گزشتہ دنوںمسقط میں پانچ ممالک پر مشتمل ایک امن کانفرنس منعقد ہوئی ‘جس میں اسرائیل‘ سعودی وفد‘ متحدہ عرب امارات‘ کویت اور مڈل ایسٹ میںتعینات امریکی فوج کے کمانڈرز شریک ہوئے۔ اس امن کانفرنس کے ایجنڈے میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان سابق صدر بل کلنٹن کے عہد ِحکومت میں اسرائیل کو دیا جانے والا وہ فارمولا زیر بحث آیا‘ جس کے تحت ان دونوں ممالک میں امن قائم کرتے ہوئے پورے مڈل ایسٹ کیلئے آئندہ کا کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کرنا تھا‘ جس سے اسرائیل کو یہ احساس ہو جائے کہ اب اس کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ‘ لیکن امریکہ اور اسرائیل کی فطرت کو جاننے والوں کو کبھی بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اسرائیل کو اگر 'واک تھرو‘ دے دیا گیا‘ تو اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے اگلے دس برس میں مڈل ایسٹ میں محدود ہو کر نہیں بیٹھے گا‘ بلکہ یہودیوں کے بنائے گئے نقشے کو متشکل کرنے کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
ہمارے عرب بھائیوں کو دیکھناہو گا کہ اسرائیل کو کسی بھی عرب ملک سے نہ پہلے کوئی ہمدردی تھی‘ نہ آئندہ ہو گی اور اگر اسے مڈل ایسٹ کے اندر تک گھسنے کا موقع مل گیا‘ تو یہ وہ اونٹ ثابت ہو گا‘ جس نے اپنے مالک سے پہلے صرف اپنا سر خیمے کے اندر کرنے کی اجا زت مانگی تھی اور بالآخر پورے خیمے پر قابض ہو گیا تھا۔ اس لئے عرب ممالک اچھی طرح جان لیں کہ بھیڑیئے کی کمزور جانور سے دوستی ہو ہی نہیں سکتی۔ سلطنتِ اومان پہلے ہی اشارہ دے چکی ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اس کیلئے اسرائیل مسقط میں اپنا سفارت خانہ قائم کرنے کی تیاریوں میں ہے اور جس طرح مسقط میں امریکی افواج کا اڈہ قائم ہے‘ اسی طرح اسرائیل کو بھی ایک چھوٹا سا بیس کیمپ قائم کرنے کی اجا زت دی جا رہی ہے اور یہ ہوائی اڈہ پاکستان کی گوادر بندر گاہ کے بالکل سامنے اور پاکستان کے منہ پر ہو گا۔ یہی وہ خطرناک پلان ہے ‘جو امریکی سی آئی اے نے پاکستان کے خلاف تیار کر رکھا ہے‘ اور پاکستان کے عوام کو اس بارے میں سوچنے سمجھنے کا موقع دینے سے پہلے ہی اسرائیل کے ایک صحافی کی ٹویٹ کے ذریعے یہ خبر پھیلا دی کہ اسرائیل کا جہاز پاکستان میں اترا ہے‘ تاکہ سب کا دھیان اس جھوٹ اور پروپیگنڈے کی طرف مبذول کرتے ہوئے عوام کو نئی حکومت کے خلاف یہ کہانی سناتے ہوئے ابھارا جا سکے کہ دیکھیں جی! عمران خان کی حکومت قائم ہوتے ہی یہودیوں کا جہاز پاکستان پہنچ گیا ہے ۔ اس فتنے کو بنیاد بنا کر اور کم علم طبقے کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت مخالف لابی دسمبر تک لاہور یا اسلام آباد میں ممکنہ طور پر دیئے جانے والے دھرنے کیلئے یہودی نیٹ ورک کے نام پر لوگوں کو اشتعال دلاتے ہوئے اور پاکستان کے قومی اداروں کو عوام کی نفرت کا نشانہ بناتے ہوئے‘ یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ حکومت اب اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہی ہے۔ میری اس تحریر کو مولانافضل الرحمان اور ان کی جماعت کے ایک سینیٹر کی ان حالیہ تقاریر کو سامنے رکھ کر دیکھئے‘ جن میں لوگوں کو کھلم کھلاحکومت اور قومی اداروں سے ٹکر لینے کیلئے اشتعال دلایا گیا۔ (نوٹ: میرا یہ کالم پڑھتے ہوئے ذہن نشین رہے کہ یہ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ آنے سے پہلے لکھا گیا ہے )۔
پاکستان میں آئندہ دنوں کی سیا ست میں حکومت مخالف لابی کا کردار انتہائی خطرناک ہونے جا رہا ہے ۔ میری اس بات کو سمجھنے کیلئے یاد رکھنا ہو گا کہ مولانا فاٹا کے‘ کے پی کے میں انضمام کے سخت ترین مخالفین میں سے ایک ہیں‘ اور اس کیلئے اچکزئی کی پوری مدد اور سپورٹ انہیں حاصل ہے۔ فاٹا میں منظور پشتین اور کچھ دوسرے لوگوں کا حالیہ کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں رہنا چاہئے۔ ایسے لوگوں کے پاس نوجوانوں کی ایک پوری فورس موجود ہوتی ہے جو صرف اپنے امیر کا حکم مانتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کیلئے جس سرمائے کی ضرورت ہو گی‘وہ کہاں سے آئے گا؟ میرے خیال میں پاکستان کی مخالف وہ دشمن قوتیں ‘جو مسقط میں اپنے اڈے بنانے جا رہی ہیں‘ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے میڈیا سمیت ہر کردار کو پاکستان کے قومی اداروں سے لڑانے کی بھر پور کوشش کریں گی۔ ذرا سوچئے‘ اسرائیلی جہاز کی پاکستان آمد کا شوشا اسی حوالے سے تو نہیں چھوڑا گیا تھا۔
یاد رکھئے‘ اس وقت میڈیااور سوشل میڈیا کسی بھی ملک کو ختم یا کمزور کرنے کیلئے بہت خطرناک ہتھیار بن چکا ہے۔اس کی طاقت کا اندازہ آ پ نے جنرل مشرف کے خلاف تحریک کے دوران دیکھ ہی لیا ہو گا‘ جب تمام چینل اور ان کے اینکرز افتخار چوہدری اور چند نامی گرامی وکلا کے ہمراہ ایک سال تک دن رات سڑکوں پر رہے اور اس دوران ایسی ایسی کہانیاں اور افواہیں پھیلائی گئیں کہ گوئبلز بھی قبر میں شور مچانا شروع ہو گیا ہو گا کہ میرے یہ استاد کہاں سے آ گئے؟ اسرائیل ‘اور بھارت کا ایک ہی مشن ہے کہ کسی طرح پاکستان کی فوج کو کمزور کر دیا جائے‘ تاکہ امریکہ و برطانیہ سمیت یورپ بھر کو ہر وقت ہلکان کرنے والے نیو کلیئر اثاثوں کو اپنے قبضے میں کر لیا جائے اور اس کیلئے ان کے نزدیک سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ عوام کو اپنے ہی اداروں کے مقابل لا کھڑا کیا جائے اور اس مقصد کیلئے آغاز ہی میں نواز شریف کی شکل انہیں کچھ کامیابی بھی مل چکی ہے ‘جس سے بھارت کافی مطمئن دکھائی دیتا ہے ۔
امریکہ میں بھارت کے تھنک ٹینک کی رپورٹس کے مطا بق کل تک لوگ اپنے ملک کے قومی اداروں کے خلاف ایک لفظ کہنا تو دور کی بات ‘ سننا بھی پسند نہیں کرتا تھا‘ لیکن اب صورت حال تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور میاں نواز شریف کی ہدایت پر مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی اور کارکن کھلے عام قومی اداروں کے خلاف جھوٹ بولتے اور زہر اگلتے دکھائی دے رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹس ایسے گند اور نفرت سے بھری پڑی ہیں کہ دیکھا بھی نہیں جا سکتا‘ بیان کرنا تو دور کی بات ہے۔ ستم دیکھئے کہ کل تک نواز مخالف پوسٹ لگانے والوں کی چمڑی ادھیڑنے والا ایف آئی اے کا سائبر کرائمز کا شعبہ ان کی جانب دھیان ہی نہیں دیتا ہے۔ اس طرح انہیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ کچھ بھی کہتے رہیں۔
پاکستان میں اسرائیلی جہاز اترنے کا راگ میرے اس کالم کے شائع ہونے تک‘ کئی نام نہاد صحافی اپنے گروپ کے ساتھ ڈرم اور ڈھول بجاتے ہوئے نئے نئے انداز میں سنا چکے ہوں گے‘ تاکہ پاکستان کے عوام جان ہی نہ سکیں کہ مسقط میں کیا ہو ا ہے؟ وہاں اسرائیلی وزیر اعظم اور دوست عرب ممالک کے لوگ کیوں آئے تھے؟ وہاں کیا فیصلہ ہوا ہے؟ وہ اسرائیلی جہاز جس کا شور مچاتے ہوئے پاکستان کے قومی اداروںکے خلاف عوام میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ یہ وہی ایجنڈا ہے‘ جس کے تحت کچھ سیاسی رہنما اور ان کے پروردہ اینکرز اور بھارت نواز چینل طوفان بن کر گرج اور چمک رہے ہیں۔
اسرائیل‘ مسقط میں موساد کے نیٹ ورک کے علا وہ اسرائیلی STEALTH AIR CRAFT F35/F32 PLUS SWIFT ACTION MILITARY FORCE کی طاقت کے ساتھ پاکستان کے سر پر چڑھ کر بیٹھنے کا پروگرام بنا رہا ہے‘ جبکہ بھارت اپنی فوجی طاقت کے ساتھ پہلے ہی ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کا کنٹرول لینے کے بعد سی آئی اے‘ موساد اور راکے باہمی کنکشن کے ساتھ پاکستان کے خلاف حرکت میں آ رہا ہے۔ اور ذہن نشین رہے کہ میری نظر میں یہی ہے پاکستان کی گوادر بندر گاہ‘ سی پیک اور اس سے آگے پاکستان کے دفاعی سٹریٹیجک اثاثوں کو چھیننے کی سازش۔
آج مصنوعی سیٹیلائٹس ہر وقت فضا میں گھومتے پھرتے ہیں‘ جو فٹ بال ‘ہاکی اور کرکٹ کے ہزاروں میل دور کھیلے گئے میچوں کے دوران گرائونڈز میں رینگتے ہوئے ایک کیڑے کوبھی دکھا سکتے ہیں‘ تو کیا اسرائیلی جہاز‘ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے تھا کہ اسے کوئی دیکھ ہی نہیں سکا؟