تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-11-2018

روح زخمی ہوگئی ہے

کسی بھی معاملے کو مکمل طور پر درست کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ بات کہاں تھی اور کہاں تک پہنچی ہے یا پہنچائی گئی ہے۔ کوئی بھی معاملہ جب منطقی حد سے گزرتا ہے‘ تب ہی خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔ حقوق غصب کرنے کا سلسلہ جب حقیقی محرومی تک پہنچتا ہے تب قیامت ڈھانے پر تُلتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت کے لیے کہا گیا ہے ؎
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم
اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں! 
ہمارا اجتماعی کیس بہت مختلف ہے۔ معاملہ جسم تک رہتا تو کوئی بات نہ تھی۔ یہ سب کچھ تو انسان جھیل ہی لیتا ہے۔ یہاں معاملہ روح کے زخمی ہونے تک پہنچ گیا ہے۔ اور روح بھی فرد کی نہیں‘ قوم کی۔ جب ایسا ہوتا ہے تب فکر و نظر کے قوٰی مضمحل ہونے لگتے ہیں‘ آنکھیں دیکھتے ہوئے بھی بہت کچھ نہیں دیکھ پاتیں‘ ذہن استدراک کی منزل سے دور ہوتا جاتا ہے اور فیصلہ سازی و عمل کا چراغ ٹمٹمانے لگتا ہے۔ 
ایک زمانے سے معاشرے پر بے حسی طاری ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ جہاں بے حسی ہو وہاں بے ضمیری بھی جنم لیے بغیر نہیں رہتی۔ بے حسی اور بے ضمیری مل کر بے یقینی کو جنم دیتی ہیں۔ اور یوں اجتماعی بے توقیری جلوے بکھیرنے لگتی ہے۔ 
اب تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ ہم نے ذہن سے کام لینا کب ترک کیا تھا۔ بے ذہنی کا یہ عالم ہے کہ یہ حقیقت بھی فراموش کردی گئی ہے کہ ذہن نام کی کوئی چیز بھی ہوا کرتی ہے! مسائل کا حل سوچنے کے بجائے محض پریشان ہو رہنے کو کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ کوئی بھی ریاست از خود کام نہیں کرتی۔ کوئی نہ کوئی نظام ہوتا ہے تو کچھ ہوتا ہے‘ بات بنتی ہے۔ کسی نظام کا نہ ہونا یعنی ''بے نظامی‘‘ کی حالت بھی خیر ایک نوع کا نظام ہی ہے مگر یہ محض جملۂ معترضہ ہے۔ ؎ 
عجب جہاں میں ہماری مثال ہے صاحب 
کسی ہنر کا نہ ہونا کمال ہے صاحب 
دنیا بھر میں ریاستی مشینری نہ صرف یہ کہ ہوتی ہے‘ بلکہ اپنے وجود کو قدم قدم پر منواتی بھی رہتی ہے۔ کسی بھی ریاست کے باشندوں کو معلوم اور محسوس ہونا چاہیے کہ ریاستی مشینری ہے اور بخوبی ہے۔ ہمارے ہاں ریاستی مشینری کا معاملہ بھی ع 
ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے 
کی منزل میں اٹک کر رہ گیا ہے۔ ریاستی مشینری کا وجود یوں برائے نام ہے کہ موجود ہوتے ہوئے بھی غیر موجود سا دکھائی دیتا ہے۔ بے عملی نے ریاستی مشینری کی جڑوں میں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے۔ معاملات کی خرابی اس قدر ہے کہ کوئی ایک معاملہ بھی ڈھنگ سے نمٹتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایک طرف معاشرتی پیچیدگیاں اور دوسری طرف معاشی ابتری۔ ہر خرابی اپنے ساتھ بہت سی اضافی خرابیاں لاتی ہے۔ ایسے میں جو نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں وہی ہمارے ہاں برآمد ہو رہے ہیں۔ پورے معاشرے پر عمومی بے رغبتی سی چھائی ہوئی ہے۔ زندگی کے نام پر صرف ہاؤ ہُو سنائی اور دکھائی دے رہی ہے۔ تمام معاملات ''کام چلاؤ‘‘ کیفیت کی نذر ہوچکے ہیں۔ معاشرے کی اساس سمجھا جانے والا ہر معاملہ اپنی اصل سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ 
جسم کا زخمی ہونا بھی قیامت ڈھا جاتا ہے مگر خیر‘ زندہ رہنے کی اُمید تو ہوتی ہے۔ انسان کسی نہ کسی طور جسم کی خرابی دور کرکے نئے عزم کے ساتھ منزل کی طرف روانہ ہونے کا ارادہ کرتا ہے اور اس ارادے کو عملی جامہ بھی پہناتا ہے۔ روح کا زخمی ہو جانا کچھ اور ہی معاملہ ہے۔ روح زخمی ہوجائے تو معاملات کی بساط الٹ‘ پلٹ اور لپٹ جاتی ہے۔ روح کے زخمی ہونے کو زندہ رہتے ہوئے بھی موت کی طرف کا سفر سمجھیے۔ سرِدست ہم موت کی طرف ہی تو بڑھ رہے ہیں۔ مندمل تو خیر کیا ہونا ہے‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روح کا زخم گہرا ہی ہوتا جارہا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ اِس زخم کے اندمال کے بارے میں سوچا بھی نہیں جارہا۔ ہم اس طرف متوجہ ہونے کو تیار نہیں۔ روح کے زخمی ہونے ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ معاشرہ بہت سے معاملات میں انتہائی پستی کو چُھو رہا ہے۔ 
سیاست کا چلن یہ ہے کہ محض آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیے۔ اور ہم آنکھوں میں دھول جُھنکوانے کے لیے تیار ہیں۔ اور تیار ہی کیا‘ ہم تو ایسا کیے جانے پر خوش بھی ہیں! معیشت کا معاملہ یہ ہے کہ جس قدر بھی گلا گھونٹا جاسکتا ہے گھونٹیے‘ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر ہم کچھ کہے بغیر کہتے ہیں ''صاحب! مزا نہیں آیا‘ ذرا اور زور سے!‘‘ کسی بھی بند گلی میں پھنسنا انوکھی بات نہیں۔ اقوام پر یہ وقت آتا ہے مگر ایسے میں ہمت ہار کر بیٹھ رہنے کو کافی نہیں سمجھا جاتا۔ بند گلی سے نکلنے کے بارے میں سوچا جاتا ہے اور جو کچھ سوچا جاتا ہے اُس پر عمل کرنے میں کوئی قباحت محسوس کی جاتی ہے نہ تاخیر روا رکھی جاتی ہے۔ یہاں قصہ یہ ہے کہ اب تک لوگ اس حقیقت ہی کو تسلیم نہیں کر رہے کہ ہم بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ جب ایک حقیقت تسلیم ہی نہیں کی جارہی ہے تو اُس سے گلو خلاصی کے بارے میں کیونکر سوچا جائے گا؟ 
ریاستی مشینری کی طرف سے ہمیں یعنی عوام کو جس نوعیت کا فیڈ بیک ملنا چاہیے وہ نہیں مل پارہا۔ اس کا ایک ذیلی یا ضمنی سبب یہ بھی ہے کہ ریاستی مشینری میں بھی تو اِسی معاشرے کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو خرابیاں پورے معاشرے میں بہ درجۂ اتم پائی جاتی ہیں وہی ریاستی مشینری کا بھی حصہ ہیں۔
معاشرے کو درست کرنے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہ نہیں کیا جارہا۔ ریاستی مشینری سے لوگ آس لگاتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا کرے گی جس سے زندگی کی سمت درست ہو اور سفر روانی سے جاری رہے‘ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ معاشرے اور ریاست کی درستی کے نام پر جو اقدامات کیے جارہے ہیں وہ آنکھوں میں مزید دھول جھونکنے کی کوشش سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ معاشرے کے تانے بانے کو الجھایا اور بکھیرا جارہا ہے۔ بگاڑ کو دور کرنے کے نام پر کیے جانے والے اقدامات سے بگاڑ محض بڑھ رہا ہے‘ کم نہیں ہو رہا۔ اس وقت ہمیں کرنا تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر سب سے پہلے اپنی اصل کی طرف پلٹنا ہے۔ ہمیں ہمارے خالق نے جو واضح ہدایات عطا فرمائی ہیں ان پر غور کرکے نہیں رہ جانا بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہونا ہے۔ ہم اپنی اصل‘ یعنی مذہبی اقدار اور اصولوں کو بھول بیٹھے ہیں۔ زندگی کا ہر شعبہ دین کی واضح ہدایات سے یکسر محروم دکھائی دے رہا ہے۔ جسم پر نمودار ہونے والا ہر زخم ایک خاص حد تک تکلیف دیتا ہے۔ روح پر لگنے والے کچوکے جب زخم کی شکل اختیار کرتے ہیں تب پورا وجود شدید خرابی اور ابتری کی نذر ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کچھ بھی اچھا لگتا ہے نہ بہتر نتائج پیدا کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ روح پر لگنے والا ہر زخم اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنا بھلا سوچیں‘ درستی کی طرف مائل ہوں‘ مجموعی پیش رفت یقینی بنانے کی فکر کریں۔ ہمیں روح کے ہر زخم کے اندمال کی فکر لاحق ہونی چاہیے۔ اس کے لیے اپنی اصل سے رجوع لازم ہے۔ زمانے کی خرابیوں کا سامنا اپنی اعلیٰ اقدار کا دامن تھامنے کی صورت ہی میں کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ کام فوری اور جنگی بنیاد پر کرنا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved