حکومتی کارکردگی کے سو دن کا کائونٹ ڈائون جاری ہے۔ پرفارمنس اور گورننس کے حوالے سے عوام نا امیدی اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ دوسری طرف حکومت روز نئے جواز تلاش کرکے اپنی ''فیس سیونگ‘‘ کی کوشش میں مصروف ہے۔ اہداف کے تعین سے لے کر نتائج کی برآمدگی تک سنجیدگی اور تجربہ کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے فیصلوں کے نتیجے میں ہونے والی سبکی اور ناکامی کا دفاع کرنے پر جتنی محنت ''ترجمانوں‘‘ کو کرنا پڑ رہی ہے‘ اس سے بہت کم توجہ ''پریکٹیکل اپروچ‘‘ پر دی جائے تو یقینا بیل منڈھے چڑھنے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ آئے روز ہر وزیر ایک نیا عذر لیے ہوئے ہوتا ہے کہ فلاں وجہ سے ہم کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
اب تان ٹوٹی ہے بیوروکریسی پر آ کر۔ وزیر اعظم عمران خان بھی بے اختیار بول اٹھے کہ بیوروکریسی ہمیں پریشان کر رہی ہے۔ اس حقیقت کو عمران خان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ میدان کرکٹ کا ہو یا سیاست کا انحصار ٹیم پر ہی کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹیم نا تجربہ کار ہے‘ اور اسے غیر معمولی اور ماہر پروفیشنلز کی معاونت اور رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ خصوصاً پنجاب میں عمران خان کے نائب اور وزیر اعلیٰ‘ عثمان بزدار تو خود امور حکومت سے نا واقف اور اکثر معاملات میں تاحال بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ ایوان وزیر اعلیٰ میں افسران کی تعیناتیوں سے لے کر صوبائی دارالحکومت میں کچرے کی مقدار میں دن بہ دن بڑھتے ہوئے ریکارڈ اضافے تک‘ ان کا ویژن اور گورننس کہاں ہیں؟ اس کے دفاع میں آج کل مارکیٹ میں ایک فقرہ خوب بک رہا ہے کہ ''عثمان بزدار کو لائٹ نہیں لینا‘‘ آئندہ چند ماہ میں عثمان بزدار کا ایک ''نیا روپ اور چہرہ‘‘ عوام کو نظر آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ شہر میں گندگی اور کوڑے کے ڈھیروں میں ریکارڈ اضافے کو روکنے کے لیے کونسی ''راکٹ سائنس‘‘ درکار ہے؟ بد قسمتی سے پنجاب حکومت عملاً چار گروپس میںکام کر رہی ہے‘ اور ان چاروں گروپس کا ''ایک پیج‘‘ پر نہ ہونا ہی بیڈ گورننس کی ایک وجہ ہے۔ بڑے منصوبے، میگا پروجیکٹس تو ایک طرف‘ یہاں شہری سہولیات کی عوام تک فراہمی بھی محال ہے‘ تو ایسے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا ''نیا چہرہ اور نیا روپ‘‘ کب آئے گا اور عوام کی کب سنی جائے گی...؟ اس کا جواب تو شاید دفاعی محاذ پر مامور ترجمانوں کے پاس بھی نہیں ہے۔
واقفانِ حال یہ بخوبی جانتے ہیں کہ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا تو انہوں نے امور حکومت چلانے کے لیے صرف قابلیت اور مہارت کی بنیاد پر افسران کا انتخاب کیا۔ مذکورہ افسر نے ماضی میں کسی کے بھی ساتھ کام کیا ہو، چودھری پرویز الٰہی نے کسی قسم کا سیاسی تعصب اور پسند نا پسند کا عنصر غالب نہیں آنے دیا۔ نتیجتاً پاپولر بیوروکریسی کی ایک ایسی ٹیم بن گئی جس نے چودھری پرویز الٰہی کی نہ صرف معاونت کی بلکہ اہداف کے حصول کے حوالے سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کی انتظامی ٹیم میں شامل افسران کی اکثریت شہباز شریف کے دورِ حکومت میں کام کر چکی تھی‘ لیکن چوہدری پرویز الٰہی نے اسے عناد اور انا کا مسئلہ بنا کر مذکورہ افسران کو ''ڈس کوالیفائی‘‘ نہیں کیا۔
بعد ازاں 2008ء میں شہباز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد رعونت اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ پانچ سالوں میں پنجاب میں کام کرنے والے افسران کو چن چن کر کھڈے لائن لگایا‘ بلکہ بیشتر کا تو کیرئیر بھی خراب کرنے سے گریز نہ کیا۔ تعصب اور منفی طرز فکر کی پالیسی نے بیوروکریسی کو غیر اعلانیہ طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک پرو (ن) دوسری اینٹی (ن) اور اس طرح بیوروکریسی کے اندر مزاحمت اور نفرت کا بیچ بو دیا گیا اور عملاً ایسا گروپ بیوروکریسی پر غالب آ گیا جو افسران کی تعیناتیوں سے لے کر ترقیوں تک پر بھی اثر انداز ہونے لگا۔ اس گروپ نے منظور نظر اور تابعدار افسران کو پُرکشش اور اہم عہدوں پر تعینات کروایا اور ناپسندیدہ افسران کو ایسا ''کھڈے لائن‘‘ لگایا جن میں اکثر تو گھر بیٹھے ریٹائرمنٹ کو جا پہنچے‘ اور بیشتر کو اتنا خوار اور ذلیل کیا کہ وہ طویل رخصت لینے پر مجبور رہے ... غضب خدا کا افسران کی ترقیوں کی فائلیں کئی کئی سال ذاتی عناد کی وجہ سے دفتروں میں مقفل رہیں اور ایسا ایسا پروفیشنل اور قابل افسر ضائع کیا گیا جس کا ماضی چیخ چیخ کر اس کی مہارت اور پروفیشنلزم کی گواہی دیتا رہا‘ لیکن چند آنکھ کے تارے اور راج دلارے بیوروکریٹس نے کسی قابل اور ماہر افسر کے پیر لگنے ہی نہیں دیے۔
اب وہی روش موجودہ حکومت اختیار کیے ہوئے ہے جو سراسر متعصبانہ اور منفی طرز حکومت ہے۔ آپ کسی افسر کو پرکھے بغیر کیسے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ آپ کی حکومت کے لیے مفید یا نقصان دہ ثابت ہو گا۔ چند لاڈلے اور منظور نظر اور سہولت کار افسران کی وجہ سے بیوروکریسی کی کثیر تعداد کو محض یہ کہہ کر مسترد یا ''ڈس کوالیفائی‘‘ کر دینا کہ یہ شہباز شریف کے دور حکومت میں کام کر چکے ہیں‘ یقیناً نامناسب اور نان پریکٹیکل رویہ ہے۔ موجودہ حکومت کو ماضی کے حکومتی ادوار سے سبق حاصل کرنا چاہیے تاکہ اسے ان مسائل، تضادات اور بحرانوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جن سے سابقہ حکومتیں ٹکراتی رہی ہیں۔
خیال رہے‘ یہ وفاق پاکستان کی اعلیٰ ترین سروس کے لوگ ہیں، یہ کوئی امرتسر یا دہلی سے نہیں آئے‘ اسی وطن عزیز کے شہری اور آپ ہی لوگوں کی طرح محب وطن ہیں، انہیں اچھوت نہ بنائیں۔ ان کی پیشہ ورانہ مہارت کے مطابق ان کو مصلحت اور بے جا مداخلت سے پاک ''شارٹ ٹرم ٹاسک‘‘ دے کر میدانِ عمل میں اتاریں تو سہی... پھر دیکھیں ڈلیوری اور گورننس کیا ہوتی ہے... وزرا اور دیگر اہم شخصیات کی شکایات اور تحفظات پر پوسٹنگ، ٹرانسفر کرنے سے پہلے سو بار سوچ لینا بہتر ہے تاکہ بعد میں خفگی اور سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دوسری طرف بیوروکریسی کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ تمام افسران ''آلہ کار اور فرنٹ مین‘‘ نہیں ہوتے... اور نہ ہی احد چیمہ اور فواد حسن فواد ٹائپ افسران بیوروکریسی کا کوئی ''ماڈل یا فیس‘‘ ہیں۔
چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر، آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی، آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار اور آئی جی سندھ کلیم امام جیسے افسران کے انتخاب سے بلا شبہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ان حضرات کو مینڈیٹ اور ٹاسک دیںکہ وہ پراگریس ریویو میٹنگز میں جزا اور سزا کا موثر نظام بنائیں۔ اور افسران کی تقرریاں و تبادلے کارکردگی کی بنیاد پر ہی کیے جائیں..."Chain of command"ــ کے ساتھ ساتھ "Right man for Right job"ـکے فارمولے کو اولین ترجیح دی جائے۔ اس پریکٹس کو چھ ماہ کیلئے آزمائشی بنیادوں پررائج کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں ... بصورت دیگر وہ دن دور نہیں جب یہ بات زبان زد عام ہو گی کہ ''ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘۔
حکومتی وزراء کو الفاظ کی فضول خرچی سے روکنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اگر خیالات اور وژن کی آمدن نہ ہو تو ایسی فضول خرچی گلے پڑ جاتی ہے۔ نتیجہ سپریم کورٹ کے روبرو وضاحتوں، معذرتوں اور ندامتوں کی صورت میں عوام دیکھ چکے ہیں۔ عجلت اور ردعمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے وفاق اور پنجاب حکومت کو سبکی اور ندامت سے دوچار کیا۔ معاملہ ڈی پی او کے تبادلے کا ہو یا پنجاب اور اسلام آباد کے سابق آئی جیز کا، انجام جگ ہنسائی... تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ''جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ کے مصداق حکومتی مشینری پر اعتماد اور انحصار کی پالیسی کو اپنایا جائے تاکہ بیوروکرسی میں غیر یقینی اور بد اعتمادی کی کیفیت کا خاتمہ ہو سکے اور وہ یکسوئی اور جانفشانی سے اپنے فرائض منصبی سرانجام دیں۔ حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان بہترین ورکنگ ریلیشن شپ ہی موجودہ انتظامی بحران کا یقینی خاتمہ کر سکتی ہے۔