سپریم کورٹ کے حکم پر سابق صدر اورجنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) میں ڈال دیا گیاہے۔یعنی اب وہ زمینی، فضائی اور سمندری راستوں سے بیرون ملک نہیںجاسکیںگے۔جنرل صاحب فوری طور پر تو بیرون ملک جانا بھی نہیںچاہتے ہوں گے ، وہ پانچ سال تک چھوٹے چھوٹے فلیٹس کے بند کمروں میںبریک فاسٹ، لنچ اورڈنر پارٹیوں سے شدید بور ہوکر وطن کی فضائوں میں لوٹے ہیں۔لہٰذا اب چند دن تو اسلامی جمہوریہ میں قیلولہ کرنا چاہیں گے۔ جنرل مشرف ’گارڈ آف آنر‘ کے ساتھ پاکستان سے سدھارے تو ان کا زیادہ وقت لندن اوردبئی میں گزرتا رہا۔ لندن میںمجھے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ جنرل مشرف کی میزبانی کا شرف حاصل ہواتھا۔یہ جون 2010ء کی بات ہے، لاہور اوراسلام آباد سے چند صحافی جنرل مشرف کی سیاسی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کے قیام کے سلسلہ میںلندن پہنچے تھے۔ ہم نے سات جون کو لاہور سے لندن کیلئے رختِ سفر باندھا ۔گرمی اس قدر شدید تھی کہ محسوس ہوتاتھاسورج نے لاہور سے جپھی ڈال رکھی ہے۔ قیامت خیز گرمی اوراس پر بائیس بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے یوں لگتاتھاکہ قوم ’’یوم لوڈشیڈنگ ‘‘منارہی ہے۔ سورج کی حدت نے لاہور شہر کو ’’ لاہور دوزخ ہائوسنگ اتھارٹی‘‘ بنا رکھا تھا۔ ایسے ماحول میںجنرل صاحب تو کجا ہمیں چنگیز خان کی طرف سے بھی بلاواآتاتو ہم لاہور سے لندن ہجرت کرجاتے۔ یہاں ہمارا مقصد لاہور کو لندن سے کم تر ثابت کرنا ہرگز نہیںہے۔لاہور وہ شہر ہے جس کے بارے میں میرے ملک کے معروف گلوکار طارق طافو سکنہ بازارسمیاںمحلہ جج محمد لطیف نزد ٹبی تھانہ نے کہاہے کہ …لہور، لہور اے …میںخود بھی لاہور کا باسی ہوں۔میںلاہور میں آباد ہوں اورلاہور مجھ میںبستا ہے …ذاتی طور پر تو میں گجرانوالہ، گجرات،سیالکوٹ اورشیخوپورہ کو بھی لندن کے ہم پلہ سمجھتاہوںمگر ملکہ ترنم نورجہاں سے حسد کرنے والے ایک استاد فن نے ’’توہین ثقافت ‘‘کی تھی۔ایک مفلوک الحال اورغریب استا د سے اس کی نیم چڑھی مگر دولت مند شاگردہ نے پوچھا : استاد جی لتااورنورجہاں میںکیافرق ہے؟استاد نے جواب دیاوہی جو شیخوپورہ اورلندن میںہے… اہلیان شیخوپورہ براہ کرم اس نقطہ نظر کو اس ناہنجار استاد کے ’’نامہ جگت‘‘ میں تحریر فرمائیں۔جہاں تک میری حب الوطنی اورجمالیاتی حسیات کا تعلق ہے میں شیخوپورہ کے ہرن مینار کے سامنے لندن کے BIG BEN(بگ بین)کو کچھ بھی نہیںجانتا۔ اپنے ان نیک خیالات کا اظہار نگران وزیر داخلہ ملک حبیب کے لہجے میںکروںتو اسے یوں پڑھا جائے کہ شیخوپورہ کے سامنے لندن کی کوئی حیثیت نہیں۔اسی طرح میاںنواز شریف کے سامنے بھی کسی کی سیاسی پوزیشن کچھ نہیں۔ نگران وزیر داخلہ ملک حبیب کے بیان نے الیکشن کی دال میںکچھ کالاکالا شامل کردیاہے۔ملک حبیب نے اگرچہ اپنے وضاحتی بیان میں یہ فرمایاہے کہ وہ غیر جانبدار ہیںاورغیر جانبدار ہی رہیںگے مگر اسکے باوجود کالاکالا سفیدنہیںہوسکابلکہ پیلا،نارنگی اورنسواری سا ہوگیاہے۔ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں‘ جن میںپیپلز پارٹی، تحریک انصاف،جماعت اسلامی،قاف لیگ، ایم کیوایم، عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں‘ نے نگران وزیر داخلہ کی جانب سے میاں نواز شریف کو ملک کا سب سے بڑا سیاسی لیڈر قرار دینے اورآئندہ انتخابات میںووٹ مسلم لیگ نون کو دینے کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیاہے کہ انہیںفی الفور ان کے عہدے سے الگ کیا جائے۔ نگران وزیر داخلہ نے تو منتخب وزیرداخلہ کا ریکارڈ توڑ ڈالاہے۔ جیسا ملک حبیب نے کیاہے‘ ایسا تو کبھی ملک رحمان نے بھی نہیں کیاتھا…ملک رحمان تیری یاد آئی ملک حبیب کے آنے کے بعد…ہائے اوئے ملکا… نگران ملک حبیب کے مضحکہ خیز بیان پر یوں تو سبھی نے ردعمل کا اظہار کیاہے مگرعوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان سینیٹر زاہد خان نے ایک تجویزبھی پیش کردی ہے۔زاہدخان کاکہناہے کہ نگران وزیر داخلہ کے بیان کے بعد الیکشن کی ضرورت دکھائی نہیںدیتی ،حکومت ویسے ہی نون لیگ کے حوالے کردی جائے۔تجزیہ کار رئوف کلاسرا کو نگران وزیر داخلہ کے بیان پر حیرت ہوئی ہے ۔ان کے خیال میں ملک حبیب سرکاری ملازم رہے ہیں ،انہوں نے اپنی نوکری پکی کرنے کی کوشش کی ہے۔ مراد یہ ہے کہ ملک حبیب نے ’’غائب ‘‘ کے کسی اشارے پرآئندہ سوچے سمجھے سیٹ اپ میںایڈوانس کے طور پر اپنی خدمات پیش کردی ہیں۔پنجابی کے بے مثل شاعر وارث شاہ سے منسوب کیاجاتاہے کہ ’’ وارث شاہ جب بولتا ہے تو دانشمندوں کے لئے اس میں اشارے موجود ہوتے ہیں‘‘۔جس طرح غالب نے کہاتھا: ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا صلائے عام ہے یاران ِ نکتہ داں کے لئے میرزا غالب کی طرف سے صلائے عام کی دعوت ملنے پر نکتہ اعتراض کے طو پر عرض ہے کہ نون لیگ کے رہنمائوں نے پورے پانچ سال یہ مطالبہ کئے رکھا کہ ’’جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ چلایاجائے‘‘۔لیکن دوسری طرف جب جنرل مشرف اپنی خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے لوٹے تو میاں نوازشریف کے دل میںان کے لئے کچھ اس قسم کے احساسات جاگ اٹھے کہ ’’جلاوطنی اذیت ناک ہوتی ہے ،اس کا احسا س انہیںتب ہوا جب وہ خود جلاوطنی کاٹ رہے تھے‘‘۔ جنرل مشرف کے حوالے سے میاں صاحب کے خیالات، جذبات اورنظریات میں180ڈگری کی تبدیلی کے پیچھے کیا ہے؟ جنرل مشرف کے بارے میں میاں صاحب کے خیالات ہمدردانہ اورملک حبیب کے جذباتِ نگرانہ کو ملاکر پڑھنے کی کوشش کریںتو مستقبل کے نقشوں کاسراغ ملتاہے۔ چند روز قبل پاکستان میںامریکہ کے سابق سفیر ریان سی کروکر نے پاکستانی انتخابات کے حوالے سے تبصرہ فرمایاتھاکہ مسلم لیگ نون اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آسکتی ہے ،پیپلز پارٹی اپنی جیتی ہوئی چالیس سیٹیں کھودے گی اوریوں ایک ہنگ پارلیمنٹ کی پیشگی اطلاع دی گئی۔امریکہ میںایک طویل عرصہ سے دوسیاسی جماعتیں یعنی ری پبلکن اورڈیموکریٹک ہی سامنے آتی ہیںجبکہ پاکستان سیاسی پارٹیوں کا جنم استھان بنادیاگیاہے۔ جنم استھان بنائے جانے سے مراد یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ میںسیاسی جماعتوںکی افزائش نسل کیلئے باقاعدہ فنڈنگ کی جاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے مرحوم ’’ڈان‘‘جنرل ضیاء الحق نے سندھ میں پیپلز پارٹی کوکمزور کرنے کے لئے جہاں لسانی اورمذہبی جماعتوں کی پرورش وپرداخت کی وہاں انہوں نے علیحدگی پسندوں سے بھی ’’جادو کی جپھیاں ‘‘ ڈالی تھیں۔کیاکوئی کہنہ مشق مائی کالال یہ ثابت کرسکتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی ان کاوشوںسے قومی سلامتی ناقابل تسخیر ہوچکی ہے؟ حضوروالا !یہی وہ حکمت عملیاں تھیںجن کی وجہ سے عروس البلاد کراچی میں گلی گلی بلیک ہول اور نوگوایریاز بن چکے ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو ستر سالہ نصیر اللہ بابر کو کراچی کا نگران بناکر قدرے امن وامان قائم کردیاتھامگر یہ وہ بد نصیب شہر ہے کہ جہاں 12مئی 2007ء کے دن دوبارہ باون بے گناہ شہریوں کا خون بہایاگیاتھا۔ کہاجارہا ہے کہ پاکستان بدل گیاہے ۔جس روز کراچی میں باون بے گناہوں کی لاشیں گرائی گئی تھیں‘ اسی شام اسلام آباد میں جنرل مشرف نے ’’رینٹ اے جلسہ عام ‘‘ میں مکہ لہراتے ہوئے یہ بیان دیاتھاکہ ’’عوامی طاقت کے سامنے آنے والے کچلے جائیںگے‘‘۔اس وقت جنرل مشرف کو آئین توڑنے کے الزام میںغداری، ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے، لال مسجد آپریشن ، بگٹی قتل اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل جیسے مقدمات کا سامناہے۔ مندرجہ بالامقدمات کے ساتھ ساتھ جنرل مشرف پر 12مئی کے دن کراچی میںہونے والے قتل عام کا مقدمہ بھی درج کیا جائے۔ علاوہ ازیں نو سالہ دورِ حکمرانی میںان سے سرزد ہونے والے جرائم میںشریک ہم نوائوں کو بھی فرنٹ لائن پارٹنر شپ کے الزام میں یوں دھرنا چاہیے: اُترا تھا جس پہ باب ِ حیا کا ورق، ورق بستر کی ایک، ایک شکن میں شریک تھی
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved