تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-11-2018

عورت کی محبت اور خدا کی محبت

جب انسان کسی سے عشق میں مبتلا ہوتاہے ‘تو اس کے دماغ کی ایک عجیب حالت ہوجاتی ہے ۔ اسے اٹھتے بیٹھتے اپنے محبوب کا دیدار درکار ہوتاہے ۔ اپنے محبوب کی ایک مسکراہٹ کے لیے وہ لاکھ جتن کرتا ہے ۔ جب کہ اس کا ذرا سا تغافل یا اس کی طرف سے رقیب کی ایک ذرا سی حوصلہ افزائی پہ اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے ۔ اس کی تمام تر خوشیاں ایک شخص سے قربت تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ یہ محبت اس قدر شدید ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اپنے ہاتھ سے اپنی جان لے لیتا ہے ۔ جب وہ اپنی محبت سے دور ہوتاہے تو وہ نہایت غمگین ہو جاتا ہے اور جب وہ اس کے قریب ہوتا ہے ‘تو خوشی سے کھل اٹھتا ہے ۔ اپنے اس غم اور خوشی کو انسان الفاظ میں بیان کرتا رہا ہے ۔ دیوانوں کے دیوان شاعروں نے لکھ دیے ہیں ‘ جن میں وصل کی مسرت اور فراق کا دکھ بیان کیا گیا ہے۔
جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے ‘ وہ عشق میں مبتلا ہوتا آیا ہے ۔ یہ محبت دو قسم کی ہے ۔ ایک عورت سے محبت اور دوسری خدا سے محبت ۔جب کہ مال یا دنیا سے محبت ان سے الگ ہے ۔عورت سے محبت کو عشقِ مجازی کہتے ہیں اور خدا سے محبت کو عشقِ حقیقی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے ۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عشقِ مجازی ہی عشقِ حقیقی کی راہ ہموار کرتاہے ۔ اس لیے کہ انسان پہلے کسی انسان سے محبت کرتاہے ۔ جب اسے یہ محبت حاصل نہیں ہوتی ‘تو پھر اس کا دل تڑخ جاتا ہے ۔ وہ ویرانوں کا رخ کرتا ہے اور پھر وہ مجذوب بن کر خدا کی محبت میں ڈوب جاتا ہے ۔یہاں ایک لطیفہ سنیے: ایک لڑکا کسی ویرانے میں جاتا ہے ‘ جہاں سات مجذوب دریاں بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک نے پوچھا‘ بتا ئو بیٹے تمہیں کیا پریشانی ہے ۔کس چیز نے تمہیں اس ویرانے میں ہمارے پاس آنے پر مجبور کیا۔ لڑکا کہتا ہے کہ میں ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا‘ اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے ۔ مجذوب کہتاہے کہ اندر سے اپنی دری نکال کر لے آئو اورادھر ہمارے ساتھ ہی بیٹھ جائو۔ اب ہم آٹھ ہو گئے ہیں ۔ 
کیا عشقِ مجازی ہی عشقِ حقیقی کی گزرگاہ ہے ؟ اس بارے میں اپنے استاد سے جو سیکھا‘ وہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔ان دوقسم کے عشق میں بہت فرق ہے ۔ جب انسان اپنے جیسے ایک انسان کی محبت میں مبتلا ہوتا ہے‘ تو وہ اس انسان کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔ یہ انسان اسے ستاتا ہے ‘ رلاتا ہے ‘ اس کا استحصال کرتا ہے ۔ جب کہ خدااپنے سے محبت کرنے والوں کا استحصال نہیں کرتا۔ یہ انسان /محبوب خود بھی ان حالات کے ہاتھوں مجبور ہوتاہے ‘ جو خدا کی طرف سے اس پر بیت رہے ہوتے ہیں ۔ ہو سکتاہے کہ یہ مجبور انسان خود کسی اور کی محبت میں مبتلا ہو ؛لہٰذا وہ اسے مثبت جواب نہ دے سکے ۔ کسی بھی انسان سے محبت عارضی ہوتی ہے ‘ سوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں سے کی جانے والی محبت کے ۔ جیسے جیسے عمر گزرتی ہے ‘ چہرے پہ جھریاں پڑنے لگتی ہیں ‘کھال ڈھیلی ہو جاتی ہے ‘ وزن بڑھ جاتا ہے ‘ بال گر جاتے ہیں ‘ انسان بد نما دکھنے لگتاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اکثر صورتوں میں اس محبت میں کمی آنے لگتی ہے ۔
سب سے بڑھ کر اگر انسا ن کی انسان سے محبت کو کوئی چیز ختم کرتی ہے ‘تو وہ وصل ہے ۔ جب وہ اپنے محبوب کو پا لیتا ہے ۔ اس کے ساتھ رہنے لگتاہے ‘تو پھر رفتہ رفتہ اجنبیت کا تجسس ختم ہونے لگتاہے ۔وہ بچے پیدا کرتاہے ۔ خدا کی طرف سے اس پر اولاد کی محبت نازل ہوتی ہے ‘ جو محبوب سے محبت پر اثر انداز ہوتی ہے ‘ پھر روزگار اور زندگی کے خوفناک مسائل اس کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جس کی خاطر انسان زہر پینے کو تیار ہوتا ہے ‘ شادی اور کچھ بچوں کے بعد اسی محبوب سے منہ چھپاتا پھر رہا ہوتا ہے ۔ 
آپ دنیا کی کسی حسین عورت سے پوچھ لیجیے کہ کیا وہ second optionبننے کے لیے تیار ہے ؛ اگر ایک شخص کو اس کی محبوبہ دھتکار دیتی ہے اور اس دھتکارنے کے بعد وہ ؛اگر تمہیں اپنی محبوبہ بنانا چاہے تو کیاتم اسے قبول کر لو گی ؟ سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنی اس بے عزتی کو قبول کرے ۔ وہ کہے گی کہ میں تو اس سے زیادہ حسین ہوں ۔ میں کیوں second optionبنوں ۔اسی طرح دنیا کے ہر غیر معمولی شخص کی ایک انا ہوتی ہے ۔ ایک بہت بڑا باکسر کسی چھوٹے باکسر کے ساتھ اپنا موازنہ کبھی پسند نہیں کرے گا۔ کرکٹ کا بہت بڑا کھلاڑی چھوٹے کھلاڑیوں میں اپنا شمار کبھی پسند نہیں کرے گا۔ اسی طرح خدا جو کہ سب خوبصورتیوں سے بڑی خوبصورتی ہے ‘ وہ اپنے آپ کو دوسرے یا تیسرے نمبر پر رکھے جانا کبھی بھی قبول نہیں کر تا۔ اس کا دروازہ تو سب کے لیے پوری زندگی کھلا ہی رہتاہے ‘لیکن اس طرح کا مذاق وہ برداشت نہیں کرتا کہ ایک حسین عورت نے مجھے ٹھکرا دیا ہے ۔ وہ تو مجھے مل نہیں سکتی ؛لہٰذا اب وقت گزاری کے لیے خدا سے ہی محبت کر لیتا ہوں ۔ وہ تو کہتا ہے کہ مجھ سے ہی محبت کرو اور سب سے بڑھ کر کرو ۔ میں ہی تو ہوں محبت کے لائق۔
خدا تو وہ ہے ‘ جس نے زمین پر انسان کو سکون حاصل کرنے کی خاطر دو جنسوں میں پیدا کیا ۔ جس نے انسان کے دماغ میں وہ کیمیکلز اور جلد میں وہ nervesپیدا کیں ‘ جن کی وجہ سے وہ مخالف جنس سے سکون حاصل کرنے کے قابل ہوا ۔ یوں عورت کی محبت بھی خدا کی محبت کا ایک چھوٹا سا جزو تو کہلا سکتاہے ۔ یہ جزو اگر انسان کی پوری زندگی کا مرکز بن کر رہ جائے ‘تو وہ انسان ایک کمتر چیز کی محبت میں دیوانہ ہوا پھر رہا ہے اور کوئی بھی اسے عقلمند نہیں کہہ سکتا ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک انسان کے سامنے سائیکل اور لینڈر کروزر کھڑی ہوں ا ور وہ سائیکل کا انتخاب کر لے تو اسے کون عقل مند کہے گا ؟
استاد فرماتے ہیں کہ عورت کی محبت انسان کے دماغ کے اس حصے میں موجود ہوتی ہے ‘ جسے reptilian brainکہتے ہیں ۔ یعنی کہ دماغ کا وہ سب سے نچلا حصہ ‘ جو کہ انسان reptiles‘یعنی سانپ وغیرہ کے ساتھ شیئر کرتاہے ۔ یہ محبت انسان اور ہر جاندار کی بقا کے لیے پیدا کی گئی ہے‘ تاکہ وہ مخالف جنس کے پاس جائے اور اپنی نسل بڑھائے۔ جب کہ خدا کی محبت عقل والے ‘سب سے اوپر والے دماغ کے حصے cortex brainمیں ہے ۔ جب انسان علم و عقل کی مدد سے خدا کو پہچان لیتا ہے‘ تو پھر اسے خدا اس قدر خوبصورت نظر آتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ بڑھ کر محبت اسی سے کرنے لگتا ہے ۔ خدا سے زیادہ محبت کے قابل کون ہوگا ‘ جس نے انسانوں کو نر اور مادہ کی دو جنسوں میں پیدا کیا ۔ جس نے انسان کی کھوپڑی پہ عقل نازل کی۔ جس نے انسان کو لباس پہنایا ۔ جس نے ماں اور باپ جیسے رشتے پیدا کیے اور انسان کے سر پہ ان رشتوں کا سائبان تخلیق کیا۔ جس نے زمین کو انسان کے لیے قابلِ رہائش بنانے کے لیے اس میں مقناطیسی میدان ‘ اوزون اور دوسری تمام protectionsپیدا کیں ۔ 
کالم مکمل ہو چکا ہے ؛تاہم خدا سے محبت اور عورت سے محبت پر کسی روز مزید لکھنا چاہئے۔کوشش کروں گا کہ جلد اس پر مزید لکھوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved