حُسن ہمیشہ توجہ کا محتاج ہے، یعنی مردانہ توجہ کا، کیونکہ حُسن کی جانب زنانہ توجہ عام طور پر حسد اور بدخواہی کے جذبات پیدا کرتی ہے جس سے حتی الامکان بچنا چاہئے اور یہ توجہ چہرے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں (آپ کا) ہاتھ، پاؤں، کان سبھی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ آج ہم آپ کو کانوں کی حفاظت اور سجاوٹ کے متعلق چند مشورے دیں گے، یہ مشورے مُفت اس لیے نہیں ہوں گے کہ مفت مشورے پر کوئی عمل نہیں کرتا۔ اس لیے اس کی فیس فی الحال کان مروڑنا ہے اور وہ بھی محض تاکید کے نقطہء نظر سے۔ ویسے تو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور وہ کان بھی کچھ کم اہم نہیں ہوتے، تاہم اُنہیں مروڑا نہیں جا سکتا۔ اس لیے ہم سرِدست صرف انسانی یعنی خواتین کے کانوں تک ہی محدود رہنے کی کوشش کریں گے۔ یوں تو کانوں کی کئی قسمیں ہیں مثلاً سونے کی کان، کانِ نمک، اور یہ کہ ہر کہ در کانِ نمک شُد وغیرہ۔ اس کے علاوہ دوکان، امکان اور پیکان وغیرہ کے اپنے اپنے کان ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ کان بھارتی شہر کانپور میں پائے جاتے ہیں۔ شعرائے کرام میں کانپوری حضرات شاعری کے علاوہ اپنے کانوں یعنی حسنِ سماعت کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔ چونکہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اس لیے بات سننے کے لیے ضروری ہے کہ بات کو کان میں پڑنے ہی نہ دیا جائے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
آئینہء آواز میں چمکا کوئی منظر
تصویر سا اک شور مرے کان میں آیا
چنانچہ بات کان میں پڑنے کی بجائے صرف اشاروں سے کام چلانے کی کوشش کی جائے۔ دو کان غالباً اس لئے دیئے گئے ہیں کہ بات ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دی جائے۔ بعض حضرات کانوں کے کچے ہوتے ہیں یعنی اکثر خواتین کی طرح، اس لیے انہیں کسی بھٹّے سے پہلی فرصت میں پکوا لینا چاہیے۔ فارسی میں کان کو گوش کہتے ہیں، جبکہ سرگوشی وہ بات ہوتی ہے جو کان کی بجائے سر سے کی جائے۔کانوں کو سجانے کے لیے عام طور پر بالیاں پہنی جاتی ہیں۔ چونکہ سونا آج کل اپنی کان میں بھی دستیاب نہیں ہے اس لیے بہت مہنگا ہے، چنانچہ گندم کی بالیاں بھی کام میں لائی جا سکتی ہیں۔ انسانی کان دراصل میل کی کان ہوتا ہے، اس لیے اس کو سجانے، سنوارنے سے پہلے اس کا میل نکالنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ گندم کی بالیاں پہننے کے باوجود، اگر ورائٹی کو جی چاہے تو کانٹے اور جھمکے وغیرہ بھی سونے کے ہی ہوتے ہیں اور عام طور پر دسترس سے دور، اس لیے کیکر کے کانٹے عین مناسب رہیں گے۔
دیکھا گیا ہے کہ خواتین عام طور پر ایسے ہی رنگ اور طرز کی بالیاں پہنتی ہیں جو اُن کے کپڑوں سے میچ کرتی ہوں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کپڑے اگر بوسیدہ ہو جائیں تو بالیاں وغیرہ تڑوا کر کپڑوں کی طرز پر بنوائی جا سکتی ہیں۔ اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ زرگر حضرات توڑ پھوڑ کرنے کے بعد کم و بیش ایک چوتھائی سونا آپ کو تھما دیں گے یعنی بالیاں پہلے سے چھوٹی بنیں گی جو خوبصورت اور سمارٹ بھی لگیں گی۔ حتیٰ کہ دوسری یا تیسری بار تڑوانے کے بعد بالکل غائب ہو جائیں گی۔
علاوہ ازیں، کانوں میں کچھ بھی پہنتے وقت موقع محل کا خیال ضرور رکھیں۔ مثلاً اگر آپ شاپنگ کے لیے باہر جا رہی ہوں تو طلائی زیور پہننے سے گریز کریں کیونکہ آج کل ڈاکو حضرات اور من چلے نوجوان بالیاں وغیرہ اُتروانے کی بجائے جھپٹ لینے کو ترجیح دیتے ہیں، شاید اس لیے کہ ان کے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے اور یہ' نیک کام‘ انہوں نے کئی اور جگہوں پر بھی جا کر سرانجام دینا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس چھینا جھپٹی میں کانوں کے زخمی ہونے کا بھی احتمال ہے۔ اگرچہ ایسے مرحلوں پر خواتین کو اپنے کانوں کے زخمی ہونے کی تکلیف کم اور بالیوں وغیرہ کا افسوس زیادہ ہوتا ہے، تاہم آپ اپنے رسک پر یہ طلائی زیورات ہر وقت پہن سکتی ہیں۔ بہرحال اس صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر گھر سے نکلتے وقت طلائی بالیاں وغیرہ پہننے کی بجائے اپنے ہاتھ میں رکھیں اور جونہی کوئی مشکوک شخص نظر آئے فوراً اسے تھما دیں اور اطمینان سے اپنا سفر جاری رکھیں۔ بلکہ بہتر ہے کہ بالیوں کی ایک اضافی جوڑی اپنے پرس میں بھی رکھیں تاکہ اگر کسی اور مشکوک شخص سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو اسے بھی بھگتایا جا سکے اور آپ کے زخمی ہونے کا کوئی احتمال نہ رہے اور اگر کوئی مزید مشکوک آدمی نظر آ جائے تو پرس وغیرہ دے کر اپنی جان چھڑا لیں کیونکہ کان ہے تو جہان ہے۔ کانوں کی حفاظت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انہیں سردی گرمی سے بچائیں یعنی کانوں کو دانتوں کی طرح سردی سے بجنے نہ دیں ورنہ یہ صرف سائیں سائیں ہی سُن سکیں گے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ بہرے خواتین و حضرات کو کانوں کی حفاظت کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی، البتہ ان میں ہوٹلوں کے بیرے شامل نہیں ہیں۔ نیز کسی بزرگ یا شوہر سے جھڑک کھا کر جائیں تو کان لپیٹ کر جائیں۔ علاوہ ازیں بات بات پر کان کھڑے کرنے کی کوشش نہ کریں اور اگر کھڑے کر بھی لیں تو انہیں بٹھانا نہ بھولیں ورنہ کھڑے کھڑے تھک جائیں گے۔ کانوں کا میل اگر مصروفیت کی وجہ سے نہ نکال سکیں تو بھی دل پر میل ہرگز نہ لائیں ۔ کسی کے کان کترنے کی کوشش نہ کریں بشرطیکہ وہ بہت بڑے نہ ہوں۔ کانوں کی صفائی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان میں ایک خاص قسم کا مومی مادہ ہوتا ہے جو بہترین موم بتیاں بنانے کے کام آ سکتا ہے جو کہ لوڈشیڈنگ کے اس زمانے ایک نعمتِ غیر مترکبہ سے کم نہیں ہے۔کان کھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ واقعی کسی کے کان کھانا شروع کر دیں۔ اگرچہ ان کی ہڈی اس قدر نرم ہوتی ہے کہ آسانی سے چبائی جا سکتی ہے۔ کان کا ایک پردہ بھی ہوتا ہے یعنی ہر کان لازمی طور پر باپردہ ہوتا ہے جس کا کام صرف پھٹنا ہے۔ چنانچہ اگر تیز آواز سے یہ پردہ پھٹ جائے تو بازار سے نیا ڈلوایا جا سکتا ہے۔ اُمید ہے اب تک آپ کو کافی کان ہو گئے ہوں گے۔
آج کا مطلع
کسی کو کسی سے محبت نہیں
یہاں شاعری کی ضرورت نہیں