تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     03-11-2018

عرب اسرائیل تعلقات :ایک نیا موڑ

عرب رہنماؤں میں یہ تیونس کے سابق صدر حبیب بورقیبہ (1987ئ۔1957ئ) تھے، جنہوں نے اسرائیل کو ایک حقیقت قرار دے کر عرب ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ اسے تسلیم کر لیں۔ خود پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خاں‘ جنہوں نے اقوام متحدہ میں فلسطین کے مسئلے پر عربوں کے مؤقف کی زور دار حمایت کر کے مشرق وسطیٰ میں پاکستان کے لیے زبردست خیر سگالی پیدا کی تھی، نے بھی 1950ء کے اوائل میں عربوں کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق تقسیمِ فلسطین تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن اُس وقت مشرقِ وسطیٰ میں عرب قوم پرستی کا غلبہ تھا۔ 1948ء میں عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان پہلی جنگ میں اول الذکر کی شکست‘ اور اسرائیل کی نئی یہودی ریاست کی جانب سے لاکھوں فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے زبردستی بے دخل کرنے کی وجہ سے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان کسی قسم کی مصالحت کا نام لینا، تقریباً ناممکن تھا۔ بعد میں 1956ئ، 1967ء اور 1973-74ء کی جنگوں کے بعد فریقین نے محسوس کیا کہ جنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ الٹا اس سے مسائل اور بھی پیچیدہ ہو جائیں گے۔ اس لئے عربوں اور اسرائیل کے درمیان 1979ء میں مصالحت کا عمل شروع ہوا۔ اس عمل کے نتیجے میں اسرائیل کے دو ہمسایہ ممالک یعنی اردن اور مصر، اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ 
عالم عرب سے باہر صرف ترکی ایک ایسا ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کیے۔ شاہ ایران کے زمانے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان محدود پیمانے پر سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم تھے‘ لیکن 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد یہ تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔ ان سارے معاملات کو سامنے رکھا جائے تو محسوس ہو گا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان پُرامن بلکہ دوستانہ تعلقات کی کہانی نہ تو نئی ہے اور نہ ہی حیرت انگیز۔ خود یہودی رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ جب اُن کی قوم پر یورپ کے عیسائی ملکوں میں عرصۂ حیات تنگ تھا، اُنہیں زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا، تو اسلامی ملکوں میں وہ اپنی زندگیاں نہ صرف امن اور سکون بلکہ آسودگی کے ساتھ گزار رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انیسویں صدی میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد یورپ کے عیسائی ملکوں میں اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم سے تنگ آ کر شمالی افریقہ اور سلطنتِ عثمانیہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔ لیکن سارا معاملہ اُس وقت بگڑا جب 1917ء میں برطانیہ نے بالفور ڈیکلریشن کے تحت فلسطین میں یہودیوں کو بڑی تعداد میں بسانے کا سلسلہ شروع کیا‘ اور 1947ء میں اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطین میں صدیوں سے آباد عربوں کے حقوق کو نظر انداز کر کے، فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ یہودی اس کوشش میں امریکہ اور یورپ کے ملکوں کی مدد سے کامیاب رہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر کسمپرسی کی حالت میں ہمسایہ عرب ممالک میں پناہ لینا پڑی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار جنگیں لڑی گئیں۔ ان میں اسرائیل نے پورے فلسطین کے علاوہ مصر اور شام کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1991ء میں ناروے کی مداخلت سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ اوسلو طے پایا، جس کے تحت غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر مشتمل محدود حاکمیت کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی‘ مگر 1967ء میں ہونے والی جنگ میں شام کے علاقوں سطح مرتفع جولان اور مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل نے جو قبضہ کر لیا تھا‘ وہ تاحال برقرار ہے۔ وہ عرب علاقے اب بھی اسرائیل کے قبضہ میں ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی کنارے اور بیت المقدس کے ارد گرد فلسطینیوں کے گھر مسمار کر کے یہودی بستیاں بسانے اور غزہ کے علاقے میں بچوں اور دوسرے شہریوں کو بمباری کا نشانہ بنانے کا اسرائیلی سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ اگر اس وقت عالم اسلام میں اکثریتی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں ہیں، تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ 1948ء میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام سے پیدا ہونے والے تمام مسائل مثلاً فلسطینیوں کی اپنے گھروں کو واپسی، باہر سے یہودیوں کو لا کر اُن کی عرب علاقوں آبادی کاری اور بیت المقدس کا مستقبل، ابھی تک حل طلب ہیں اور ان کے حل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور طاقت کا گھمنڈ ہے۔ عالم اسلام میں اس بات پر تقریباً مکمل اتفاق ہے کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں کے جائز حقوق تسلیم کرے‘ اور فلسطینیوں کی ایک علیحدہ اور مکمل طور پر خود مختار ریاست کے قیام پر راضی ہو جائے، تو نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے گا‘ بلکہ فریقین کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے‘ جس کے نتیجے میں نہ صرف اسرائیلی ریاست کو تحفظ حاصل ہو گا، بلکہ مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ معاشی ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے‘ لیکن اسرائیل یہ مقاصد، فلسطینیوں کو کوئی رعایت دیئے بغیر چیدہ چیدہ لیکن اہم عرب ممالک کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر تعلقات قائم کر کے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے مصر اور اردن کا انتخاب کیا گیا اور اب اس کی نظر خلیج فارس اور جزیرہ نما عرب کے ممالک سعودی عرب اور مسقط و اومان پر ہے۔ 
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اصل اختیارات کے وہی مالک ہیں، ایک بیان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت کر چکے ہیں۔ اسرائیل نے ایران کے بارے میں معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ شام اور عراق میں ایران مخالف قوتوں کے خلاف تعاون بھی بڑھا رہا ہے۔ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ با ضابطہ طور پر اگر سفارتی تعلقات قائم نہیں ہیں‘ تو اُس کی وجہ باقی مسلم ملکوں کی طرف سے سخت رد عمل کا اندیشہ ہے۔ لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ خلیج فارس کے خطے میں اسرائیل پوری طرح اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کر رہا ہے اور غالباً اس کا واحد مقصد ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں اومان کا دورہ کیا‘ اور اس دورے کے دوران میں اُنہوں نے سلطان قابوس سے ملاقات کی۔ نیتن یاہو کے چلے جانے کے بعد اومان کے ایک وزیر نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف اشارہ کیا۔ اسرائیل متحدہ عرب امارات‘ جو کہ خطے میں سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے‘ کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل کی وزیر ثقافت نے متحدہ امارات کا دورہ بھی کیا تھا۔ آئندہ ہفتے اسرائیل کا ٹرانسپورٹ منسٹر دبئی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت بھی کرے گا۔ بحرِ احمر‘ باب المندب اور آبنائے ہرمز کے ارد گرد کے علاقوں میں اپنی موجودگی کو قائم رکھنے کی اسرائیل کی تمنا بہت پرانی ہے۔ کیونکہ یہ علاقے جغرافیائی لحاظ سے اور پھر تیل کی ترسیل کے لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ خصوصاً آبنائے ہرمز‘ جس کے راستے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ ایران کا تیل بھی بیرونی دنیا کو برآمد کیا جاتا ہے۔ اومان آبنائے ہرمز کے ایک کنارے پر واقع ہے اور امریکہ کی طرف سے ایرانی تیل کی برآمد پر پابندیوں کے اعلان کے تناظر میں اومان میں اسرائیل کی موجودگی، کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ خود پاکستان کے لیے بھی یہ بات باعث تشویش ہونی چاہیے‘ کیونکہ لاکھوں ورکرز کے علاوہ خلیج فارس کے ملکوں میں پاکستانی ملٹری مشن بھی قائم ہیں۔ اگر ان ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، تو ان ممالک کی پولیس، فوج اور ایئر فورس میں شامل پاکستانی جوانوں اور افسروں کی کیا حیثیت ہو گی؟ کیا اُنہیں واپس پاکستان بھیج دیا جائے گا یا اُنہیں اسرائیلی افسروں کے ماتحت کام کرنے کے لئے کہا جائے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved