تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     04-11-2018

بھارت جاپان تعلقات کے نئے تناظر

گزشتہ چار برس کی بھارتی خارجہ پالیسی پر نظر ڈالیں تو بھارتی سرکار پڑوس اور دور کے لگ بھگ سبھی ملکوں میں غچا کھاتی دکھائی پڑتی ہے‘ لیکن جاپان ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے تعلقات میں لگاتار گہرائی بڑھتی جا رہی ہے۔ گہرائی بڑھنے کی رفتار اتنی تیز ہے کہ بھارت اور جاپان‘ یہ بھول ہی چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کے بیچ 1974ء میں کتنی ٹھن گئی تھی۔ اندرا جی کے پوکھران ایٹمی دھماکوں کے بعد دونوں ملکوں کے بیچ زبردست کھٹاس پیدا ہو گئی تھی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ جاپان بھارت میں 33.8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ جو ماریشیئس اور سنگا پور کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم گزشتہ چار یا سوا چار برسوں میں بارہ بار ایک دوسرے سے مل چکے ہیں۔ نریندر مودی کے دورۂ جاپان کے دوران پچیس سمجھوتے ہوئے‘ جن میں ایک یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی کرنسی کا لگ بھگ 75 ارب ڈالر تک کا لین دین سیدھا ہو گا۔ اس میں ڈالر کے ذریعے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی سرکار میں طے پانے والی تین ارب ڈالر کی حد اب 75 ارب ڈالر تک بڑھ چکی ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک الگ کہانی ہے۔ اب دونوں ملک مل کر ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں متحد ہو کر کئی کام شروع کریں گے‘ کئی منصوبے تشکیل دیں گے اور ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔ یہ ایک طرح سے چین کی شاہراہ ریشم تجویز کا (بھارت کے لحاظ سے) بہت بہتر جواب ہو گا۔ دونوں ملکوں کے بیچ فوجی تعاون بڑھانے پر بھی معاہدہ ہوا ہے۔ اب دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی بیٹھکیں بھی ہوا کریں گی۔ ''دلی ممبئی صنعت کار راہ داری‘‘ کے تحت 90 ارب ڈالر کی ریل اور سڑک بچھانے میں جاپان کا متحرک کردار رہے گا۔ تقریباً پندرہ سو کلومیٹر کی یہ راہ داری بھارت کی صنعت کاری میں انقلاب برپا کر دے گی۔ ممبئی احمد آباد بُلٹ ٹرین تو بن ہی رہی ہے۔ بھارت اور جاپان‘ دونوں اپنی روایت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس نظر سے جو معاہدہ یوگ‘ آیوروید‘ نیچرل علاج وغیرہ جیسے شعبہ جات میں تعاون بڑھانے کے لیے ہوا ہے‘ وہ دیگر ملکوں کے لیے بھی سبق ہے۔ اس بھارت جاپان گہرائی کو امریکہ اور آسٹریلیا کی پُر جوش حمایت حاصل ہے‘ کیونکہ سائوتھ چائنا سمندر میں چین کے غلبے پر یہ دوستی ہی کچھ لگام لگا سکتی ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ اگلی دہائی میں بھارت اور جاپان کو سلامتی کونسل کی مستقل ممبرشپ کا درجہ بھی اپنے آپ مل جائے۔
اپنی لُٹیا مت ڈبوئیے!
رافیل جہازوں کا سودا مودی سرکار کے گلے کی پھانس بن سکتا ہے‘ یہ میں نے اس مدعہ کے اٹھتے ہی یعنی سامنے آتے ہی لکھا تھا۔ میں نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ سرکار کو وہ سب موٹے موٹے اسباب اور وجوہات اجاگر کر دینی چاہئیں‘ جن کی بنا پر 526 کروڑ روپے کا جہاز 1670 کروڑ روپے میں خریدا جا رہا ہے۔ دفاعی سودے کے تناظر سے جو خفیہ حقائق ہیں‘ انہیں ظاہر کیے بنا بھی ساری باتیں عوام کو بتائی جا سکتی تھیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اب مودی سرکار انہیں کیسے چھپائے گی جبکہ حالات خاصے حکومت کے قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں؟ سپریم کورٹ نے ارون شوری‘ یشونت سنہا‘ پرشانت بھوشن وغیرہ کی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے سرکار کو ہدایت کی ہے کہ وہ دس دن میں تین باتوں کی تحریری طور پر وضاحت پیش کرے۔ پہلا یہ کہ جہازوںکی قیمت تگنی کیسے ہوئی؟ دوسرا‘ اس ساٹھ ہزار کروڑ روپے کے سودوں کو پورا کرتے وقت کیا عمل یا طریقہ اپنایا گیا؟ اور تیسرا‘ فرانسیسی کمپنی دسالٹ کے ساتھ بھارتی حصہ داری کو کیسے جوڑا گیا؟ ابھی دو ہفتے پہلے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جہاز کی قیمت کے بارے میں وہ سوال نہیں پوچھنا چاہتی‘ (کیونکہ اس سے ہمارے کئی دفاعی راز ظاہر ہو سکتے ہیں) لیکن اب اس نے اپوزیشن لیڈروں کی طرح اس مدعہ کو بھی اٹھا لیا ہے۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ کیا یہ نہیں کہ اسے یعنی بھارتی سپریم کورٹ کو بھی دال میں کچھ کالا نظر آنے لگا ہے۔ رافیل سودے میں راز کو راز رکھنے کی شرط کی اب دھجیاں اڑائی جائیں گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ عدالت نے سرکار سے بند لفافے میں ساری انفارمیشن مانگی ہے‘ اور سرکار کہہ رہی ہے کہ 1923ء خفیہ اصول کے تحت وہ رافیل سودے کی ساری جانکاریاں عدالت کے سامنے پیش کرنے کی پابند نہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کا پیش کردہ یہ جواز بھارتی سپریم کورٹ کے لئے قابل قبول ہو گا؟ دوسرے الفاظ میں اب عدالت اور سرکار کے درمیان مڈبھیڑ لازمی ہے۔ اس کا کتنا بُرا اثر مودی کی ساکھ پر پڑے گا‘ اس کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔ بوفورس نے 410 ممبر زآف پارلیمنٹ والے راجیو گاندھی کی شان کو چکنا چور کر دیا تھا تو 272 ممبروں والے مودی کو یہ رافیل جہاز کہاں لے اڑے گا؟ کوئی پتا نہیں۔ اب سی بی آئی کے دو پاٹوں میں پس رہی مودی سرکار کی جانب سے جہاز کی باریکیاں ظاہر ہو بھی گئیں تو دشمن ملک آپ کا کیا کر لیں گے؟ بھارت سرکار اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ رافیل کے سارے راز صرف دسالٹ کمپنی اور اس کے پاس ہی ہیں۔ بڑی قوتوں کے جانکار کوئی بھنگ پی کر لیٹے نہیں رہتے۔ وہ سب پتا کرتے رہتے ہیں۔ انہیں سب کچھ معلوم ہوتا ہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ ان رازوں کو چھپانے کے چکر میں مودی سرکار کہیں اپنی لُٹیا ہی نہ ڈبو بیٹھے؟
زہریلی ہوا سے کیسے بچیں؟
دلی کی ہوا میں اتنا زہر تیر رہا ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کا انبار لگتا جا رہا ہے۔ زہریلی ہوا کے سبب پانچ برس سے چھوٹے لگ بھگ ایک لاکھ بچے ہر سال اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ سپریم کورٹ اتنا پریشان ہو گئی ہے کہ اس نے دیوالی پر پٹاخوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں‘ لیکن آج کل پٹاخوں کے بنا بھی ہوا اتنی زہریلی ہو گئی ہے کہ کہیں کہیں وہ عام حالات سے پانچ گنا زیادہ زہریلی ہے۔ بھارت سرکار نے عوام کو ہدایت دی ہے کہ لوگ گھروں سے باہر نہ نکلیں‘ صبح کی سیر بند کر دیں اور گھروں میں بھی اگر بتیاں وغیرہ نہ جلائیں۔ سپریم کورٹ کے تعینات کردہ آلودگی کے حوالے سے ضابطوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے عمل پر نظر رکھنے والے افسر بھورے لعل نے بتایا ہے کہ اگر آلودگی کا یہی حال رہا تو سبھی نجی گاڑیوں کے چلنے پر روک لگا دی جائے گی۔ دلی میں پونے دو کروڑ نجی گاڑیاں پٹرول اور ڈیزل سے چلتی ہیں۔ ان میں سے لاکھوں دس سے بیس سال پرانی ہیں۔ سپریم کورٹ نے پٹرول کی پندرہ سال اور ڈیزل کی دس سال پرانی کاروں پر روک لگا دی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے واقعی آلودگی ختم ہو جائے گی؟ گزشتہ برس دلی سرکار نے آڈ‘ ایون (odd and even) نمبروں کی کاروں کے لیے الگ الگ دن طے کیے تھے‘ لیکن آلودگی میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کھیتوں میں پرالی جلانے پر روک لگنی چاہیے۔ دوسری بات‘ دلی کی خاص سڑکوں پر صرف وہی کاریں چلائی جانی چاہئیں‘ جن میں کم از کم چار سواریاں ہوں۔ جن کاروں میں کم سواریاں ہوں‘ انہیں دلی کی اندرونی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہ ہو۔ واشنگٹن میں اس انتظام کو نافذ ہوتے ہوئے چالیس برس پہلے دیکھا تھا۔ تیسرا‘ ذاتی گاڑیوں پر روک لگانے کی بجائے بسوں اور میٹرو کی پہنچ بڑھائی جانی چاہیے۔ دلی میں پندرہ ہزار بسیں چلنی چاہئیں لیکن چلتی ہیں صرف پانچ ہزار۔ بس اور میٹرو کا کرایہ اتنا کم ہونا چاہیے اور ان کی پہنچ اتنی زیادہ ہونی چاہیے کہ لوگ اپنی کاریں اپنے گھروں پر ہی کھڑی رکھیں۔ چوتھا‘ ٹرکوں‘ ٹیکسیوں اور آٹو رکشوں پر بھی مکمل نظر رکھی جانی چاہیے‘ کیونکہ یہ آلودگی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ پانچواں‘ اب سولر سسٹم گاڑیوں کی بہت ضرورت ہے۔ سو لر سسٹم گاڑیاں آلودگی کی دشمن ثابت ہوں گی۔ چھٹا‘ دلی ہی کیوں‘ سپریم کورٹ عدالت دلی کی ہی نہیں‘ پورے ملک کی عدالت ہے۔ بھارت میں کئی صوبوں کے کئی شہر دنیا کے سب سے زیادہ آلودگی والے شہروں میں سے ہیں۔ ان کے بارے میں سرکاروں‘ عدالتوں اور خود عوام کو ٹھوس پہل کرنی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved