تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-11-2018

بات تو اچھی کی جائے !

عوام ویسے ہی ہوتے ہیں‘ جیسے ان کے حکمران ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کا اعتماد عوام کو بھی بھرپور اعتماد سے سرشار کردیتا ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے دکھائی جانے والی کمزوری عوام کو بھی کھوکھلا کرنے لگتی ہے۔ وزیر اعظم نے چند روز قبل ''مڈل ایسٹرن آئی‘‘ سے انٹرویو میں جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش نہیں تھا۔ اِس انٹرویو میں عمران خان نے جو الفاظ استعمال کیے وہ بھی سوچنے پر مجبور کرنے والے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جمال خشوگی کا معاملہ بھی بہت حساس ہے‘ مگر سعودی عرب میں سرمایہ کاری سے متعلق کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ‘کیونکہ پاکستان قرضوں کیلئے بہت ''پریشان ‘‘ ہے! اور یہ کہ بیرونی قرضوں پر سُود ادا کرنے کے حوالے سے معیشت پر غیر معمولی بوجھ ہے ‘جسے کم کرنے کی خاطر مزید قرضے لینے ہی پڑیں گے۔ 
وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ''کسی بھی سمت سے آنے والا سرمایہ کاری اور قرضے کے حصول کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کیا جاسکتا ‘کیونکہ پاکستان کے 21 کروڑ باشندے اس وقت قرضوں کے حوالے سے بدترین بحران سے گزر رہے ہیں؛ اگر آئی ایم ایف یا دوست ممالک سے قرضے نہ ملے‘ تو ہم دو ماہ کے بعد اس قابل بھی نہ ہوں گے کہ قرضوں پر سود اور درآمدات کی ادائیگی کرسکیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم 'ڈیزپریٹ‘ ہیں۔‘‘ 
وزیر اعظم نے انٹرویو کے دوران پاکستان کی موجودہ معاشی کیفیت کو بیان کرنے کیلئے انگریزی کا لفظ desperate استعمال کیا تھا۔ یہ لفظ ''پریشان‘‘ اور ''بدحواس‘‘ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ جو کچھ وزیر اعظم اپنے بیشتر انٹرویوز میں کہتے آئے ہیں‘ اُس کا تجزیہ تو ہوتا رہے گا‘ پہلے مرحلے میں اس حقیقت کو تسلیم کرلینا لازم ہے کہ قومی معیشت سخت کسمپرسی کے عالم میں ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 18 ارب ڈالر سے زائد ہوچکا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر رواں ماہ 8 ارب 10 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں ‘جو چار سال کی پست ترین سطح ہے۔ بیرونی قرضوں کا سُود اور اصل کا جُز ادا کرنے کے لیے بھی اس وقت قومی خزانے میں سکت برائے نام بچی ہے۔ 
تحریکِ انصاف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت نے آتے ہی کہہ دیا تھا کہ ملک کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا لازم ہے۔ پانچ سال میں یہ دوسرا بیل آؤٹ پیکیج ہوگا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بات جیسے ہی وفاقی وزراء کی زبان پر آئی‘ امریکا نے رنگ دکھانا شروع کردیا۔ آئی ایم ایف پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا ‘جس کے نتیجے میں بیل آؤٹ پیکیج پر باضابطہ بات چیت شروع کیے جانے سے بہت پہلے ہی آئی ایم ایف کے حکام نے شرائط بیان کرنا شروع کردیا۔ پاکستان کے لیے کسی نئے بیل آؤٹ پیکیج کے حوالے سے بات چیت سے قبل آئی ایم ایف کے حکام اب تک جو کچھ کہہ چکے ہیں اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیا بیل آؤٹ پیکیج دیا جائے گا تب اہلِ پاکستان پر کیا گزرے گی۔ 
آئی ایم ایف کے وفد نے حال ہی میں اسلام آباد کے دورے میں نئے بیل آؤٹ پیکیج پر ابتدائی نوعیت کی مشاورت کے دوران نیپرا کے صدر دفتر کا دورہ بھی کیا۔ اس دورے سے اہلِ وطن نے اندازہ لگالیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ارادے نیک نہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھاکر ہی وصولی کا پروگرام بنایا جارہا ہے‘ یعنی تان ایک بار پھر عوام کا خون نچوڑنے پر ٹوٹنے والی ہے اور بنیادی ضرورت کی اِن دونوں چیزوں کو مہنگا کرنے سے سبھی کچھ مہنگا ہوجائے گا۔ اس کے بعد قومی معیشت کی (مزید) کیا درگت بنے گی‘ اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی بھی پاکستانی کا ماہرمعاشیات ہونا لازم نہیں۔ 
وزیر اعظم کی طرف سے معیشت کے بارے میں انتہائی تشویش کا اظہار کوئی اچھی علامت نہیں‘ جس کے ہاتھ میں ملک کی کمان ہو اُس کی زبان سے نکلنے والی ہر بات سند کا درجہ رکھتی ہے۔ لوگ اُسی کو مثال بناکر بات آگے بڑھاتے ہیں۔ وزیر اعظم کو معاملات سلجھانے کی کوشش میں بیانیے پر خاص توجہ دینا ہوگی۔ بہت سے معاملات میں قوم پریشان تو ہوتی ہے‘ بلکہ پریشان رہتی ہے ‘مگر قیادت سے وہ کوئی ایسی ویسی بات نہیں سننا چاہتی۔ لوگ چاہتے ہیں کہ قائدین جب بھی منظر عام پر آکر لب کشائی فرمائیں تو حوصلہ افزاء بات کریں۔ قائدین کی طرف سے کوئی ایک غلط یا کمزور جملہ پوری قوم کا مورال گِرانے کا باعث بن جاتا ہے۔ 
''مڈل ایسٹرن آئی‘‘ سے انٹرویو میں عمران خان نے جو لب و لہجہ اختیار کیا تھا‘ اُس کی پشت پر خاطر خواہ تیاری نہ تھی۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ اُس میں قوم کا مورال بلند کرنے کے ہدف پر توجہ نہیں دی جارہی۔ قوم کو سخت بحرانی کیفیت میں جس نوعیت کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی درکار ہوتی ہے‘ وہ اب تک ناپید ہے۔ ہمارے ہاں جس نوعیت کی سیاست و معیشت پائی جاتی ہے‘ اُس کی کوکھ سے ایسی ہی حکومتیں جنم لے سکتی ہیں۔ لوگ اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ آنے والے دن بدتر ہی ہوں گے‘ مگر اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی حوالے سے پُرامید رہتے ہیں۔ انسان کو اول و آخر امید پرست ہی رہنا چاہیے‘ مگر مشکل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آتے ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ دیئے ہیں۔ حکومت کی ہر سطح پر یہ تاثر پیدا کرنے سے ذرا بھی گریز نہیں کیا جارہا کہ آنے والے دن بہت بُرے ہیں ... اور یہ کہ اہلِ وطن کو بہت کچھ جھیلنا پڑے گا۔ لوگ جس چیز کو جھیلنے کے باوجود بھول جانا چاہتے ہیں ‘وہ اُنہیں باربار یاد دلائی جارہی ہے۔ 
حکومت کو معیشت کی خرابی اور قرضوں وغیرہ کے حوالے سے کوئی بھی بیانیہ ترتیب دیتے وقت احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ عمران خان اور اُن کی ٹیم کو جو ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ وہ کسی بھی اعتبار سے ایسی نہیں کہ ذرا بھی غیر سنجیدہ ہوا جائے۔ لوگ بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ تو کرکے دکھائیں گے۔ قرضے لینا بھی فی زمانہ ہر کمزور ریاست کا بنیادی معاملہ ہے‘ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ نئے پاکستان کی پوری عمارت قرضے کی بنیادوں اور مقروضیت کی دیواروں پر کھڑی کردی جائے۔ حکومت کو ملک میں ایسے منصوبے شروع کرنے پر توجہ دینی چاہیے‘ جن کا مدار بیرونی قرضوں پر کم اور اہلِ وطن کی صلاحیت و لگن پر زیادہ ہو۔ ایک کروڑ یا دس کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے سے کہیں بڑھ کر خود روزگار طرزِ زندگی اپنانے پر زور دیا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں کروڑوں افراد ملازمت کے یومیہ سفر کی مشقت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ملازمت کا رجحان کمزور کرکے خود روزگار طرزِ زندگی اپنانے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ‘تاکہ بڑے شہروں میں لوگ ملازمت کے چکر میں پڑ کر اپنی صلاحیت‘ سکت اور وقت ضائع کرنے کی بجائے زیادہ آزادانہ انداز سے زندگی بسر کریں۔ یوں وقت بھی بچے گا اور صلاحیت و سکت کا ضیاع بھی نہ ہوگا۔ 
عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ نیا پاکستان بنانے نکلے ہیں۔ اننگز شروع ہوچکی ہے۔ واک اوور کا وقت گزر چکا ہے۔ اور واک آؤٹ کی بھی گنجائش نہیں۔ ایسے میں اُنہیں بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے میچ جیتنے کی طرف بڑھنا ہے۔ بیرونی ذرائع سے کہیں بڑھ کر اندرونی ذرائع پر انحصار کرنا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھرپور سرمایہ کاری کرواکر بھی قومی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔ ایسی فضا پیدا کی جائے کہ وہ حکمرانوں اور عوام دونوں پر بھروسہ کریں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved