تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-11-2018

آپ کے دس سال اورکشمیر

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف جب کشمیریوں کی حالت ِزار اور بھارتی فو ج کے ہاتھوں ان پر کئے جانے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے ‘تحریک انصاف کی حکومت سے اپیل کر رہے تھے کہ کشمیر کے مسئلے پر وہ دنیا بھر کے لیڈروں سے رابطہ کریں‘ پاکستان سے سرکاری اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل وفود دنیا بھر میں بھیجیں‘ تاکہ عالمی رائے عامہ کو کشمیر پر اپنا موقف واضح کرنے کیلئے متحرک کیاجا سکے ‘تو ان کی یہ باتیں سنتے ہوئے‘ میں سوچنے لگا کہ شاید انہیں پورا یقین ہے کہ یہ پاکستانی قوم ابھی تک بدھو ہی ہے اور وہ ان کے اصل چہرے کو نہیں پہچانتی ہے۔ ان کی تقریر سنتے ہوئے کئی بارہنسی بھی آئی کہ کل تک کشمیریوں کی چیخیں سننے کی بجائے سجن جندال کے لوہے کی تعریفیں کرنے والوں کے دل میں آج کشمیریوں کایہ درد کہاں سے پیدا ہو گیا ؟ اور میاںشہباز شریف‘ آج یہ کہانیاں اور نوحے کس لئے اور کس کو سنا رہے ہیں‘ تو اس وقت مجھے لگا کہ مقبوضہ کشمیر کی وادیوں میں جگہ جگہ بکھری ہوئی قبروں کی طویل قطاروں سے یک زبان ہو کر ان کی پاک روحیں احتجاج کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں: میرے قتل کے بعد اس نے کی جفا سے توبہ !
جب مائیک ایک پیشہ ور اور مفاد پرست سیا ستدان کے سامنے ہو اور وہ یہ جانتا ہو کہ اس وقت اسے پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھایا جا رہا ہے۔ اس کی کہی جانے والی لچھے دار باتوں کو دنیا بھر میں سنا جا رہا ہے‘ تو پھر ڈرامے بازی اور جعلی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے وہ ہر وہ بات کہنے لگتا ہے‘ جو اس کے دل کی آواز نہیں ہوتی‘ جو اس کے ضمیر کی آواز نہیں ہوتی ۔ اس کا ایسی باتیں کہنے کو دل کرنے لگتا ہے‘ جس کی زبان تو اجازت دیتی ہے‘ لیکن یہ جانتے ہوئے کہ اس کی سوچ اور خواہش اس کی زبان سے مطا بقت نہیں رکھتی‘ اس کے با وجود وہ اپنے نمبر بنانے کیلئے جو چاہتاہے ‘براہ راست ٹیلی کاسٹ ہونے کی وجہ سے زبان سے فر فر نکالنا شروع ہو جاتا ہے۔ ان کو بعد میں اپنے کہے پر کچھ پشیمانی اور ندامت بھی ہوتی ہے کہ وہ یہ سب کچھ کہہ تو رہا ہے‘ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ کشمیریوں کا ذکر کرنے سے میرے بھائی کا یار اور جاتی امرا کا مہمان ناراض ہی نہ ہو گیا ہو؟لیکن پھر یہ سوچ کر میاںشہباز شریف کو تسلی ہو گئی ہو گی کہ اصل بات تو وہ ہوتی ہے کہ جب اختیار آپ کے پاس ہو‘ اس وقت کی جائے ۔ اپوزیشن میں تو سیا ست کرنے کیلئے ‘اورعوام کو بیوقوف بنانے کیلئے اور اپنے دوست کو خوش کرنے کیلئے ‘یہ حربے ہم 1985ء سے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف‘ آپ اور آپ کے محترم بھائی میاں نواز شریف دس سال تک اس ملک اور اس کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے طاقتور ترین حکمران رہے۔ اس دوران کشمیر یوں پر وہ مظالم ڈھائے جاتے رہے کہ ایک دنیا چیخ اٹھی‘ لیکن نہ روئے تو آپ نہیں روئے ۔ آپ کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ ٹپک سکا ۔ مقبوضہ کشمیر کے بچوں اور سکولوں کے نو جوان لڑکوں پر بھارتی فوج پیلٹ گنوں سے فائرنگ کی بارش کرتی رہی‘ سینکڑوں نو نہالوں کے چہرے ا ور آنکھیں ‘ان پیلٹ گنوں کے چھروں سے لہو لہان ہوتے رہے اور54 بچوں کی آنکھیں ان کا نور عمر بھر کیلئے ان سے بھارتی فوج نے چھن لیا‘ وہ آزادی کی خاطر اندھے ہو گئے‘ ان کے لبوں پر ایک ہی نعرہ تھا: لے کر رہیں گے آزادی اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں ان کی آنکھوں اور چہروں سے بہتے ہوئے سر خ لہو نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پاکستان کے سبز ہلالی پرچموں کو جوان خون سے رنگتے ہوئے‘ آپ کو‘ اور آپ کے بھائی کو‘ جو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم تھے‘ فریاد کرتے ہوئے کہا '' دیکھو ہم نے اپنی زندگی بھر کا نور قربان کر دیا‘ ہم اب زندگی بھر کشمیر کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکیں گے‘ ہم سے دنیا بھر کی رنگینیاں اپنے اندر سمونے کی طاقت چھین لی گئی ‘ہمارا مستقبل تباہ ہو چکا ‘ تم اس وقت پاکستان کے حکمران ہو‘ ہمارے لئے دنیا کے ہر گوشے میں آواز اٹھائو‘ بھارتی حکمرانوں اور ظالم ترین نریندر مودی کے چہرے سے امن کا نقاب نوچ کر اس کا اصل چہرہ دنیا بھر کو دکھائو‘ تاکہ عالمی رائے عامہ آپ کی اس آواز سے پاکستان بھر میں سرکاری تعاون سے کئے جانے والے پر ُامن احتجاج سے شاید دنیا کا (آپ کی طرح سویا ہوا) ضمیر جاگ جائے ۔ کشمیر کی بیٹیاں اور نوجوان بیٹے فریاد کر رہے تھے کہ میاںنواز شریف‘ آپ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں‘ ہماری زندگیاں تو پاکستان کیلئے تباہ ہو گئیں‘ لیکن ہمارے بعد پیدا ہونے والے بچے اور ابھی اپنی مائوں کی گودوں اور اور ان کے آنگنوں میں کھیلنے والے معصوم نونہالوں کو چند سال بعد ہماری طرح کشمیر کی آزادی کیلئے اپنے حق رائے دہی کی آواز اٹھانے کیلئے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہوئے قصاب کی فطرت والے بھارتی فوجیوں کی سنگینوں اور پیلٹ گنوں کی فائر نگ سے بچا لو ۔ایسا نہ ہو کہ ہمارے بعد نے والے بچے جب آزادی کیلئے ظلم او رجبر کے سامنے آئیں تو ان پر بھارتی فوج کی پیلت گنوں اور مشین گنوں سے برسائے جانے والے سینکڑوں چھروں اور گولیوں سے ان کی آنکھیں بھی نہ چھننی ہو جائیں ۔وہ بھی مقبوضہ کشمیر کے اونچے نیچے رستوں پر ہماری طرح زندگی بھر کہیں آتے جاتے ہوئے‘ آنکھوں کا نور چھن جانے سے ٹھوکریں نہ کھاتے پھرے۔
میاں شہباز شریف‘ آپ کی آنکھوں کے سامنے بھارتی فوج کی نیوی کا کمانڈر کلبھوشن یادیو گرفتار کیا گیا۔ اس کے جرائم اس قدر بھیانک تھے کہ جس نے بھی سنا ‘وہ چیخ اٹھا۔وہ لوگ جو کلبھوشن یادیو کی تفتیش کر رہے تھے‘ ان کے سامنے جب بھارت کی بدنام زمانہ تنظیمRAW کے اس کمانڈر نے پاکستان کے اندر اپنے بھیانک ترین جرائم کا ایک ایک کرتے ہوئے اقرار شروع کیا‘ تو اس کے اعترافی بیانات کی ویڈیو بنانے ولاے اور وہاں موجود سننے والے افسران کی آنکھوں سے بے سا ختہ آنسو نکل پڑے۔ کلبھوشن نے بلوچستان‘ اندرون سندھ اور کراچی میں پاکستان کے بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین کے قتل و غارت گری کی وہ تفصیلات بتائیں کہ کلیجے منہ کو آ گئے ‘لیکن آپ اور آپ کے بھائی نواز شریف‘ جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم تھے‘ دونوں کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ تک نہ ٹپکا۔آج آپ بھارتی مظالم کی قومی اسمبلی کے ایوان میں اس لئے داستانیں سنا رہے ہیں کہ آپ کو سستی شہرت چاہئے‘ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ عوام کو بیوقوف بنانے کا آپ کے پاس جو پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے‘ اس کی سہولت آپ کو تحریک انصاف کی جانب سے پی ٹی وی کو آزادی دینے سے میسر آ رہی ہے‘ ورنہ کہاں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور کہاں خاندان ِجاتی امرائ...!
میاں شہباز شریف ‘جب آپ قومی اسمبلی کی کارروائی براہ راست دکھانے کی وجہ سے سیا ست کرتے ہوئے کشمیر کا ذکر کر رہے تھے‘ تو اس وقت کیا‘ وہ وقت ‘وہ لمحہ بھول گئے تھے‘ جب آپ کے قائد میاں نواز شریف‘2016ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے نیو یارک پہنچے اور پاکستان کے ایک دو '' نوازے چینل‘‘ چھوڑ کر پورا میڈیا آپ سے بار بار اپیل کر رہا تھا کہ کلبھوشن یادو اورکشمیر کا اپنی تقریر میں ذکر کریں‘ لیکن آپ سب کی زبانیں نریندر مودی کے پیا اور محبت کی وجہ سے خاموش رہیںاور عمران خان کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی ایک مہینہ ہی گزرا ہے کہ اب قومی اسمبلی کے اجلاس میں کلبھوشن کے کرتوت اور مظالم بتا رہے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فو ج کے مظالم کا ذکر کر رہے ہیں۔کیایہ ہے آپ کی پاکستان اور کشمیر سے محبت؟؟ ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved