ گیا جس نے مجھ پر سکتہ سا طاری کردیا۔ اس سپلیمنٹ کا تعلق بھٹو کی پھانسی کے ساتھ ہے۔ ایک تصویر میں مقبول ترین بھٹو پورے طمطراق سے عوام کے ساتھ خطاب کر رہا ہے۔ دوسری تصویر میں بھٹو اپنی بیگم اور تمام بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی کسی پہاڑی مقام پر زندگی سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو رہا ہے یعنی ایک پرفیکٹ فیملی فوٹو گراف۔ تیسری تصویر میں باوردی آرمی چیف جنرل ضیاء الحق رکوع کی سی حالت میں جھک کر وزیراعظم بھٹو سے مصافحہ کا اعزاز حاصل کر رہا ہے‘ دندیاں نکال رہا ہے۔ چوتھی تصویر میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو پولیس اہلکاروں کے نرغے میں بطور ملزم‘ لاہور ہائی کورٹ سے باہر آ رہا ہے۔ پانچویں تصویر میں بھٹو کا جسد خاکی اک معمولی سی چارپائی پر پڑا ہے۔ نماز جنازہ ادا کی جا رہی ہے اور جنازہ گنتی کے چند لوگوں پر مشتمل ہے۔ گڑھی خدا بخش والے کو خدا بخشے کہ چمکا اور بجھ گیا۔ رہے نام اللہ کا کہ باقی… ’’تصویریں ہی رہ جاتی ہیں‘‘ عظیم بھٹو فیملی ’’تصویر‘‘ بن چکی‘ سیاسی جاگیر زرداریوں کو منتقل ہو چکی تو میں سوچتا ہوں کہ کیا ہمارے موجودہ سیاسی قائدین میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو ان پانچ تصویروں میں چھپی تحریریں پڑھ سکے؟ جو یہ نہیں پڑھ سکتے‘ نوشتۂ دیوار کیسے پڑھیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved