تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-04-2013

تاریخ کے کٹہرے میں

ملک اپنے رہنمائوں سے ترجیحات کے تعین ، قوتِ فیصلہ اور احساسِ ذمہ داری کا مطالبہ کرتاہے ۔ سلیقہ مندی ، قرینہ اور سب کے لیے یکساں قانون ۔ تبھی انصاف ممکن ہے ۔ تبھی ، نموداور جمہوریت،تبھی فروغ او راستحکام وگرنہ کوئی دن جاتا ہے کہ جنرل کیانی سمیت سب تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے ۔ تاریخ ہم پڑھتے ہیں ، اپنے عہد کی تصویر مگر شاعر نے کھینچی ۔ ایک قدیم سخن ور کے بقول : بارش جیسے کھنڈرات کو اجاگر کر دے ؎ چور اچکّے ، سکھ مرہٹے ، شاہ و گدا سب خواہاں ہیں چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے ، فقر ہی اک دولت ہے یہاں ابھی ابھی اس نوجوان نعیم عالم نے بتایا کہ جہلم سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ تحریکِ انصاف نے کسی چوہان کو دے دیا ۔ نعیم عالم ہر اعتبار سے افضل ہے ۔ نسبتاً جواں سال اور پارٹی سے وابستگی قدیم۔ حریف اس کا بوڑھا، بیمار مبلغ میٹرک پاس اور نسبتاً نا مقبول۔ ضلعی الیکشن نعیم عالم نے جیتا ، بـڑی برادری اس کی ہمنوا ، ضمنی الیکشن میں نون لیگ کو اس نے ہرایا ۔ ٹکٹ دوسرے کو کیسے ملا؟ کوئی گہرا تاریک راز ہے۔ ممکن ہے پیسے کے سوا بھی کچھ ؎ فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے بگڑے سماج کو سنوارنے کے لیے نیک نیّتی درکار ہے ، عزم ، ارادے اور منصوبہ بندی ۔ علم چاہیے، حکمت ، حسنِ کلام اور خیر خواہی۔ احساسِ عدمِ تحفظ کے مارے ہوئے مگر چیخ پکا رکرتے ہیں او رطعنہ زنی یا صداقت عباسی کی قماش کے کھوکھلے اور سازشی۔ کپتان کا خاندان بھی اس سے نالاں ہے ۔ الزام یہ کہ فلاں امیدوار کا باپ موقع پرست تھا ۔آپ کس کے ساتھ تھے؟ پارٹی کو چھچھوروں پر چھوڑ دیا گیا۔ اب فریاد اور نوحہ گری ہے ، خود کردہ را علاجے نیست۔ ایک آدمی ملک او رمعاشرے کا مقدر نہیں سنوارا کرتا بلکہ ایک منظم جماعت ، خود پہ نگران اور قابلِ تقلید۔\" ایک گروہ تم میں سے ایسا چاہیے جو برائی سے روکے او ربھلائی کی ترغیب دے \" ؎ بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے غلطی عمران خان سے بھی بہت بڑی ہوئی ۔ جتنا زور جرائم پیشہ سیاست دانوں کو رسوا کرنے پر لگایا ، اتنا اُجلے آدمیوں کو جمع کرنے اور کارکنوں کی تربیت پہ صرف کیا ہوتا تو آج کا دن نہ دیکھنا پڑتا۔ غضب خدا کا ، رانامحبوب اختر کی بجائے کسی تھگڑی قریشی کو ٹکٹ دینے کی کوشش۔ غضب خدا کا کہ شاہ محمود کارگر اور جاوید ہاشمی خاموش۔ حیرت کہ جہانگیر ترین اور اسحٰق خاکوانی نے اپناوزن کھچّی وچّی کے پلڑے میں ڈال دیا۔ نور محمد بھابھا ایسے آدمی کی مخالفت؟ تعجب ہے کہ گوجرانوالہ کا مقبول اور محبوب رانا ناصر قابلِ قبول نہیں۔ آدمی دنگ رہ جاتا ہے کہ شاہد گیلانی گوارا اور راحت قدوسی پر گھٹیا قسم کی الزام تراشی ۔عامرکیانی جیسے لیڈر ہوں تو اور کیا ہوگا؟ ایس اے حمید اب ناراض ہیں مگر پارٹی الیکشن میں کیوں بروئے کار نہ آئے؟ شریف لوگ اگر یکجا نہ ہوں گے تو وہی ابھریں گے ، جیسے کہ ابھر آئے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا کہ چوکنے اور سرگرم نہ رہو گے تو بدترین مسلّط ہوں گے اور سخت ترین اذیت تمہیں دیا کریں گے۔ عافیت کوشی کا انجام بیچارگی ہے اور کبھی تو صدیوں کی غلامی ۔ ہندوستان کے خس و خاشاک میں آگ سلگانے والے محمد علی جوہرؔ کا شعر یہ ہے ؎ مصلحت کوش مری فطرتِ پاکیزہ نہ تھی میں نے شمشیر فروشوں کو سپاہی نہ کہا معقول کو بھی رہنمائی درکار ہوتی ہے ۔ بہترین باغ بھی برباد ہوتے ہیں ، شاخیں اگر تراشی نہ جائیں ۔ سیف اللہ نیازی نے پندرہ برس خواب کی پرورش میں کھپا دئیے۔ کپتان نے لکھا ہے \" کہر اور دھوپ کے کئی موسم\"۔ پوچھنے والا کوئی نہ تھا ؛ چنانچہ اس نے بھی گیدڑوں کا ایک لشکر بنا لیا ہے۔ ادنیٰ کو اعلیٰ پر مسلط۔ نپولین نے کہا تھا شیروں کی وہ فوج ہار جائے گی جس کا لیڈر ایک گیدڑ ہو۔ گیدڑوں کی وہ فوج جیت سکتی ہے جن کا لیڈر ایک شیر ہو۔ کپتان سے میں پوچھتا ہوں پنڈی میں صداقت عباسی؟ لاہور میں علیم خان اور ملتان میں شاہ محمود؟ کل شب کپتان سے میں نے کہا: لندن سے لیڈری کے لیے گوجر خان میں اترنے والا نوجوان بھلا مانس ہے لیکن وہ جیتے گا کیسے؟ کیا مقبولیت کوئی چیز ہی نہیں ؟ عظیم چوہدری ہی جیت سکتے ہیں ، اُجلے بھی ، سرگرم بھی۔ خواجہ حمیدالدین کہ خلقِ خدا کے خدمت گزار ہیں۔ گلی کوچوں میں عامیوں کے ساتھ عامی۔ سیدنا علی ابن ابی طالبؓ نے کہا تھا: تمام دانائی کا نصف گھل مل جانا ہے ۔ پرویز اشرف جیسے عفریت سے مقابلہ ہے ۔سرمایے اور کردار کشی کے ہتھیاروں سے لیس نون لیگ سے۔ گجّرخان میں ایک اور بھی ہے ، اس کا نام بھی نہ لکھنا چاہیے۔ منشیات کا سوداگر اسے کہا جاتا ہے ۔ اسلام آباد میں نون لیگ کے عقیل کی طرح جو پانچ ارب کھا گیا اور کہتاہے کہ میں خلقِ خدا کی خدمت سے سرشار ہوتا ہوں ۔ پچھلی بار نون لیگ کے ڈاکٹر طارق فضل کی کچھ مدد ہم نے بھی کی تھی۔ ایک کے بعد دوسرا جھوٹا وعدہ۔ ہمارا خون وہ جلاتے رہے۔ فرمایا: سڑک کا افتتاح شہباز شریف سے میں نے کرادیا ہے۔ اس خدا کی قسم، جس کے قبضۂ قدرت میں انسانوں کی جان اور آبرو ہے ، شہباز شریف اور ڈاکٹر طارق فضل کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھا ، جب کچھ لوگوں نے خاموشی اور عاجزی سے یہ کام کیا۔ان کا کمال تو یہ ہے کہ پوری سڑک کھود کر ماڈل ٹائون کے بیس ہزار مکینوں کی زندگی عذاب کر دی ہے۔ پہلے چار چھوٹے چھوٹے پل بنائے ہوتے ۔سڑک بعد میں تعمیر کی جاتی مگر یہ سفاک لوگ! ریاکار اور بہروپیے ، سفاک اور خوں آشام حکمران ہم پر مسلّط رہیں گے ، گھر گھر ، گلی گلی میں اگر بیداری کی لہر نہ اٹھائی جائے گی ۔ جمہوریت ؟ بی بی سی نے سروے کیا ہے ۔ پاکستانی نوجوانوں میں اس بانجھ جمہوریت کے حامی صرف 13فیصد ہیں ۔ نواز شریف ، آصف علی زرداری اور چوہدریوں کی جمہوریت ۔ شاہ محمو داور عبدالعلیم خاں کی جمہوریت۔۔۔پارٹی بتائے کہ اس آدمی سے اب تک چھٹکارا کیوںنہیں پالیا؟ کپتان پر تنقید کی جا سکتی ہے ؛حتیٰ کہ مذمّت بھی۔ سیاست وہ زیادہ نہیں جانتا مگر نیک نیت۔ غلطی کرے تو معافی مانگ لیتا ہے مگر نواز شریف ؟ بینکوں ، ایف آئی اے اور نیب کی گواہی کوڑے دان میں ، وہ تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو خرید سکتے ہیں ۔ ملک کے اربوں نہیں ، کھربوں انہوںنے لوٹ کھائے ہیں ۔ محترمہ فہمیدہ مرزا پچاس کروڑ ڈکار گئیں ۔ چوہدریوں کے قرض معاف کرانے کی دستاویز مطبوعہ ہے۔ نیا قانون مگرکہتاہے کہ پانچ سال پرانا قرض شیر مادر ہے ۔ گوہر ایوب ایماندار ہیں، کنڈی اور مولانا فضل الرحمٰن ؟ ایک زرداری صاحب کا ٹپّی ہے ، ایک غلام احمد بلّور، ایک کا نام حمزہ شہباز ہے ۔ نارووال جاکر اخبارنویس احسن اقبال کے کارنامے دیکھیں، سیالکوٹ میں خواجہ آصف اور شیخو پورہ میں رانا تنویر کے ۔ ان کے ہوتے ہوئے خوشخبری یہ ہے کہ الیکشن شفاف ہوں گے ۔ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے خزانے سے ؟ پنجاب کی دولت لیپ ٹاپ اور شمسی توانائی پر لٹاکر؟ عاصمہ جہانگیر نے سچ کہا: چیف جسٹس سمیت سبھی کو اپنے دائرہ کار میں رہنا چاہیے اور ہاں فوجی قیاد ت کو بھی ۔ چوہے دان میں داخل ہو جانے والے پرویز مشرف کا فیصلہ اب قانون کرے ۔ افراتفری میں الیکشن کا مقصد فریب کاری کے سو اکیاتھا ؟ یہی کہ حریف پارٹیاں ڈھنگ کے امیدوار چننے کی مہلت پا نہ سکیں ۔ اسلام آباد کا کھرب پتی اس سازش میں شریک تھا۔مہلت چاہیے، انصاف مطلوب ہے تو پولنگ کے لیے بیس بائیس دن کی مزید مہلت ۔ بچا کھچا استحکام اوربچی کھچی معیشت بھی وگرنہ اجڑ جائے گی۔ تضادات کا بوجھ اٹھاکر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ سرفراز اور سرخرو تو کیا ہوں گے ،، دلدل سے نکل بھی نہیں سکتے۔ آندھیوں میں چراغ فقط شاعری میں جلتے ہیں ۔ عملی زندگی کے حقائق تلخ ہوتے ہیں ۔کل سب روئیں گے ؎ ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ تھے ہم جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی ؟ یہ جنرل کیانی ، عمران خان ، نواز شریف، سید منور حسن اور آصف علی زرداری سمیت سب کی ذمہ داری ہے کہ سر جوڑ کر وہ بیٹھیں اورکھیل تماشے کی بجائے الیکشن کو الیکشن بنائیں ۔ ملک اپنے رہنمائوں سے ترجیحات کے تعین ، قوتِ فیصلہ اور احساسِ ذمہ داری کا مطالبہ کرتاہے ۔ سلیقہ مندی ، قرینہ اور سب کے لیے یکساں قانون۔ تبھی ، نموداور جمہوریت،تبھی فروغ او راستحکام وگرنہ کوئی دن جاتا ہے کہ جنرل کیانی سمیت سب تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved