تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     04-11-2018

مولانا سمیع الحق کا آخری کارنامہ

توہینِ رسالتؐ کے الزام سے آسیہ (یا عاصیہ) مسیح کی بریت کے خلاف ملک بھر میں دھرنے جاری تھے۔ کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا تھا۔ پنجاب اور سندھ میں تعلیمی ادارے بند تھے۔ سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں پہنچنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ گاڑیوں اور جہازوں کی آمد و رفت معطل تھی۔ تحریک لبیک پاکستان کے حامیوں کی ٹولیاں جگہ جگہ معمولاتِ زندگی میں خلل ڈال رہی تھیں۔ موٹر وے پر سفر کرنا ممکن نہیں رہا تھا، جی ٹی روڈ پر قدم رکھنا بھی اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا، منقولہ اور غیر منقولہ املاک پر حملے جاری تھے۔ جگہ جگہ شعلے بھڑک رہے تھے، اور طرح طرح کے نعرے جلتی پر تیل ڈال رہے تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا، جج صاحبان کے بارے میں وہ وہ الفاظ استعمال کیے جا رہے تھے، جنہیں لکھنا تو در کنار زبان سے بھی ادا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ شعلے تحریک کے مرکزی قائدین اُگل رہے تھے۔ بعض دوسری مذہبی جماعتیں اور شخصیات بھی اپنا وزن تحریک لبیک کے پلڑے میں ڈالتی جا رہی تھیں۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی فی البدیہہ نشری تقریر میں مظاہرین کے خلاف انتہائی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے انہیں ریاستی اداروں پر حملہ آور قرار دے کر چین سدھار چکے تھے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کے زیرِ قیادت حکومتی وفد مذاکرات میں شریک تھا، لیکن ''دھرنا قیادت‘‘ کچھ سننے کو تیار نہیں تھی، اس کے ایک مرکزی رہنما نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ ہمیں ''بھون‘‘ کر رکھ دینے کی دھمکی دے دی گئی ہے، لیکن ہم ''حرمتِ رسول ؐ‘‘ کے معاملے میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، گویا سر ہتھیلیوں پر رکھ چکے ہیں... کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کس شہر میں کس کی حکومت ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومتیں کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ کسی نہ کسی وزیر کا یہ بیان تو نشر ہو جاتا تھا کہ ریاست اپنی رٹ پر سمجھوتہ نہیں کرے گی، لیکن اس رٹ کی حفاظت کے لیے کئے جانے والے اقدامات دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے سلیمانی ٹوپیاں پہن کر غائب ہو چکے تھے، اور اگر کہیں تھے بھی تو کوئی اقدام کرنے سے قاصر تھے... ایسے میں (جمعہ کی شام) یہ اندوہناک خبر آئی کہ مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ چند ہی لمحوں بعد بتایا گیا کہ وہ جانبر نہیں ہو سکے، اور جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔ 83 سالہ مولانا سمیع الحق پاکستان کیا، عالم اسلام کے ایک ممتاز تعلیمی ادارے دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ تھے۔ اکوڑہ خٹک میں روشن اس چراغ کی روشنی دور و نزدیک پھیلی ہوئی ہے۔ افغانستان اور پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کے نوجوان یہاں سے فیض پا چکے ہیں۔ مولانا مفتی محمود کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد جمعیت علمائے اسلام دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو مولانا سمیع الحق اپنے حصے کے سربراہ بن گئے۔ یہ سیادت اب تک ان کے نام کا لاحقہ تھی۔ مولانا فضل الرحمن کے زیر قیادت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بہت پھیلایا اور ایک سیاسی قوت کے طور پر اسلاف کی جانشینی کا منصب حاصل کر لیا، لیکن مولانا سمیع الحق نے بھی اپنی جماعت کو بجھنے نہیں دیا۔ اپنا الگ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ دو بار سینیٹر منتخب ہوئے، اور آج کل تحریک انصاف کے اتحادی سمجھے جاتے تھے۔ تحریک کی کوشش کے باوجود وہ گزشتہ انتخاب میں سینیٹر منتخب نہیں ہو سکے تھے، لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے، جس کی تفصیل کا یہاں کوئی محل نہیں... مولانا سمیع الحق افغان طالبان سے ایک تعلقِ خاص رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ان کا نام دُنیا بھر میں گونجتا رہتا تھا، امریکہ اور طالبان کے درمیان حالیہ رابطوں میں ان کے کردار کے بارے میں متضاد اطلاعات تھیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے فون پر انہوں نے کوئی کردار ادا کرنے کی ہامی نہیں بھری تھی۔ وہ افغان مسئلے کے حل کے لیے وہاں سے امریکی فوج کی واپسی کو لازم قرار دیتے تھے۔ مولانا کی شہادت کی خبر نے مُلک بھر پر رنج و الم کی چادر تان دی۔ ہر مکتبہ فکر ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اہلِ سیاست میں بھی ان کا احترام پایا جاتا تھا۔ انہیں اسلام آباد (راولپنڈی) میں ان کے گھر میں چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا، تو ہر شخص بھونچکا رہ گیا۔ بتایا گیا کہ پشاور جانے والا راستہ بند ہونے کی وجہ سے وہ سفر نہیں کر سکے تھے، نمازِ عصر کے بعد محو آرام تھے کہ حملہ ہو گیا... ابھی تک اس پُراسرار واردات سے پردہ نہیں اُٹھ سکا، قاتل کے چہرے سے نقاب اُٹھا ہے، نہ قتل کے محرکات سامنے آئے ہیں۔ تجزیہ کار ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، 83 سالہ بزرگ کو‘ جو کہ دِل کے عارضہ میں بھی مبتلا ہو، قتل کرنے والا بد بخت کس کا کھیل کھیل رہا تھا‘ اس کے بارے میں مصدقہ طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے؛ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ دھرنا نشینوں کے پُر جوش حامی تھے، اور تقریری طور پر جذبات کے گڑھے میں غوطہ زن تھے۔ ان کے رخصت ہونے سے پاکستان کے مذہبی اور قومی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ بآسانی پُر نہیں ہو سکے گا۔ وقتی جذباتیت سے قطع نظر ان کا اپنا اسلوب، اور اثر و رسوخ تھا، اِس مقام تک پہنچتے پہنچتے عشرے لگتے ہیں، یہ ایک دن، ایک ماہ یا ایک سال میں حاصل نہیں ہو سکتا۔ ان کے والدِ گرامی مولانا عبدالحق مثالی شخصیت کے مالک تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں حصہ لے کر قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ بہت کم مذہبی شخصیات کو خاص و عام سے وہ عزت اور محبت ملی ہو گی، جو مولانا کے حصے میں آئی تھی۔ مولانا سمیع الحق اپنے والد کے نام اور مقام کی حفاظت کے جذبے سے سرشار رہے۔ انہیں ''فادر آف طالبان‘‘ کہا جاتا تھا، لیکن وہ پاکستان کے اندر مسلح جدوجہد کو حرام سمجھتے تھے۔ افغانستان پر غیر ملکی قبضے نے جہاد کا جو جواز فراہم کیا تھا، ان کے نزدیک پاکستان پر اس کا اطلاق ممکن نہیں تھا۔ جہادِ افغانستان کے مختلف مرحلوں میں ان کا کردار مختلف رہا، لیکن وہ اس سے غیر متعلق نہیں ہوئے۔ انہوں نے سیاسی جدوجہد کو شعار بنائے رکھا، اور مختلف مسالک کے درمیان امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ ان کی یہ ادا شاید مالکِ حقیقی کو ایسی بھائی کہ اُن کے لہو سے بھی چاروں طرف لگی ہوئی جذبات کی آگ کو سرد کرنے میں مدد لے لی گئی۔ ان کی شہادت کی خبر نے حکومت اور دھرنا قائدین کو جلد مفاہمت کے لیے مجبور کر دیا۔ مولانا سمیع الحق اور دارالعلوم حقانیہ کے متعلقین اور محبیّن پورے مُلک میں پھیلے ہوئے ہیں، اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے قافلوں کو دور و نزدیک سے آنا تھا۔ دھرنا پسند اگر راستے بند رکھتے، تو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ بریلوی اور دیو بندی مسالک کے ہزاروں افراد ایک دوسرے سے ٹکراتے تو خون کی ندیاں بہہ جاتیں اور حکومت کی رٹ قائم کرنے والوں کے لیے کارروائی کا راستہ کشادہ ہو جاتا۔ پس مولانا سمیع الحق کی شہادت کے دو گھنٹوں کے اندر اندر حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان معاہدہ ہو گیا، اس معاہدے کے مختلف پہلوئوں پر بات ہوتی رہے گی، اس کے منفی اور مثبت پہلو اُجاگر ہوتے رہیں گے، لیکن اس کا فوری اور پسندیدہ نتیجہ یہ نکلا کہ پوری قوم نے اطمینان کا سانس لیا، معمولاتِ زندگی بحال ہونے لگے، تصادم اور خونریزی کا خطرہ ٹل گیا۔ مولانا سمیع الحق کا آخری کارنامہ یہ تھا کہ جان دے کر بھی، اہلِ وطن کی جان میں جان ڈال دی اور امر ہو گئے کہ؎
صلۂ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved