دنیا بھر کے میڈیا کا کمال ہے کہ اگر آپ جمہوریت کے خلاف گفتگو کریں تو کچھ لوگ آپ پر ایسے حملہ آور ہو جاتے ہیں جیسے آپ نے نعوذ باللہ‘ اللہ کی ذات کا انکار کر دیا ہو یا آپ سے کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی سرزد ہو گئی ہو۔ ان لوگوں کے نزدیک جمہوریت کا دشمن ملعون ، زندیق اورواجب القتل ہو جاتا ہے۔ افغانستان میں منکرین جمہوریت کا قتل تو اتنی بڑی تعداد میں ہوا کہ آج مرنے والوں کی صحیح گنتی ہی نہیں ہوپارہی۔وہاں جمہوریت کے نفاذ کا طریق کار بالکل وہی ہے جو آدھی دنیا پر حکمرانی کے75سال گذارنے والے اور دنیا کے آدھے حصے پر اپنا نظام کامیابی سے چلانے والے کمیونسٹوں نے اختیار کیا تھا۔ لوگوں کے ایک گروہ کومنظم کرو، اُسے جنگی صلاحیتوں کی تربیت دواور اپنے مخصوص لٹریچر کے ذریعے اُسے قائل کرو کہ برسرِ اقتدارطبقے سے بزورِ طاقت حکومت چھین کر مزدوروں اور کسانوں کی بادشاہت قائم کرنا ہے۔ افغانستان کے غریب عوام کو اس جمہوریت کی قیمت لاکھوں لاشوں کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ان لاشوں کے انبار پر بیٹھ کر جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کے علمبردار امریکہ نے ایک آئین تحریر کروایا، اپنی نگرانی میں الیکشن کروائے اور دعویٰ کیا کہ ہم نے عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کر دیا ہے۔ کیا شاندار طریقہ ہے کسی ملک میں جمہوری تبدیلی لانے کا!دنیا میں گذشتہ ڈیڑھ صدی اس طرح گذری کہ کارل مارکس کے فلسفۂ انقلاب کی بنیاد پر آدھی دنیا کے ممالک میں گروہ منظم ہوئے۔ انہوں نے ہتھیار اٹھائے، اقتدار پر قابض گروہوں کو قتل کیا اور اپنا مخصوص کمیونسٹ نظام نافذ کر دیا۔ یہ نظام دنیا بھر کے ادیبوں، شاعروں،افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کے لیے اتنا متاثر کن تھا کہ پوری ایک صدی کسی کو جمہوریت کی یاد تک نہ آئی۔ ہر کوئی جمہوریت کو سرمایہ داری کی ایک لعنت قرار دیتا رہا۔ برصغیر کی ترقی پسند تحریک‘ جس میں ساحر لدھیانوی سے لے کر فیض احمد فیض اور اخترالایمان سے لے کر کرشن چندر تک کون شامل نہیں تھا‘ سب انقلاب کی باتیں کرتے اور دنیا کو طاقت کے زور سے بدلنے کے لیے پوری دنیا کو اُکساتے رہے۔ ان ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں کو کبھی کسی نے دہشت گرد کے لقب سے نہیں پکارا۔ کوئی انہیں آج تک تخریب کار نہیں کہتا۔ بھگت سنگھ جو کمیونسٹ نظر یات کا حامی تھا ،اسے بم دھماکوں پر پھانسی کی سزا ہوئی لیکن وہ آج بھی آزادی اور حریت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ مٹھی بھر لوگ تھے جو دنیا بھر میں مزدوروں کی حاکمیت قائم کرنا چاہتے تھے۔ کبھی ان سو سالوں میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ زبردستی لوگوں پر اپنا طرز زندگی اور نظام مسلّط کرنا چاہتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں کمیونسٹ پارٹی کے بارے میں جو فائلیں آج سرکاری ریکارڈ میں میسر ہیں ،ان میں تخریب کاری اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ویسے ہی الزامات ہیں جیسے آج اسلام کا نام لینے والے کسی بھی گروہ پر لگائے جاتے ہیں۔ لیکن اس پورے دور میں کوئی بھی سرکاری الزام تراشیوں کا حامی نہیں تھا‘لیکن آج سرکار جو بولتی ہے وہی میڈیا سے لے کر دانش وروں تک سب کی زبان بن جاتا ہے‘ اس لیے کہ سرکار بھی جمہوریت کے ٹھیکیدار، امریکہ کی غلام اور کاسہ لیس ہے اور بیشتر میڈیا بھی اپنی بقا کے لیے اس کے ڈالروں کا محتاج ہے۔ صرف پچیس سال قبل یعنی سوویت یونین کے زوال کے بعد میڈیا نے یہ ثابت کرنا شروع کر دیا کہ تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے، عوام کی حکمرانی صرف ایک ہی طریقے سے قائم ہو سکتی ہے اور وہ ہے جمہوریت جس کے تحت حکومت چلائی جاسکتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج جو بھی جمہوریت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے اس طرح مطعون کیا جاتا ہے جیسے وہ کوئی مرتد ہے، کفر کا ارتکاب کر رہا ہے یا غدارِ وطن ہے۔ جمہوریت اور جمہوری نظام کو انسانیت کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا ہے، ایسے جیسے یہ ایک آکسیجن ہے جس کے بغیر انسان زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر جمہوریت نہیں ہوگی تو پھر اس کا متبادل کیا ہوگا؟ متبادل کے با رے میں صرف خلافت یا شریعت کا لفظ ادا کر دینا کافی نہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ خلافت کیسے آئے گی، یہ شریعت کیسے نافذ ہوگی ؟ جس طرح ٹرین کے لیے پٹٹری بچھائی جاتی ہے‘ گاڑیوں کے لیے سڑکیں بنائی جاتی ہیں اور جہازوں کے لیے رن وے تعمیر کیے جاتے ہیں‘ اُس طرح جمہوریت کو نہیں چلایا جاسکتا۔یہ ایک نظام نہیں بلکہ راستہ ہے جس پر چلنے والا نظام سرمایہ داری ہے جو آزاد حیثیت، سود اور کاغذ کے نوٹوں کے گرد گھومتا ہے۔ پورے کا پورا نظام دولت کے ارتکاز اور غریبوں کو تھوڑی بہت سہولیات کا لولی پاپ دینے سے چلتا ہے۔ اسی طرح کیمونزم بھی جمہوریت کی پٹٹری پر نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے ایک مخصوص نظام وضع کیا گیا اور اسے کامیابی کے ساتھ چلایاگیا۔ آج بھی دنیا میں تقریباً دو ارب کے قریب افراد اس مخصوص نظام کے تحت زندگی گذار رہے ہیں جن میں سے ایک ارب چھتیسں کروڑ چین میںبستے ہیں۔ اس کے علاوہ کیوبا، ویت نام، لائوس اور شمالی کوریا کے افراد بھی جمہوریت کے بغیر زندگی گذار رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی کیمونزم کو جمہوریت کے راستے سے نافذ کرنے کی کوششیں کی گئیں برُی طرح ناکام ہوئیں ۔ فرانس جہاں سوشلسٹ تحریک دنیا کی سب سے قدیم تحریک ہے آج تک اپنے نظریات کے مطابق حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کی پشت پر سوداور کرنسی نوٹ ہیں ۔اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کا سرمایہ اور میڈیا وہ چکا چوند پیدا کر دیتا ہے جس میں ہر کسی کی آنکھیں چند ھیا جاتی ہیں اور پھر جیسے کٹھ پتلی حکمران چاہتے ہیں ویسے ہی لوگ برسراقتدار آجاتے ہیں۔ اسی طرح شریعت کا اپنا طرز حکومت اور اس کے نظام کی اپنی شاہراہ ہے جسے خلافت کہتے ہیں‘ جس میں نصب العین زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنا اور اُس کے قوانین کو نافذ کرنا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ہو سکتا ہے۔ کیا واقعی اس کے لیے خونی انقلاب ضروری ہے؟ کیا جدوجہد کے صرف دو ہی طریقے ہیں، انتخاب یا پھر طاقت سے تبدیلی؟ یہ صرف اس لیے سوچا جاتا ہے کہ لوگوں نے اپنے سامنے صرف یہی دو طریقے نافذ العمل ہوتے دیکھے ہیں۔ ہماری تمام اسلامی سوچ رکھنے والی طاقتیں بھی یہی تصور کیے ہوئے ہیں کہ یا تو الیکشن جیت کر اسمبلی میں آجائو یا پھر طالبان کی طرح اقتدار پر قبضہ کر کے حکومت قائم کرو۔ اسلام ان دونوں راستوں سے مختلف نظامِ تبدیلی و نظامِ حکومت کا تصور پیش کرتا ہے۔ اسلامی حکومت کا آئین ایک انتہائی مختلف دستاویز ہوتی ہے جس میں خلافت کے معیار اور دیگر مناصب پر فائز ہونے کے لیے سخت چھلنی سے گذرنا پڑتا ہے۔ اسلام کے تحت کسی پارٹی سسٹم کی گنجائش نہیں کہ اربوں روپے فنڈ فراہم کر کے الیکشن اغوا کرلیے جائیں۔اسلام میں عہدے کی خواہش حرام ہے لیکن کسی اہل آدمی کو بیعت کے ذریعے پورے معاشرے کا اعتماد دینا لازم ہے۔ اسلام پورے معاشرے میں صالح لوگوں کا گروہ منظم کرنا چاہتا ہے‘ پھر اسے حقِ حکمرانی عطا کرتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے حکمرانی پر فائز غاصب، چور ، ڈاکو اورلٹیرے افراد سے قبضہ چھڑانا چاہتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں فساد فی الارض اور فتنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ چند لوگ طاقت ، سرمایے اور ذرائع ابلاغ کی مدد سے معاشرے کو یرغمال بنالیتے ہیں۔ اسلام پہلے ان کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہے۔ ویسا ہی جہاد کا اعلان جیسا دنیا کے ہر معاشرے میں ہوا۔ انقلابِ فرانس سے کیوبا تک سب نے اس گندے خون سے معاشرے کو پاک کیا۔ پھر انہیں اپنے درمیان سے ایماندار، اہل اور سچے لوگوں کو پہچاننے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved