یہ بھی کیا ریت ہے کہ انسان کسی بڑی پریشانی سے محفوظ رہنے پر الجھن محسوس کرے اور اللہ کا شکر ادا کرنے پر شکوہ سنج رہنے کو ترجیح دے؟ سچ سچ بتائیے گا‘ ایک لمحے کے لیے تو آپ بھی حیران رہ گئے‘ نہ کہ پریشانی سے محفوظ رہنے پر بھلا کون ہے‘ جو شکر ادا کرنے پر شکوہ کرنے کو ترجیح دے! بات کچھ یوں ہے جناب کہ انسان کے لیے کسی بھی حال میں خوش اور مطمئن رہنا تقریباً ناممکن ہے۔
محمد حسین آزادؔ کا مشہور زمانہ مضمون ''انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘ آپ کی نظر سے بھی گزرا ہوگا۔ اس مضمون میں آزادؔ نے انسان کی ایک بنیادی نفسی پیچیدگی کو ایسی خوبی سے بیان کیا ہے کہ بے اختیار ہوکر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
کبھی کبھی کوئی ایسی خبر بھی پڑھنے کو ملتی ہے کہ ذہن تادیر جھنجھناتا رہتا ہے۔ کچھ دیر تک تو سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کیا ردعمل ظاہر کیا جائے۔ اب یہی دیکھیے کہ فی زمانہ انسان کیلئے ایک انتہائی غنیمت بات یہ ہے کہ اپنے گھر میں سلامت رہے یعنی گھر بسانے کے خیال سے دور رہے! ایسے میں اگر کوئی گھر نہ بسنے پر ہنگامہ کھڑا کردے تو حیرت ہی ہونی چاہیے۔
فیصل آباد سے خبر آئی ہے کہ اہل خانہ کے رویے اور بیماری سے تنگ آکر مِرگی کا مریض رضوان محلے میں بجلی کے کھمبے پر چڑھ گیا۔ منیر آباد کی گلی نمبر 9 کے رہائشی رضوان کا ''موقف‘‘ ہے کہ وہ بیمار ہے۔ گھر والے عزت کرتے ہیں نہ شادی کراتے ہیں۔ پولیس نے رضوان کو سمجھا بجھاکر کھمبے سے اتارا۔ اور پھر حراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کی۔
یہ خبر پڑھ کر ہم کچھ دیر سوچتے رہے کہ رضوان مِرگی کا مریض ہے یا دماغی مریض! گھر والے اگر عزت نہیں کرتے تو شکایت کا جواز بنتا ہے ‘مگر شادی نہ کرانے پر شکوہ؟ یہ تو ناشکرا پن ہے! اب کیا بربادی سے بچانے پر بھی گھر والوں کو طعنہ دیا جائے گا؟
اور کیا رضوان کی آنکھیں بھی کمزور ہیں؟ کیا اُس نے دیکھا نہیں کہ شادی کی ڈگر پر گامزن ہونے کے بعد انسان کہاں سے کہاں جا نکلتا ہے؟ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں‘ اپنے ماحول ہی پر طائرانہ سی نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ شادی وہ لڈو ہے کہ جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ ہاں‘ اتفاق دیکھیے کہ کھانے والے زیادہ پچھتاتے ہیں! یہ بات ہم ذاتی تجربے کی سطح سے کافی بلند ہوکر عمیق مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ دنیا نے ہمت کی پیمائش کے کئی طریقے وضع کر رکھے ہیں۔ ہم نے بھی ایک پیمانہ مقرر کیا ہے۔ کسی بھی فوج کو کیسے جوان درکار ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے بہادر اور جان پر کھیل جانے والے‘ وہ کہ جو کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے سے ذرا نہ ڈرتے ہوں۔ ہماری خالص ذاتی رائے یہ ہے کہ ایسے تمام جوانوں کو فوج میں بھرتی کرکے اگلے مورچوں پر تعینات کیا جائے ‘جو اہل خانہ پر زور دیتے ہیں کہ ان کی شادی کرادی جائے۔ بزدلی سے عبارت سے اس دور میں گھر بسانے کی خواہش رکھنے سے بڑھ کر اظہارِ شجاعت بھلا اور کیا ہوگا! ماننا نہ ماننا اپنی مرضی کا سَودا ہے‘ تمام کنواروں کے لیے جاذبؔ قریشی صاحب کا صائب مشورہ تو یہ ہے ؎
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو
اپنے اپنے تجربات اور تجربے کی روشنی میں بُرے انجام سے ڈرانے والے اور بھی ہیں۔ لیاقت علی عاصمؔ بات کا ذرا سا گھما پھراکر کہتے ہیں ؎
شاعری کرتے مگر دیکھ تو لیتے پہلے
دردِ دل ہے کہ نہیں‘ زخمِ جگر ہے کہ نہیں
مرزا تنقید بیگ کا استدلال ہے کہ جن نوجوانوں کو اللہ نے عقل سے نوازا ہے‘ وہ ہوش سنبھالتے اور عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی شادی کے خیال سے باز رہتے ہیں۔ پہلے کچھ کر گزرنے کے عزم کو عملی جامہ پہنانے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگر دم خم باقی رہا تو گھر بھی بسالیتے ہیں۔مگر صاحب‘ ہونی کو بھی کبھی کوئی ٹال سکا ہے؟ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہو وہ تو ہوکر ہی رہتا ہے۔ کوئی لاکھ کوشش کرلے‘ ایک نہ ایک دن اونٹ کو پہاڑ کے نیچے آنا ہی ہوتا ہے ؎
کون شادی سے بچ سکا ہے یہاں
آج ہم‘ کل تمہاری باری ہے
خالص جذباتیت کے ہاتھوں مجبور ہوکر جو اہلِ خانہ سے فرمائش کرتے ہیں کہ گھر بسانے کا اہتمام کیا جائے‘ وہی کچھ مدت کے بعد (اپنی عقل کا) ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں کوئی پوچھے تو اُن کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے ؎
وہ جو شادی شدہ بھگتتے ہیں
ہاں وہی زندگی ہماری ہے
میرزا نوشہ‘ یعنی غالبؔ نے جہاں اور بہت سے فلسفے بگھارے ہیں‘ وہاں اپنے شعروں میں گھریلو زندگی کی طرف بھی خاصے بلیغ اشارے کیے ہیں‘ مثلاً: ؎
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں تِرا راہ گزر یاد آیا
بے گھر بسائے سکون کی زندگی بسر کرنے والے جب ناشکری پر کمر بستہ ہوتے ہیں تو پھر کسی کے سمجھائے سمجھتے ہیں نہ کسی کے روکے رکتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں کوئی بات اُن کی کھوپڑی میں سماتی نہیں۔
ہاں‘ کچھ ہی مدت بعد جب پانی سَر سے گزرنے لگتا ہے تب ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں اور ایسے میں وہ زبانِ بے زبانی سے کہے بغیر نہیں رہتے ؎
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
شادی سے پہلے انسان کسی طور سمجھ نہیں سکتا کہ وہ جس کھمبے کو ہاتھ لگانا چاہتا ہے اُس میں دوڑنے والا کرنٹ بجلی گھر کے بند ہوجانے پر بھی ختم نہیں ہوتا! بہت سے ''دانائے راز‘‘ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد انسان کو پتا چلتا ہے کہ زندگی کس بلا کا نام ہے اور اِسے بلا کو کنٹرول کرنے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ گھر بسانے کے بعد انسان کے وقت کا بیشتر حصہ گھریلو زندگی کو تباہی سے بچانے کی کوششوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے میں کوئی زندگی کا لطف کس طور پاسکتا ہے؟ اسی کیفیت کو لیاقت علی عاصمؔ نے کچھ یوں بیان کیا ہے ؎
ایسی دستار سے کیا فائدہ ہے تم ہی بتاؤ
دیکھتے رہتے ہو ہر وقت کہ سَر ہے کہ نہیں!
ہمارے احباب میں بھی طالوت اختر‘ نعمان اور عمر راشد سمیت کئی ہیں‘ جو گھر کے بسنے کی منزل سے ابھی دور ہیں۔ ان میں سے بعض کی یہ گستاخانہ رائے بھی ہے کہ انہوں نے ہمارے انجام سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔اس لیے شادی کا لڈو کھانے سے اب تک گریزاں ہیں! ہمارے بارے میں یہ سُوئے ظن اگرچہ اِس نوعیت کا ہے کہ اُنہیں ہماری طرف سے کسی طور معافی نہیں ملنی چاہیے مگر خیر‘ یہ بھی کیا کم ہے کہ کسی نے ہم سے کچھ سیکھا ہے! اس حقیقت سے ملنے والی طمانیت ہی ہمیں اُن کے خلاف نالش سے باز رکھتی ہے اور ہم دل ہی دل میں اُن کے شکر گزار بھی ہیں کہ اُنہوں نے ہمارے تجربے کو رائیگاں نہ جانے دیا اور کچھ سیکھتے ہوئے مزید بہت کچھ سیکھنے سے باز رہے ہیں!
بہر کیف‘ جو بھی اِس دور میں گھر بسانے کے لیے اُتاؤلا ہوا جاتا ہے۔ اُس کی خدمت میں اتمامِ حُجّت کے طور پر ہم نواب مصطفٰی خاں شیفتہؔ کی یہ تاکید پیش کرنا چاہیں گے ع
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بندِ قبا دیکھ!